کہنے کوتولوگ حامدکونوکرشاہ کہتے تھے مگرخوداُس کی سمجھ میں یہ کبھی نہیں آیاتھاکہ آخرلوگ اُسے ایساکہتے ہیں توکیوں کہتے ہیں۔وہ ایک نوکرتوضرورتھا مگراس کی نوکری میں شاہی کاشائبہ تک نہیں تھا ۔البتہ اُس کی نوکری میں اقداراوروقار کاایک ملاِجلارنگ ضرورتھا۔ وہ سرکاری نوکری کو نوکری سے زیادہ خدمت ِخلق کا ذریعہ سمجھتاتھا۔اُسے نوکری میں شاہی کی نہ چاہت تھی نہ حاجت۔وہ توامیری کے راستوں میں فقیری کی خاک چھانتاپھرتاتھا ۔ کبھی کبھی ترنگ میں آکرکہابھی کرتا تھا ،’’نہ میں شاہ ہوں نہ شاہوں کانوکرہوں ۔میں توبس شاہوں کومسندِ شاہی پربٹھانے والوں (عوام) کا ادنیٰ ساخادم ہوں ‘‘۔
اُس کی زندگی کابڑاحصّہ جموں سے کشمیر اورکشمیرسے جموں سرکاری کاموں کیلئے آنے جانے میں گذراتھا ۔کوہِ پیرپنچال پر چڑھنااُترنا اُس کی زندگی کامعمول بن چکاتھا لیکن اُس سب کے باوجود اُسے کبھی بھی کشمیر میں جاڑوں کے دِنوں میں ایک دودِن سے زیادہ رہنے کاتجربہ نہیں تھا لیکن اب کی مرتبہ اُس کی مصروفیات کچھ ایسی تھیں کہ اُسے ماہِ دسمبرکے آخری تین ہفتے لگاتارکشمیرمیں گذارناپڑے تھے ۔اُس کاقیام سرینگرشہرکے سرکاری مہمان خانے (Circuit House)میں تھا ۔سرکٹ ہائوس کے عین سامنے روڈکے دونوں اطراف قطاردرقطارآسمان کو چھوتے چناروں کے درخت کھڑے تھے ۔مگراب کی مرتبہ ان میں جوبن کاوہ رنگ نہیں تھا جوکبھی اُس نے گرمیوں میں دیکھاتھا ۔اُن کے حُسن کاغازہ بُری طرح اُترچکاتھا۔پتّے یاتوتمام کے تمام جھڑچکے تھے یاجھڑنے کے قریب تھے ۔خزاں کی ظالم ڈائن نے اُن کاساراحُسن نوچ لیاتھا ۔لان میں چناروں کے گِرے بے جان پتّے ہوائوں سے اِدھراُدھر اُڑتے پھرتے اپنی بے وقعتی کاالمناک منظرپیش کررہے تھے۔وہ آتے جاتے اِس منظرکوبڑی حسرت بھری نظروں سے دیکھاکرتاتھا ۔عالمِ تصّورمیں کبھی کبھی اُسے یوں محسوس ہوتاتھا جیسے کہ یہ چناراُس سے کچھ کہناچاہ رہے ہوں یاپھروہ چناروں سے کچھ کہناچاہ رہا ہومگراس تصوّراتی چاہت کے باوجود دونوں اِطراف سے کوئی پہل نہیں ہورہی تھی۔
ایک دن حسب ِ معمول جب وہ سوکراُٹھاتواُس نے دیکھابسترپراُس کے سراورجسم کے دیگرحصّوں کے اچھے خاصے بال گرے پڑے تھے جوکہ سفیدصاف ستھری چادرپر اوربھی نمایاں ہوگئے تھے۔اُس نے ان گِرے ہوئے بالوں کوسمیٹا،ہتھیلی پررکھااوردیرتک حیرت واستعجاب کابُت بنا انہیں دیکھتارہا۔اُس کے دِل میں خیال آیا کہ یہ بال جوابھی کچھ دیرپہلے اُس کے اپنے بدن کاحصّہ تھے وہ انہیں گرتے ہی پھینکنے کیلئے کس قدراُتاولا ہورہاہے ۔