کیا روئی کے گالوں سے نجات ممکن نہیں؟

امتیاز خان
چند سال قبل وادی میں عدالت عالیہ کے حکم نامہ پر مادہ روسی سفیدوں کو کاٹنے کی مہم شروع کی گئی تھی اور بعد اذاں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی دی گئی تھی تاکہ مقررہ وقت پر مادہ روسی سفیدوں کی شاخ تراشی کیلئے اقدامات کئے جائیں تاہم صورتحال جوں کی توں ہے۔کورونا نہ ہونے کے باوجود آج بھی لوگ ماسک پہنے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ یوں کہا جائے جو لوگ کورونا کے ماحول میں ماسک پہننے کے عادی نہیں تھے ،وہ آج روئی کے گالوں کی وجہ سے ماسک پہنے ہوئے نظر آرہے ہیں۔وادی بھر روسی سفیدوں کے درختوں سے نکلنے والی روئی کی وجہ سے شہریوں کو سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ روئی کے ان گالوںنے اہل وادی کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ بہار کے موسم میں یہ روئی کے گالے کشمیریوں کیلئے ایک اور مصیبت بن جاتے ہیںجو کم از کم ایک ماہ تک جاری رہتے ہیں۔محکمہ صحت کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب سے روسی سفیدوں سے روئی کے گالے نکلنے شروع ہوگئے ہیں وادی کے ہسپتالوں میں زکام، کھانسی ، نزلہ اور گلے بند ہونے کی مریضوں کی تعداد میں دوگناہ اضافہ ہوا ہے۔ہسپتال حکام کا کہنا ہے کہ 15اپریل سے اب تک وادی بالخصوص شہر سرینگرکے مختلف ہسپتالوں میںکئی ہزاربچے الرجی کا شکار ہوچکے ہیں جبکہ مرد و خواتین بھی روئی کے ریشوں کے گلے اور ناک میں اترنے کی وجہ سے بخار، زکام، گلے کی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی وادی بھر میںلاتعداد روسی سفیدے(مادہ) موجود ہیں جن سے یہ روئی کے گالے نکل رہے ہیں۔

ایسا پہلی دفعہ نہیں ہورہا ہے بلکہ ہر سیزن میں اپریل کے وسط سے روسی ساخت کے سفیدوں سے اترنے والی روئی کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور روئی کے گالوں(pollen)سے لوگ سانس اور الرجی کا شکار ہورہے ہیں۔روئی کے گالوں سے نظام تنفس کی بیماری میں اضافہ ہورہا ہے اورطبی ماہرین کے مطابق لوگوں کوالرجی اور سانس کی دیگر بیماریوں سے احتیاطی تدابیر سے برتنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔بزرگوں کا کہنا ہے کہ پہلے زمانے میں کشمیر کی سڑکوں پر سفیدوں سے خارج ہونے والی اس طرح کی روئی نظر نہیں آتی تھی بلکہ اِس نئی مصیبت کا آغاز اْس وقت ہوا جب برسوں قبل کشمیر میں روسی سفیدے متعارف کرائے گئے۔ تب سے ہی ان سفیدوں سے خارج ہونے والی روئی سے لوگ ایک مہینہ زکام اور دیگر بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں ۔ اس مخصوس قسم کے سفیدے کی ان تمام برسوں سے یہاں زبردست نشوونما جاری و ساری ہے۔

 آج کے اس خوشگوار موسم میں بھی لوگ منہ اور ناک ڈھانپ کر چلنے پرمجبور ہیں کیونکہ ان سفیدوں سے گرنے والی روئی نظام تنفس کی بیماریوں کی بڑی وجہ بن رہی ہے۔عدالتی احکامات کے بعد اگر چہ حکومتی سطح پر کئی بار روسی نوع کے سفیدوں کو کاٹنے اور نئے روسی سفیدہ لگانے پر پابندی لگانے کے دعوے کئے گئے یا شاخ تراشی کے احکامات صادر کئے گئے تاہم زمینی صورتحال سے لگ رہا ہے کہ لوگوں کونجات دلانے میں اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں۔ان دنوں شہر سرینگر کے ساتھ ساتھ دیہات اور قصبہ جات میں روئی کے گالے فضامیں تیرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ہر ایک گھر ،سڑک،چوراہے اور میدان سفیدوں سے اترنے والی روئی سے سفید ہی سفید نظر آرہے ہیں۔فضا میں روئی کے تیرتے گالوں سے وادی کے شمال و جنوب میں سینکڑوں لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ہر دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہورہا ہے۔بچے اور بزرگ جہاں روئی کے انفیکشن سے بیمار ہوجاتے ہیں وہیں راہ چلتے لوگوں کو نہ صرف اپنے منہ ڈھکنے پڑتے ہیں بلکہ روئی آنکھوں میں چلے جانے کا ڈر بھی رہتا ہے اور اس صورتحال کی وجہ سے لوگوں میں زبردست تشویش کی لہر پیدا ہو گئی ہے۔

