گزشتہ کچھ عرصہ سے ہم لوگوں کو کہیں نہ کہیں ایسے شرمناک وناقابل معافی حادثات اور المیوںکی خبریں سننے، پڑھنے اور دیکھنے کوضرور ملتی ہیں کہ ہمارے ہوش اُڑجاتے ہیں ۔ اس تعلق سے آج کل سماجی رابطہ گاہوں ،ٹیلی ویژن چینلوں اور پرنٹ میڈیا پر ایک بڑی خبر کھٹوعہ کی آصفہ قتل اورجنسی زیادتی کیس کا چرچا اور اس کے ردعمل میں ملک بھر میںعوامی احتجاجوں اور ہمدردیوں اور سیاست دانوں کے بیانات چھائے ہیں ۔آصفہ جموں کے ضلع کٹھوعہ گائوں رسانہ کے محمد اختر کی بیٹی تھی جس کی بدنصیبی اوراسے زندہ چبانے والے راکھشسوں کی کہانی ہر انسانی دل کو مغموم کر کے چھوڑتی ہے۔ یہ معصوم بچی 10؍جنوری 2018ء کو اپنے گاؤں میں گھوڑوں کو چرا رہی تھی کہ ان درندو ں نے منظم سازش کے تحت اِسے اغوا ء کر لیا ، بے آبرو کردیا اور پھر ایک مندر میں اس کوچھپا دیا ۔ مندر ہندوئوںکی مقدس جگہ ہوتی ہے جہاں پر وہ پوجا کی جاتی ہے لیکن درندوں کو مندر کی کیا قدر؟بچی کے والدین نے معصومہ کو تلاش کیا مگر کو ئی اتہ پتہ نہ پایا تو پولیس اسٹیشن ہیرا نگر میں گمشدگی کی رپورٹ دی ۔ پولیس نے اپنی ڈیوٹی کی کوئی پراوہ نہ کر تے ہوئے سنی اَن سنی کر دی تاوقتیکہ17؍جنوری کو اس بچی کی نعش جنگل میں اس حالت میں ملی کہ لفظوں میں اس کا نقشہ کھینچا نہیں جاسکتا ۔ بچی کو اس بے رحمی سے مار اگیا تھا کہ ُاس کے پورے بدن پر چوٹیں ہی چوٹیں تھیں ۔اس کے سوگوار رشتہ داروںنے جب اس قتل کی تحقیقات کے لئے پولیس اسٹیشن کی عدم توجہی پر دھرنا دیا تو انصاف کی مانگ کرنے والوں کی قیادت کر نے والے وکیل طالب حسین کو گرفتار کر کے ان پر P.S.A لگا گیا لیکن اس ناروا کارروائی نے جلتی پر تیل ڈالا اور ریاست کے کونے کونے سے آصفہ کے حق میں آوازیںاٹھنے لگیں تو پولیس کو نہ صرف طالب حسین کو رہا کر ناپڑا بلکہ مجبوراً معاملے کی تحقیقات کاڈرامہ رچانا پڑا ۔ قواعد کے مطابق مقتول بچی کا DNAٹیسٹ کرایا گیاتو پتہ چلا کہ اس کے ساتھ گینگ ریپ ہوا ہے اور تڑپا تڑپا کر اس کی جان لی گئی ہے۔ حکومت نے مقامی پولیس اسٹیشن کی تفتیش کے بجائے مجرموں تک قانون کی رسائی روکنے والی حرکات کا سنجیدہ نوٹس لیا اورمعاملہ کرائم برانچ کو سونپ دیا گیا۔ یہاں سے سنگین جرم کی اصل سٹوری منظر عام پر آگئی اور مجرموں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی ۔ پکڑے گئے ملزموں میں دو پولیس اہلکار اور تھانے کے تفتیش کاربھی شامل ہے جس نے لاکھوں روپے مال پانی ہضم کرکے مقتولہ کے کپڑے فوررنسک لیبارٹری کو بھیجنے سے پہلے دھو ڈالے تاکہ مجرموں کی شناخت نہ ہو ۔ آصفہ کیس میں دھر لئے گئے آٹھ ملوثین کے نام ہیں : جیولن،سانجھی رام ، دیپک کھجوریہ ،سریندر کمار ،پاوش کمار ،وشال ،آنند دتا اور تلک راج۔