آخرایک دن جب اس بدن سے اسکی روح کی رخصتی ہوگی تو اُس کے لواحقین بھی اُسے قبرمیں اُتارنے کیلئے اِسی طرح اُتاولے ہورہے ہونگے جس طرح کہ وہ ان گرے ہوئے بالوں کوپھینکنے کیلئے اُتاولاہورہاہے ۔اس خیال کاآنا تھاکہ آنسوئوں کے قطرے اُس کی آنکھوں میں تیرنے لگے اوراُس نے بھرے دِل سے بالوں کوڈسٹبن میں پھینک دیا۔پھراُس نے گرم گرم کپڑے زیب تن کئے اوردِل کاغبار ہلکاکرنے کے ارادے سے ٹہلنے کے لئے باہرنکل گیا۔کچھ دیرلان میں گھومنے کے بعداُس کی نگاہیں چناروں کی بلندیوں پرمرکوزہوگئیں ۔ وہ بڑی دیرتک انہیں یونہی دیکھتارہا۔پھراُسے یوں محسوس ہوا جیسے ٹُنڈمُنڈ چناراپنے گرچکے پتوں کاماتم کررہے ہوں ۔پھروہ دوسرے ہی لمحے چناروں سے مخاطب تھا۔اُن کے درمیان جومکالمہ ہواوہ کچھ اسطرح تھا۔
حامد:۔آہ ! پیارے چنارو۔قدرت کے شاہکارو۔تم کیاسے کیاہوگئے ہو۔پتے کیااُترے کہ گویاتم بے لباس ہوگئے ۔تمہاری یہ ویرانی اورعریانی مجھے خون کے آنسورُلاتی ہے ۔کبھی کبھی سوچتاہوں کہ پتوں کایہ جھڑنا مرنے سے کم نہیں ‘‘۔
چنار:ارے صاحب پریشان ہونااورکرناتم صاحب لوگوں کی روائتی خصلت رہی ہے ۔ورنہ قدرت کاکوئی بھی کام مصلحت سے خالی نہیں ہوتاہے ۔ہربربادی میں آبادی کااورہرآبادی میں بربادی کاپہلوپنہاں ہوتاہے ۔یہ دونوں پہلواندرہی اندر ایک دوسرے کی راہ ہموارکرتے رہتے ہیں ۔ہمارے معاملے میں بھی اصل بات وہ نہیں جوآپ سوچ رہے ہیں ۔پتّوں کے جھڑنے سے ہم بے لباس ہوتے ہیں نہ ویران ہوتے ہیں اورنہ مرتے ہیں ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی نئے کپڑے پہننے کیلئے پرانے کپڑے اُتارکر الگ سے رکھ دیتاہے ۔ہم درختوں کی دُنیامیں پت جھڑکسی ویرانی کانام نہیں بلکہ نئے لباس کی آمدکو یقینی بنانے کانام ہے۔
حامد:۔ارے میاں تم توفلسفہ بھگارنے پراُترآئے میں توجھڑنے اورمرنے کی سادہ سی بات کررہاتھا۔ آخرجھڑنااورمرنا برابرنہیں تو اورکیاہے ؟۔ٹھیک ہے جھڑنے والوں کی جگہ نئے پتے نکل آئیں گے مگرجوایک مرتبہ جھڑگئے وہ توواپس نہیں آئیں گے نا۔آخریہ جھڑنا مرنانہیں تواورکیاہے ؟۔
چنار:ارے اوسادہ لُوح انسان جسطرح بالوں کے جھڑنے سے انسان نہیں مراکرتے ہیں اسی طرح پتّوں کے جھڑنے سے درخت بھی نہیں مراکرتے۔ بالوں کی جگہ نئے بال نکل آتے ہیں توپتوّں کی جگہ نئے پتے ۔درختوں کی جگہ نئے درخت توبندوں کی جگہ نئے بندے ۔یہ دُنیانئے پرانے کاکھیل ہے جوساتھ ساتھ چلتارہتاہے ۔یہی تسلسلِ حیات ہے ۔زندگی اورموت ایک دوسرے کاراز ہیں ۔زندگی میں موت توموت میں زندگی ہے ۔