یہ سفیدہ ظاہر ہے کہ کشمیر کے ماحول سے بالکل موافقت نہیںرکھتا ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روسی سفیدے کے اس پرائے قسم کی درآمد سے کیا کسی قدر کشمیر کی اقتصادیات کو کوئی فائدہ پہنچا بھی ہے یا پھر اس سے الٹا ہمیں لینے کے دینے ہی پڑ ے ہیں؟ اس بات کو جاننے کیلئے ہمیں دو باتوں پر غور کرنا ناضروری ہے۔ اول یہ کہ اس درآمد شدہ قسم سے یہاں ایک مہینہ سے زیادہ عرصے تک ان سفیدوں سے خارج ہونے والی روئی سے ماحول کافی پراگندہ رہ جاتا ہے اور لوگوں کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔نظامِ تنفس پر متاثر ہوتاہے، عام شکایتیں مثلاًچھینکیں آنا،کھانسی بلکہ اس سے بھی سخت علامات کا وقوع پذیر ہوناعام سی بات ہوگئی ہے۔دوسری مصیبت یہ کہ تقریباً ایک مہینے تک یہ روئی ایک سماجی قنوطیت پیدا کرتا ہے، وہ اس طرح کہ یہ روئی کے گالے راہ چلتے لوگوں کے پیچھے پڑتا ہے، دکانوں، دفاتر اور مکانوں میں کھڑکیوں اور دروازوں سے اندر داخل ہوجاتا ہے اور لوگوں کے کپڑوں سے چمٹ جاتا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ سفیدے کی یہ مخصوص قسم اقتصادی لحاظ سے فائدہ بخش ہے کیونکہ اس سے میوہ پیٹیوں کے لیے قدرے نرم لکڑی حاصل ہوجاتی ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ محض ایک مخصوص فائدے کی بنیاد پر لوگوں کے حفظانِ صحت کو دائو پر لگایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سفیدہ کے نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہیں۔دوسری جانب جہاں تک کشمیر کے اپنے سفیدہ یعنی ’کشمیری سفیدہ ‘کا تعلق ہے تو وہ گویا ایک ہمہ جہت قسم کا درخت ہے جس میں کئی لحاظ سے سفیدہ کے دیگر اقسام کے مقابلے میں کئی طرح کے اضافی فاعدے ہیں اور جنگلاتی لکڑی مثلاً دیودار اور کائیرو وغیرہ کے بعدیہ تعمیراتی لکڑی کیلئے سب سے زیادہ موزوں بھی ہے ۔کشمیر میں روسی سفیدے کی تیس برس سے چل رہی خاص پرورش کی وجہ سے مقامی کشمیری سفیدے کو کافی دھچکہ لگا ہے۔ روسی سفیدے کو اندھا دھند طریقے پر اگایا جاتا رہا ہے اور اس کے مضرات کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے یہاں تک کہ یہ ہمارے لیے اب ایک مصیبت بن کر اْبھر گیا ہے۔دوسری طرف ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ شاخ تراشی بھی روئی سے نجات کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے اورسفیدے کی لکڑی بھی جلد تیار ہوسکتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سفیدوں کے شگوفے اپریل میں نکل آتے ہیں اور مادہ سفیدوں کے شگوفے سفید رنگ کے ہوتے ہیں جبکہ نر سفیدے کے شگوفے لال ہوتے ہیں اور اس طرح مادہ سفیدوں کی پہچان کی جاسکتی ہے اور شاخ تراشی کی جاسکتی ہے۔ماہرین کے مطابق سفیدوں سے اترنے والی روئی سے چھٹکارا پانے کیلئے فروری اور مارچ کے مہینوں میں ہی مادہ سفیدوں کی شاخ تراشی کی جائے جس کے نتیجے میں روئی پر80فی صد قابو پایا جاسکتا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس روئی سے کوئی زیادہ بڑی بیماری نہیں پھیلتی تاہم انفکیشن ضرور ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق سفیدوں سے گر رہی روئی نظام تنفس کے بالائی حصوں کو متاثر کرتی ہے اور بچوں میں انفیکشن ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے اور اس سے بچنے کیلئے ماسک سے منہ کو ڈھانپ لینا چاہئے۔اس اہم نوعیت کے ماحولیاتی مسئلہ کے حوالے سے بیدار ہوجانے کی ضرورت ہے، اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کی ضرورت ہے ۔ہمیں ضرر رساں پیڑ پودوں کونہ اْگانے کی خود بھی سعی کرلینی چاہئے اور دوسروں کو بھی بیدار کرنے کی تاکید کرنی ہے ۔

اس مسئلہ کو ایک ہی دفعہ ہمیشہ کیلئے حل کیاجانا چاہئے اور ماہرین کی سفارشات کی روشنی میں جو بھی کارروائی لازم بن جاتی ہے ،وہ کی جانی چاہئے تاکہ یہ مسئلہ ہر سال بحث کا موضوع نہ بنے۔جو بھی اقدامات کرنا ناگزیر ہیں ، وہ بلاتاخیر کئے جائیں تاکہ پولن الرجی کے خطرات ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دب جائیں ۔