کیوں بھاگ جائیں پاکستان ؟

ڈاکٹر  کرن سنگھ اسی ریاست جموں کشمیر کے سٹیٹ سبجیکٹ ہیں۔ جموں و کشمیر کے پہلے اور آخری صدر ریاست رہے ہیں اور پہلے گورنر کے طور بھی کام کرچکے ہیں۔ جو لوگ کشمیر مسئلے کو سمجھنا چاہیں، ڈاکٹر صاحب سے رجوع کریں اور نہ صرف اپنی ذات کے ساتھ انصاف کریں بلکہ اس ریاست کے ایک کروڑعوام کے ساتھ ساتھ ملک کے سوا ارب لوگوں کو بھی سلیقے کے ساتھ زندہ رہنے کا موقع فراہم کریں۔ آگے اسی مضمون کے درمیانی سطور کے آس پاس کہیں ڈاکٹر کرن سنگھ کے سیاسی نظرئیے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ریاست سے مرکزی سیاست کے ڈپارٹمنٹ میں اُن کی منتقلی کے بعدیہاں مرکزی کانگریس کے اپنے ہی قوانین کے تحت گردش ایام کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔پھر جانے مانے ماہر اقتصادیات شری ایل کے جہا کو جب گورنر کے عہدے پر فائز کیا گیا تو اپنے سیاسی حقوق کیلئے برسر پیکار ریاستی عوام کو کچھ حد تک ذہنی سکون نصیب ہوا تھا۔یہی وہ دور تھا جب جموں کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صاف و شفاف اور غیرجانب دارانہ طریقے سے انتخابات عمل میں لائے گئے تھے اورکشمیر کا مسلٔہ حل ہوجانے کی امید پیدا ہوگئی تھی، لیکن کچھ دیر بعد ہی ریاست میں اقتدار کو چلانے کیلئے عوام کے حقیقی طور منتخبہ نمائندوں کو’’ دیش دشمن‘‘ قرار دیا جانے لگا۔ تب کے صحیح حالات جاننے کیلئے اُسی دور میں گورنر کے عہدے پر تعینات شری بی کے نہرو کی خود نوشتہ سوانح حیات کا مطالعہ کیا جا ئے تو بہتر ر ہے گا۔ حا لات کو اس انداز سے اُلجھایا جارہا تھا کہ بی کے نہرو سے برداشت نہ ہوسکا اور اُنہوں نے اپنا عہدہ چھوڑنے یا پھر ریاست سے باہر تبدیل ہوجانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ بی کے نہرو کی تبدیلی کے بعد گور نر کی کرسی پر جگموہن کو بٹھایا گیا اور اُنہوں نے وہی کچھ کیا جو گورنر بی کے نہرو نے انجام دینے سے صاف انکار کیا تھا۔ جگموہن کا پہلا دور سازشوں اور افراتفری کی نذر ہوا۔ تب سے کشمیر کے حالات سنبھل نہیں پائے ہیں۔ جگموہن جب ۱۹۹۰ء میں پھر سے ریاستی گورنر بنا کر کشمیر ڈپیوٹ کئے گئے تو حالات اس قدر تباہ کن صورت اختیار کر گئے کہ مرکزی سرکارکو جگموہن کو کشمیر سے پانچ ماہ بعد ہی واپس بلانا پڑا تھا۔ ابھی وادی کا جو بُرا حال ہے، اس میں سب سے بڑا حصہ جگموہن کا ہی ہے۔ اتنا سا فرق ضرور ہے کہ ۲۰۱۵ء میں بی جے پی اور پی ڈی پی کی ملی جلی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد سرکار کی غلطیوں کے انبار لگ گئے اور کوئی سات ماہ قبل غلطیوں کے اسی انبار کے نیچے سرکار ٹوٹ گئی تھی۔ اب جموںکشمیر کے موجودہ گورنر ستیہ پال ملک نے کشمیر میں آزادی مانگنے والے لوگوں کو پاکستان جانے کیلئے کہا ہے۔ ۳۱ ؍ جنوری کو جموں میں ایک عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ علیحدگی پسند تباہی و بربادی کا کچھ خیال بغیر ہی نوجوانوں کو بندوق اُٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ بندوق سے بربادی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں لگتا ہے ۔ گورنر نے آزادی کا مطالبہ کرنے والے لوگوں کو پاکستان جانے کیلئے کہا۔ بی جے پی کی حریف جماعتوں کا ذکر کرتے ہوئے گورنر کا کہنا تھا کہ دہلی کی برسراقتدار رہ چکی کچھ سیاسی جماعتیں کشمیر کو صحیح ڈھنگ سے سنبھال نہیں سکی ہیں اور اس پیچیدہ مسئلے کا حل تلاش کرنے کے بجائے وہ سازشوں میں مصروف رہیں۔ گورنر کے ذہن کی پیداوار اس طرح کے خیالات سامنے آنے پر حصولِ حقوق کیلئے پچھلے ۷۰ سال سے حصولِ حقوق کے لئے برسر پیکار کشمیری عوام کے ارادوں میں کوئی فرق آتا، تو اس بیان کے خلاف وہ اپنا ردعمل ظاہر کرنے کھل کر میدان میں آجاتے ۔لوگ جانتے ہیں کہ لیڈر لوگ اپنے مفادات کی فکر میں جیسے پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں اور جو کچھ ایک جماعت کی پالیسیوں کا پیروکار رہتے ہوئے ہضم کیا جاتا ہے، ویسے ہی دوسری پارٹی میں شامل ہوتے ہوتے اُس کی اُلٹی کردیتے ہیں۔ نہیں تو کوئی بھی سوال کرسکتا ہے کہ ستیہ پال جی کانگریس میں بیٹھے بیٹھے اس طرح کی باتیں کیوں نہیں سوچا کرتے تھے؟ وہ بھارتیوں کے لئے نیشنل اہمیت کے کشمیر کے مسئلے کے بارے میں اتنی دیر تک کیوں کرچپ بیٹھے تھے؟ وہ تب بھی مشتعل نہیںہوئے جب ۲۰۱۶ء میں ریاست کے سابق صدر ریاست و سابق گورنر ڈاکٹر کرن سنگھ پارلیمنٹ کے اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ کرن سنگھ نے واضح کیا تھا کہ جموں کشمیر ریاست بھارتی وفاق میں ضم نہیں ہوئی ہے بلکہ عارضی الحاق کی وساطت سے یونین میں شمولیت اختیارکی تھی۔ الحاق کو مشروط کہتے ہوئے اُنہوں نے کہا تھا کہ ۱۹۴۷ء میں الحاق کی رُو سے فقط تین شعبوں کو وفاق کی تحویل میں دیا گیا ہے۔
  ڈاکٹر کرن سنگھ کے علاوہ شرد یادو نے بھی کچھ اسی طرح کے خیالات کااپنے اپنے مواقع پر اظہار کیا تھا۔ تب بی جے پی سرکار میں شامل کسی ایک بھی وزیر نے زبان تک نہیں ہلائی تھی۔ مرکزی وزیر داخلہ شری راج ناتھ سنگھ سر ہلا ہلا کر جیسے ڈاکٹر کرن سنگھ کے لفظ لفظ کی تائید کررہے تھے۔ جو بات کہنے پر کرن سنگھ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، اُسی بات کے لئے کشمیری عوام کو پاکستان میں دھکیلنے کیلئے کیوں کہا جائے؟ ایک موقع پر سابق وزیراداخلہ پی چدمبر م نے بھی کشمیر کے الحاق کو ’’مخصوص حالات‘‘ کا نتیجہ کہہ کر تاریخ کا ریکارڈ جزوی طور دُرست رکھا ۔ بے شک سرکاری ایوانوں میں حال ہی سوشل میڈیا سے وائرل ہوئے ’’الجزیر ہ انگلش‘‘ ویڈیو کو کوئی اہمیت نہیں مل سکتی ہے، مگر اس کو دیکھنے سے بھی کچھ حد تک ریاست کے سیاسی ماضی کا کچھ کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔اس ویڈیو میں آج کے جموں کشمیرکے نامساعد حالات کی بھی عکاسی کی گئی ہے اور اس کو سال ۲۰۱۸ء کے دوران جاری اہم سیریل ویڈیوز کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس ویڈیو میں قبل ۱۹۴۷ء دور کے ظلم و جبر کی منظر کشی کے بعد کشمیر مسئلے کی پیدائش کی ابتدائی وجوہات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ ۱۹۳۱ء میں شروع ہوئی جدوجہد ِکشمیرکا حوالہ دیا گیا ہے۔ پھر برٹش انڈیا کی تقسیم کی وجوہات اور قیامت خیز قتل و تباہی کے کچھ مناظر دکھائے گئے ہیں ۔ ویڈیو میںکشمیر کی تقسیم کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پاکستان کو ظاہری طور مہاراجہ ہری سنگھ پر بھارت کی طرف داری کرنے کا شک گزرا تھا۔ اس کا توڑ کرنے کی غرض سے پاکستان نے مسلح قیائلیوں کو جمع کرکے کشمیر بھیج دیا تھا۔اس وجہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور اس جنگ کے نتیجے میں جموں کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان دو حصوں میں بٹ گیا۔ بھارت کی نہرو حکومت نے کشمیر حل کے لئے اقوام متحدہ سے رجوع کیا ، جب کہ عالمی ادارے میں منظور ہوئیں نصف درجن قراردادوں پر ابھی تک بھی عمل در آمد ہونا باقی ہے۔ گورنر ستیہ پال ملک صاحب کی اطلاع کیلئے تب کے کشمیر کی داستان سنانے کیلئے یہی ایک ویڈیو آخری کسوٹی نہیں ہے۔ جموں کشمیر میں بھارتی فوجوں کے وارد ہو جانے سے متعلق تب کے تجزیہ نگار، برطانوی محقق ومورخ الیسٹر لیمب کے اُٹھائے گئے کچھ سوالات ہنوز جو اب طلب ہیں اور اس سلسلے میں بھی بھارتی حکومت کی جانب سے ابھی تک بھی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ الیسٹر لیمب کے حوالے سے ایک اور ویڈیو میں داستان الحاق کی سچائی کو مشکوک بنایا گیا ہے کہ بھارتی فوجی سرینگر ائر پورٹ پر ۲۷ اکتوبر صبح ۹ بجے سے ہی اُترنا شروع ہوگئے تھے، جب کہ حکومت ہند نے سرکاری طور جموں کشمیر ریاست کو بھارت کا حصہ بنائے جانے کا دعوی ۲۶؍ اکتوبر بعد دوپہر ہی کردیا تھا۔ ویڈیو کے مطابق برطانوی قانون کے تحت مہاراجہ ہری سنگھ ۱۵؍ اگست کی تاریخ تک بھارت یا پاکستان، کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کرنے کا مجاز تھا۔ چونکہ مہاراجہ کی طرف سے ایسا کوئی قدم نہیں لیا جاسکا تھا، اس لئے بھی جموں کشمیر لازمی طور۱۵؍ اگست کے بعد بھی ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت میں ہی اُبھر آیا تھا۔
بھارت نے بھی اس دوران ریاست کی آزادانہ حیثیت کو چلنج نہیں کیا تھا۔ تا ہم بھارت نے ۲۶۔ ۲۷ اکتوبر ۱۹۴۷ء کے بعد دو دستاویزات کے سہارے ریاست جموں کشمیر کو اپنی مملکت کا مشروط حصہ جتلایا ۔ اول ۲۶؍ اکتوبر کو دستاویز الحاق پر مہاراجہ ہری سنگھ نے دستخط کئے تھے اور دوئم جس دستاویز کو ۲۷؍ اکتوبر کے دن گورنر جنرل ہند لارڈ موؤنٹ بیٹن نے شرف قبولیت بخشا تھا۔ دو مزید دستاویزات کا بھی ذکر ہوا ہے۔ ایک، ۲۶؍ اکتوبر کو لکھے ہری سنگھ کا گورنر جنرل مونٹ بیٹن کے نام خط برائے فوجی امداد بعوض دستاویز (مشروط) الحاق اور دوسرا خط بغرض تعیناتی شیخ محمد عبداللہ بحیثیت ناظم اعلی برائے عبوری حکومت جموں کشمیر ریاست۔ ایک اور مکتوب ۲۷ ؍اکتوبر کا لکھا ہوا مہاراجہ کے نام موؤنٹ بیٹن کا ہے۔ اس مکتوب میں گورنر جنرل، مہاراجہ کو ریاست میں حالات سدھارنے کے ساتھ ہی جموں کشمیر ریاست کے حتمی الحاق کا معاملہ رائے شماری کے ذریعہ حل کرانے کی یقین دہانی دیتا ہے۔ کئی حلقوں نے ان خطوط میں دئے گئے تاریخوں کو متنازعہ قرار د یا ہے۔ جیسے مہاراجہ بہادر۲۶ ؍اکتوبر کے دن سرینگر سے جموں کی طرف بذریعہ سڑک سفر کررہا تھا، جب کہ دستاویز الحاق نئی دلی میں مرتب ہورہی تھی۔ ان حلقوں کے مطابق ایک ہی شخص کا بیک وقت سرینگر جموں روڑ پرسفر کرنا اور دلی میں بھی حاضر رہنا ممکن نہیں ہوسکتا تھا، پھر بھی مہاراجہ کے دستخط بھی ۲۶؍ اکتوبر کو دستاویز میں ہی ثبت کئے گئے ہیں۔ الحاق کی یہ کہانی حقیقت ہے کہ فرضی، مگر کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ قبائلی حملہ حقیقت نہیں بلکہ اس نام کی فرضی ہوا کھڑی کی گئی تھی اور بھارت نے اس کو بہانہ بنا کر ریاست جموں کشمیر پر فوج کشی کی تھی۔ غلط صحیح درکنار، تاریخ کے صفحات پر وزیر اعظم نہرو کی وہ تقریر قیامت تک اَن مٹ ہے جو ریاست سے بھارتی فوجیوں کی واپسی کو کشمیری عوام کی خواہشات کے تابع کرتے ہوئے سرینگر شہر کے تاریخی لال چوک میں کی گئی تھی۔ پنڈت نہرو کی اس تقریر کے حوالے سے کئی طرح کے شکوک و شبہات اور پروپیگنڈہ بازی اپنے آپ بے وقعت ہوجاتی ہے۔ بھار تی وج کی واپسی سے متعلق پنڈت نہرو کی اس تقریر کے دوران شیخ محمد عبداللہ بھی وہاں موجود تھے۔ جموں کشمیر کی آزادانہ حیثیت کی برقراری ریاست کے عوام کی جدوجہد آزادی کا لُب لباب رہا ہے۔ شیخ عبداللہ کی قیادت میں ۱۹۳۱ء میں شروع جدوجہد کا اول اور آخری نعرہ قیام ذمہ دار نظام حکومت تھا اور دوسرا نعرہ ہندو مسلم سکھ اتحاد تھا۔ ظاہر ہے کہ شیخ صاحب کو ایمرجنسی حکومت کا ناظم اعلیٰ مقرر کرتے وقت بھی بھارتی حکومت اورجموں کشمیر ریاست کے نمائندوں کے درمیان جموں کشمیر کی مکمل آزادی کا سوال غالب رہا تھا کہ بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو سرینگر کے لال چوک میں حاضر ہوکر اسی حقیقت کا اقرار کرنا پڑا تھا کہ ’’فوجوں کی واپسی تابعٔ مرضی ریاستی عوام ہے‘‘۔ بھارت کے آئین کا دفعہ ۳۷۰؍ بھی اسی حقیقت کا غماز ہے کہ جموں کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کی نوعیت مشروط ہے اور فقط تین شعبوں تک ہی محدود ہے۔ دیگر ریاستیں جہاں ملک کے ساتھ ضم ہوئی ہیں، وہاں جموں کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ کی منظور شدہ نصف درجن قراردادیں بھی ریاست اور ملک کے درمیان قائم تعلقات میں حائل ہیں۔ ایک حقیقت یہ بھی کہ جموں کشمیر کے عوام کے وطن کو دو حصوں میں بانٹا گیا ہے اور اس وجہ کو لے کر بھی یہاں کے عوام حالت اضطراب میں جیتے اور مرتے ہیں۔  
  گورنر ستیہ پال ملک کو ریاست کے موجودہ حالات کیلئے مقا می و پچھلے ۷۰؍ سال تک دلی میں برسراقتدار رہی کچھ سیاسی جماعتیں نظر آتی ہیں۔ گورنر کا یہ بیان اُن کیلئے کوئی بھی معنی رکھتا ہو تو ہو، مگرغیر جانب دار مبصرین کے لئے یہ بیان مسلٔہ کشمیر کی موجودگی پر توثیق کی مہر ثبت کرتا ہے اور ہر اعتبار سے حقیقت کشا ہے۔ حالانکہ کہ جموں کشمیر کے حالات کو بیان کرنے میں ستیہ پال صاحب کی زبان اُن کے ذہن پر منقش تصویر کی ترجمانی کرنے میں ان کا ساتھ نہیں دیتی ہے۔ جیسے بندوق کے خلاف بندوق چلانے میں دلی کو مقامی سیاسی کارندوں کے کندھوں اور جماعتوں کے اشتراک کی ضرورت نہ ہوتی تو گورنر اور صدر راج کو ۱۹۹۰ء سے سات سال تک نافذ رہنے کے بعد جیسا تیسا الیکشن کرانے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی ؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ملک صاحب اب اپنے آپ کے لئے تا حیات گورنر کی کرسی سنبھالے رہنے کا من بنا چکے ہیں اور ریاستی عوام کو ابدی طور گورنر راج کے مرید بنانے کا پہلے سے ہی منصوبہ بھی بنایا گیا ہو۔ شاید ملک صاحب اسی تر نگ میں سیاست دانوں جیساسیاسی چولہ پہن کر جمہوری عمل کی بحالی کے بجائے اپنا زیادہ تر وقت سیاسی بیان بازی میں صرف کررہے ہیں۔  