حامد:چناربھائی اصل میں بات تومیں بھی یہی کررہاتھا ۔پّتوں کاجھڑنا ہوکہ درختوں کاگرنا ۔بالوں کاجھڑناہوکہ بندوں کامرنا ۔جھڑنامرناسب برابر ہے مگریار!آنے والوں کی خوشی تواپنی جگہ جانے والوں کاجانارُلاتاہے ۔اِس لئے کہ آج مرے توکل دوسرادن ۔پھرجانے والوں کوکون یادرکھتاہے۔
یہ سنتاتھاکہ چناروں پرایک سکوت کاساعالم طاری ہوگیا۔سکوت کی یہ کیفیت بڑی دیرتک چھائی رہی۔ آخرایک سن رسیدہ چنارسے رہانہیں گیا۔اس نے حامدکوگھورکردیکھااورکہا،’’ارے میاں تم سے اتنی چھوٹی اورسطحی بات کی توتوقع نہیں تھی۔خداکے بندے موت سے یوں ڈرتے نہیں بلکہ وہ توموت سے زندگی کی طرح محبت کرتے ہیں ۔وہ من چاہی نہیں رب چاہی زندگی گذارتے ہیں ۔اس لیے وہ مرکربھی مرتے نہیں بلکہ صرف جسمانی طور معدوم ہوتے ہیں ۔اُن کے اچھے کاموں کے باعث انکے نام ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ۔وہ شاعروں کی شاعری میں جیتے ہیں۔نثرنگاروں کی تحریروں میں موتیوں کی طرح چمکتے ہیں ۔وہ موسیقی کے سُروں میں سانسوں کی طرح دھڑکتے ہیں۔وہ سازِ حیات میں نہیں بلکہ اس سازِ کامضراب بن جاتے ہیں۔ ہوتے ہوتے وہ ایک لوک ورثہ بن جاتے ہیں اوراُن کانام اور کام نسل درنسل خُوشبوکی طرح پھیلتا ہی چلاجاتاہے ۔ہمیں ہی دیکھ لو۔گرماکے تپتے دنوں میں ہم سب کوبلامذہب ومِلّت خنک ہوائیں دیتے ہیں، دُلربا سائے دیتے ہیں اورپھرجاڑا آتے ہی پتّوں کاسائبان اُتارکرالگ رکھ دیتے ہیں۔خودجاڑوں کی مارکھانے کیلئے ننگ ڈھڑنگ ملنگوں کی طرح سینہ تان کرکھڑے ہوجاتے ہیں ۔پتہ ہے ہم ایساکیوں کرتے ہیں ؟بتاناتونہیں چاہتا تھا کیونکہ ہم نیکی کراوردریامیں ڈال کے فلسفہ پریقین رکھتے ہیں مگرسنناہی چاہتے ہیں توآپکوبتادیں کہ پت جھڑ اصل میں تبدیلی ٔ لباس کاکوئی راز نہیں بلکہ رازکوچھپانے کاایک بہانہ ہے ۔اصل بات توکچھ اورہے ۔اصل بات یہ ہے کہ قدرت ہم سے ایساخودکرواتی ہے تاکہ ہرے پتّوں کی بہاریں سردیوں کی سردہوائوں میں مزیدسردی کے اضافے کاباعث نہ بنیں ۔ ایسے میں جبکہ لوگوں کودھوپ کی شدیدضرورت ہوتی ہے پتوں کے جھومردُھوپ کے راستہ میں رکاوٹ نہ بنیں ۔ وہ کچھ دیررُکااور پھرٹھہرٹھہر کر بولنے لگا۔