ریاست کی اس ننھی متقول بیٹی کے کیس میں کسی مذہب ،ذات ،قوم یا رنگ و نسل کا کوئی عمل دخل نہ ہو بلکہ انسانیت کے ناطے سوائے سنگھ پریوار اور اس ن کے چیلے چانٹوں کے سب لوگ انصاف مانگ رہے ہیں تاکہ ملک اور ریاست کی ہر بیٹی کو مجرموں سے سرکھشا ملے ، عزت اور وقار ملے ، قانون کا سہارا ملے۔شکر ہے کہ جس کسی نے بھی دنیا میں یہ الم ناک ادستان سنی وہ کڑے لفظوں میں مجرموں کی مذمت کر رہا ہے ،جب کہ ملک کے کونے کونے سے ’’آصفہ کو انصاف دو‘‘ کے لئے ریلیاں نکال رہے ہیں ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ قتل اور زیاتی کے کیس کے حوالے سے ہندو ایکتا منچ بھی ریلیاں نکال چکا ہے لیکن ملوثین کو قانون کی گرفت سے بچانے کے لئے اور وکلاء نے تو حد ہی کردی کہ کرائم برانچ کو اپنے ثبوت وشواہد پر مبنی داتاویز یعنی چالان عدالت میں پیش کر نے سے روکنے کے لئے خود قانون اور اپنے پیشے کی بے حرمتی کی ۔جموں بار ایسوسی ا یشن کے صدر سلاتھیہ نے جموں بند کال دے کر راؤن کاساتھ دینے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی ۔ بہر حال ہر جانب سے یہی آواز آرہی ہے کہ عدالت فاسٹ ٹریک بنیادوں پر عدالتی کارروائی سرانجام دے کر ملزموں کو قانون کی رُوسے جلد ازجلد پھانسی کی سزا دے اور جو لوگ ظالموں کو بچانے کی کوششیںکر رہے ہیں ان پر قدغن لگائیں تاکہ کسی اورآصفہ ، آسیہ ، نیلوفر ، شیلا ، سینتا کھٹوعہ جیسی ٹریجڈی کی بھینٹ نہ چڑھے اور ہر ماں بہن بیٹی محفوظ ومامون رہے۔4؍جنوری 2018ء کو ایک ایسا ہی معاملہ جب قصور پاکستان میں سات سال کی معصوم زینب کے ساتھ پیش آیاتھا تو مجرم عمران علی کو چند ہی دنو ں میں پھانسی کی سزا سنا دی گئی ۔ اس کا ہر انسان دوست فرد بشر نے خیر مقدم کیا۔
کھٹوعہ کی آٹھ سالہ بچی کے ساتھ جو بپتا پیش آئی اس پر صرف ریاست جموں و کشمیر میں ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی بچیاں ، بیٹیاں اور لڑکیاں وحشت ودہشت محسوس کر رہی ہیں اور حکام بالا سے سوال کر رہی ہیں کہ کیا وہ راکھشسوں کے رحم وکرم پر جییں گی؟اناؤ اُترپردیش میں ایک ۱۷؍سالہ لڑکی کی عصمت دری بی جے پی ممبر اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر نے کی تو بجائے اس کے متاثرہ لڑکی کو قانون انصاف دیتا،اس کے مظلوم باپ کوپولیس نے حراست میںلے کر اتنی ماراپیٹا کہ اس کی موت تھانے میں ہی واقع ہوئی۔ کھٹوعہ اور اناؤ کے المیوں نے ملک کو لرزہ براندام کیا اورعوام الناس کو آندھی کی طرح متحرک کیا تاکہ وقت کے راؤنوں ، بدمعاشوں ، اوباش سیاست کاروں ، پولیس وردی میں ملبوس قانون کے باغیوں کو بنت ِحوا کی عزت سے کھیلنے اور زندگیاں بے دردی سے چھین لینے سے روکا جائے اور ملک میں قانون کی حکمرانی کا بالو بالا ہو ۔ اس اعلیٰ وارفع مقصد کا حصول سہل و آسان بناتے ہوئے اور ملزموں کو بھر پور قانونی چارہ جوئی کا حق اداکر تے ہوئے جلد از جلد کھٹوعہ قتل کیس کے ملوثین کو پھانسی دی جائے اور اناؤ کے قتل کے زمہ داروں کو کیفر کرادر تک پہنچایاجائے تاکہ حرمت ِانسانیت کا پلڑابھاری رہے اور مجرموں کی سر کوبی ہو ؎
مسل دیتا ہے نازک تتلیوں کو
بڑاوحشی پرندہ بن گیا ہے
یہاں بیٹی بچائی جائے کیسے
یہاں انساں درندہ بن گیا ہے
…………………….
فون نمبر؛8522865235
ای۔میل۔ [email protected]