ارشاد احمد
گاندربل //اتوار کے روز سینکڑوں کشمیری پنڈتوں نے تولہ مولہ گاندربل کے مشہور راگنیا دیوی مندر (سالانہ کھیر بھوانی میلہ) منایا۔ چنار کے درختوں کے سائے میں واقع، مندر میں عقیدت مندوں کا ایک بہت بڑا ہجوم دیکھا گیا، جن میں سے زیادہ تر کشمیری پنڈت تھے، جنہوں نے ملک بھر سے سفر کیا۔عقیدت مند، ننگے پائوں چلتے ہوئے، گلاب کی پنکھڑیاں لے کر گئے اور دیوی کو خراج پیش کیا جب کہ مردوں نے مندر کے قریب ندی میں ڈبکی لگائی۔جیسے ہی عقیدت مند مرکزی مندر کے احاطے کے قریب جانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ جھپٹ رہے تھے، مندر کے احاطے میں بھجن کے نعرے گونجتے رہے اور کمپلیکس کے اندر موجود مقدس چشمے میں دودھ اور کھیر (چاول کی کھیر)پیش کرتے ہوئے دیکھے گئے۔تولہ مولہ میلہ، جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت ہے، پرامن طریقے سے گزرا کیونکہ انتظامیہ نے عقیدت مندوں کے لیے سیکورٹی سے متعلق سمیت وسیع انتظامات کیے تھے۔جموں کے ایک عقیدت مند، گوڈی زوتشی نے کہا کہ ہم ہر جگہ خوشحالی چاہتے ہیں۔ آج کشمیر میں حالات اچھے ہیں،میلے کے لیے انتظامات اچھے ہیں۔
ہم نے ہر ایک کی خوشی،خوشحالی اور کشمیری پنڈتوں کی کشمیر واپسی کے لیے دعا کی ہے۔ایک اور عقیدت مند، دلیپ کمارنے کہا کہ کشمیر میں 1990 کی دہائی سے حالات میں تقریبا ً80-85 فیصد بہتری آئی ہے۔ ہم بھی اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں،ہم جب بھی یہاں آتے ہیں دعا کرتے ہیں اور آج بھی ہم نے اپنی واپسی کے لیے دعا کی ہے۔ایک مقامی شہری بلال بٹ نے کہا کہ مسلم کمیونٹی نے مہمانوں کا کھلے دل سے استقبال کیا اور وہ چاہتے ہیں کہ کشمیری پنڈت وادی میں واپس جائیں۔ “ہر سال ہم یہ تہوار مناتے ہیں۔ یہ یہاں ایک ناقابل یقین، غیر متوقع بھیڑ ہے۔ہم نے اپنے گھر اپنے مہمانوں کے لیے کھلے رکھے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ یہ محبت، بھائی چارہ اور امن ہم یہاں ہمیشہ قائم رہے۔ درجنوں کشمیری پنڈتوں نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری دلی خواہش ہے کہ کشمیر سے باہر رہنے والے کشمیری پنڈتوں کی واپسی ہوجائے لیکن حالات سازگار ہیں نہ ایسا ماحول بنایا جاسکا ،آج تک کوئی حکومت کشمیری پنڈتوں کی واپسی میں سنجیدنہیں رہی۔
جانی پورجموں کے سرکاری رہائشی کوارٹر میں رہنے والے مٹن سے ہجرت کرنے والے کلدیپ ناتھ ولد راج ناتھ نے ا پنے دل میں دبے درد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ”جب سے کشمیری پنڈتوں نے وادی کشمیر سے ہجرت کی ہے ہم نے ایک پل کے لئے بھی دلی سکون اور راحت محسوس نہیں کی کیونکہ بہت ہی مشکل حالات اور وقت میں ہم لوگوں نے گھر بار چھوڑ ا تھا، ہم اپنے نئی نسل کو جو 1990کے بعد آئی، کشمیر کی باتیں بتاتے ہیں ان کو یقین نہیں آتا کہ واقعی ہم نے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی تھی‘‘۔ سوپور کے مضافاتی علاقہ بومئی سے تعلق رکھنے والی خاتون چنچل کماری نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہر دکھ سکھ میں حصے دار بنتے تھے، نہیں لگتا تھا کہ ہم الگ الگ مذہب سے تعلق رکھنے والے ہیں، کھانا پینا شادی بیاہ مرنا جینا سب میں ایک دوسرے کے ہاتھ بٹاتے تھے، لیکن بدقسمتی سے 1990 میں حالات نے اس قدر کروٹ بدلی کہ ہم مجبور ہوکر جموں چلے گئے جہاں کتنی مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ،ہم ہی جانتے ہیں۔انہوں نے کہا ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمیں نکالا گیا یا ہم نکلے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حالات نے اچانک کروٹ لی کہ ہم نے مجبوری کی حالات میں گھر بار پشتینی اراضی اور میوہ باغات چھوڑ کر جان بچانے میں ہی عافیت سمجھی، کتنے ہی پنڈت اس حسرت میں دنیا چھوڑ گئے کہ ان کی واپسی ہوگی، اب ہماری واپسی پر بھی دہلی سے لیکر کشمیر تک سیاست ہورہی ہے۔کھیربھوانی مندر کے اندر اور باہر مقامی مسلمانوں نے بڑھ چڑھ تیاریاں کی تھیں۔پوجا پاٹ میں ضروری چیزیں مسلمانوں نے چھوٹی چھوٹی دکانوں پر سجائی رکھی تھی مقامی دکاندار عبدالحمید نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ گزشتہ سال بہت کم پنڈت برداری سے تعلق رکھنے والے افراد آئے تھے لیکن اس بار خاصی تعداد میں کشمیری پنڈت شرکت کیلئے آئے ہوئے ہیں جس وجہ سے ہمیں کافی مسرت ہوئی ہے۔ مقامی مسلمانوں نے اپنے رہائشی مکانوں میں پنڈت برادری کے لئے رہنے اور کھانے پینے کے انتظامات رکھے تھے جبکہ تولہ مولہ میں واقع حیدریہ پبلک سکول کی انتظامیہ کی جانب سے پورے سکول میں رہائش کا معقول انتظامات کئے گئے تھے۔