’’یہ شائد اِسی کاصِلہ ہے کہ ہم مرکربھی نہیں مرتے ہیں ۔ہم ہمیشہ شاعروں اورادیبوں کی تحریروں میں رہتے ہیں ۔مصّورانِ فطرت کی تصویروں میں جیتے ہیں ۔محبانِ فطرت ہرزمانے میں ہمارے بارے میں کچھ نہ کچھ رقم کرتے ہی رہتے ہیں ۔اب تم ہی کہوہم مرکربھی کیسے مرسکتے ہیں ؟
مگرحامد صاحب تمہارامعاملہ دوسراہے ۔ تمہارے چندایک کے قدرے اچھاہونے سے سب کچھ اچھاتونہیں ہوجاتاہے۔ سب کچھ کااچھاہوناتو تبھی یقینی ہوسکتاہے جب تم جیسے نوکرشاہوں کی اکثریت اچھی ہوجائے گی ۔ورنہ سچ تو یہ ہے کہ تمہارے کہنے اورکرنے کے درمیان منافقت کے ہمالہ حائل ہیں۔کہنے کوتوتم خودکوعوامی نوکرکہتے ہومگرتمہارامزاج حاکمانہ ہے ۔تم کسی کے نہیں ہوتے ۔تم فقط اپنی ذات اورمفادکے گردگھومتے ہو۔تم حال اورمستقبل کومدنظررکھ کر کیاپلان بنائو اورچلائوگے کہ تمہیں اپنے ذاتی مفادسے آگے ایک قدم بھی کچھ نظرنہیں آتا ہے۔ تم نے نام نہادسنجیدگی کے نام پراپنے اردگرداناکی ایسی اونچی اونچی دیواریں کھڑی کرلی ہیں کہ ہمیشہ ایک دوسرے سے فاصلے بنائے رکھتے ہو۔ ہمیشہ سنیارٹی اوراتھارٹی کے بکھیڑوں میں اُلجھتے رہتے ہو۔ میاں تم عجیب مخلوق ہو۔کوئی میرٹ کیلئے لڑرہاہے توکوئی قواعدوضوابط کی نظراندازی کی نوحہ گری کررہاہے ۔تم عوامی نوکر جواپنے مسائل نہیں سلجھاسکتے ہیں عوام کے مسائل کیاسلجھائوگے ۔ذراسوچو جب خالق کے ہاں ہی ایسے کسی میرٹ کاچلن نہیں تو پھرتمہاری جیسی مخلوق کی رسّہ کشی کواس معاملے میں کس طرح بجاٹھہرایاجاسکتاہے ۔وہاں تودس سال کاآگے چلاجاتاہے اورسوسال کابوڑھادیکھتارہ جاتاہے۔ حامدمرنے کے بعدبھی جیناچاہتے ہوتوجھوٹی اناّ ،بڑائی اورتکبر کے حصارتوڑکر باہرنکل آئو ۔نزدیکیاں بڑھائو ۔فاصلوں کوگھٹائو ،پہلے خودمل کربیٹھو۔پھراپنے مسائل کے اندھیروں کولینے اوردینے کے جذبوں کی شمع جلاکرحل کی منزل دکھائو ۔اگرتم اپنے دِلوں سے کدورتوں اورنفرتوں کے ملبے ہٹاسکو توتبھی تم عوامی خدمت کے بوجھ کوزیادہ بہترڈھنگ سے اُٹھاپائوگے ۔کام میں کردار اوراخلاق کواپناشیوہ بنائو۔سوچو توسہی اگرہم بھی گرمیوں میں خنکی ہوائیں دینے کے بجائے گرم ہوائیں دیتے اورجاڑوں میں پت جھڑکرنے کے بجائے برفیلی ہوائوں کاقہرڈھاتے توپھرہمیں بھی کون یادرکھتا‘‘۔حامدصاحب سے کچھ بھی بن نہیں پارہاتھا ۔وہ یونہی بے بسی کے عالم میں اِدھرسے اُدھرگھومے جارہے تھے جبھی کسی کے گنگنانے کی آواز نے اِس کے تصّورات کاسلسلہ توڑدیا ۔دیکھاتوسامنے لان کے دوسرے کنارے اکبربھائی گنگنارہاتھا۔
یہی ہے دین وایماں کہ کام آئے انسان کے انساں ‘‘
���
کوہسارکرائی ادھم پور
موبائل نمبر؛9055551111