ڈاکٹر سید افتخار امام نقوی
2024 ء میں پیٹرول جو اب لیڈ یا سیسہ سے کسی طرح نسبت رکھتا ہو ماحول دشمن قرار دیا جا چکا ہے ،ایس بسٹوس ہو یا گھریلو رنگ و روغن میں استعمال میں آنے والے رنگ بکھیرتے پینٹس سب مضر صحت ہو جاتے ہیں، اگر ان میں سیسہ مو جود ہو۔ سو سال قبل 1923ءمیں لیڈ یا سیسہ سے مزین پیٹرول متعارف ہوا تھا۔
اسی زمانہ میں کلورو فلورو کاربن جیسے کیمیکلز متعارف ہوئے اور ریفریجریشن کی صنعت میں انقلاب آیا یوں چیزوں کو سرد رکھنے کے لئے برفانی تو دوں کو جو امریکاسے ہندوستان جیسے دور دراز علاقوں تک پہنچائے جاتے تھے ،کی ضرورت نہ رہی لیکن یہ کیمیکلز بھی اسی بیسویں صدی کے اواخر میں اوزون کی زمین کے گرد موجود فضا ئی حصار کو تہس نہس کرنے کا سزاوار قرار دے کر متروک کر دئیے گئے ان پر خطر کیمیکلز کو متعارف کروانے کا سہرا ایک امریکی شہری تھامس مڈ گلے کو جا تا ہے جو ریاست اوہائیو کے شہر کولمبیا کا باسی تھا۔تھامس مڈ گلے نے کارنل یونیورسٹی سے انیس سو گیارہ میں میکینکل انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی تھی لیکن کیمسٹری کے مضمون سے خاصا شغف رکھتا تھا۔ اس زمانہ میں پیریاڈک ٹیبل کی ترتیب تیزی سے ہو رہی تھی اور وہ مختلف عناصر کی اس ٹیبل میں تنصیب کے مقام کے ذریعہ ان کے مسابقاتی کیمیائی درجات کا ماہر بدریہ اُتم ہو چکا تھا۔
اس میں یہ اہلیت پائی جاتی تھی کہ کس ایلیمنٹ کو کس ایلیمنٹ سے تبدیل کر دیا جائے تو کیا فوائد یا نقصانات ہو سکتے ہیں، اوہائیو ریاست ہی کا ایک شہر ڈیٹن اس زمانہ میں سائنسی اختراعات کے مرکز کی حیثیت کر لی تھی، رائٹ برادارز اسی شہر سے ہوائی جہاز کی ایجاد کا تمغہ اپنے سینے پر سجا چکے تھے۔
موٹر کار کی سواری میں روز بروز کوئی نہ کوئی نئی سہولت کاری ہو رہی تھی، نئے نئے پرزے بن رہے تھے اور کار میں استعمال ہونے والے ایندھن اور اس سے حاصل ہونے والی توانائی کے ضیاع کو کم ترین سطح پر رکھنے اور انجن کی نا گوار آواز کو ختم کرنے کی صلاحیت پر کام ہو رہا تھا اس کے لئے مناسب کیمیائی مرکب اینٹی نا کنگ ایجنٹ کی تلاش جاری تھی ،مڈ گلے نے اپنے پیریڈک ٹیبل کے علم کے ذریعہ اس راہ میں ایک ایسے پروجیکٹ میں جو 1918ءمیں شروع ہوا اور 1923 ءمیں ٹیٹرا ای تھائی لیڈ کی یافت پر ختم ہو اورا زبردست کامیابی بھی حاصل کی۔ لیڈڈ گیسولین جب متعارف ہوا تو نہ صرف نا گوار آواز ختم ہوئی بلکہ ایندھن کی کاردگی میں قابل قدر اضافہ ہوا۔
انسانی ضروریات نے نوع بشر کو قدرت کے مظاہر سے چھیڑ چھاڑ کی جانب مائیل کیا اور مختلف علوم جیسے کیمیا طبیعات ریاضیات وغیرہ سائنس کے جھنڈے تلے فروغ پائے۔ ہر سو پائے جانے والے پودوں ،پھلوں، پھولوں میں ایسی جڑی بوٹیوں کی شناخت ہوئی جن کو علاج معالجہ کا ذریعہ بنا لیا گیا۔زیر زمین مدفون نامیاتی مرکبات کو توانائی حاصل کرنے کا منبع بنایا گیا اور اگر یہ قدرتی مرکبات قلیل ہوئے تو بڑھتی ہوئی انسانی آبادیوں کی فلاح کے لئے غیر قدرتی عوامل کے ذریعہ ان کے حصول کی تگو دو ہوئی۔
یوں یورپ میں صنعتی انقلاب کی داغ بیل پڑی زراعت کے میدان میں بھی محیرالقول کامیابیوں نے بھوک کا خاتمہ کیا یا اس کی شدت میں اس طرح کمی ہوئی کہ اب قحط پڑنا بھی کم ہو گیا لیکن قدرت سے اس جنگ میں ایک طویل مدتی انسانی المیہ نے جنم لیا۔ جسے آج ہم ماحول کی ابتری سے جانتے اور پہچانتے ہیں اور ایک نیا رجحان سامنے آیا کہ اس دنیا کو سرسبزو شاداب رہنے دو صنعت و حرفت ایسی ہو کہ وہ نوع انسانی کی راحت کا ذریعہ بنے نہ صرف اس کی بلکہ دیگر حیاتی نمونوں کا بھی اور اس وقت کی رحمت کو آئندہ کی زحمت نہ بن جانے دیا جائے۔ایک توازن کو فروغ دے کر ترقی کے ان عوامل کو رد کر دیا جائے جو زندگی کے فروغ کی راہیں مسدود کریں، نہ ایسڈ رین ہو نہ کلوروفلورو کاربن کے ذریعہ اوزون کی چھتری میں شگاف نہ گرین ہاؤس گیسیں ہوںاور نہ بڑھتے ہوئے درجہ ٔحرارت نہ دہشت برپا کرتی خشک سالی ہو اور نہ غیر معمولی بارشیں جو دریاؤں کو یوں بھر دیں کہ سمندری سطح بلند کرکے ہنستی مسکراہتی بستیوں کو چشم شدن میں صفحہ ہستی سے مٹادیں۔