رواں سال جنوری میں ریاست جموں و کشمیر میں ایک ایسے سنگین جرم کا ارتکاب کیا گیا جس کے بارے میں پولیس کرائم برانچ چارج شیٹ کی تفصیلات سن کر انسانیت تڑپ اٹھی اور پوری ریاست سوگوار یت کے عالم میں ڈوب گئی۔ ۱۰؍ جنوری ۲۰۱۸ء کو آ صفہ رسانہ کٹھوعہ میں اپنے مکان کے ارد گرد اپنے گھر کے گھوڑے کو گھاس چرانے لے گئی لیکن سہ پہر ۴ بجے گھوڑا تو واپس آیا اور آصفہ واپس نہ آئی تو ۲ ؍دن کی تلاش کے بعد آصفہ کے گھر والوں نے گمشدگی کی اطلاع نزدیکی پولیس اسٹیشن کو دی اور اس معاملے کی تحقیقات پہلے بہت ہی عدم دلچسپی کے ساتھ شروع ہوگئی مگر رائے عامہ کا دباؤ بڑھا تو ۸؍ دن کی بھر پور کوشش کے بعد نزدیکی جنگل سے آصفہ کی لاش برآمد ہوگئی۔ جانچ پڑتال سے دھیرے دھیرے پتہ چلا کہ آصفہ کو چند انسان نما درندوں نے یرغمال بناکے اس کی عصمت کو تار تار کیا تھا اور اپنا جرم چھپانے کیلئے پھر اس ننھی سی جان کو قتل کردیا تھا۔ آصفہ کو یرغمال بنانے کے بعد ایک نزدیکی مندر میں لے جاکر پہلے تو نشیلی ادویات پلائی گئیں اور پھر اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس جرم کے بعد پولیس ایس پی او اور کئی ایک ملزمو ں کو پکڑ لیا گیا مگرایک اور جرم عظیم یہ ہوا کہ تمام ملزمان کو عدالت کا سامنا کر نے سے بچانے کیلئے متعلقہ پولیس اسٹیشن کے دو پولیس والوں نے ثبوت مٹانے کی مذموم کوشش کی پھر بھی سچ کبھی چھپتا نہیں ۔ آج کی تاریخ میں اس واقعے کی پوری درد بھری کہانی روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے۔ پولیس تحقیقات سے پتہ چلا کہ اس واقعے کے پیچھے ایک بہت بڑی سازش رچی گئی تھی جس میں نہ صرف ملزمان بلکہ کچھ بڑے لوگوں کی کارستانیاں بھی شامل تھیں۔اس اندوہناک واقعے کے انکشافات دل دہلانے والے ہیں ۔ سب سے پہلے اس واقعے کا مقصد رسنا کھٹوعہ میںرہائش پذیر گجر بکروال اور دوسرے مسلمانوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ ان کو وہاں سے کوچ کرنا چاہئے ورنہ ایسے واقعات ان کے ساتھ بار بار رونما ہوں گے ،جو کہ اپنی نوعیت کے پہلے ہونے والے اس واقعہ سے صاف ظاہر ہوگیا۔اسی اثناء میں فرقہ پرست ہندو ایکتا منچ نے ملزمان کے حق میں کھٹوعہ میں بلاجواز احتجاج کرنا شروع کردیا۔ عام لوگوں کی بات تو الگ ہے اس احتجاجی جلوس میں ریاست کے دو بھاجپا وزراء بھی شامل ہوئے تھے۔یوں اس ایک خالص انسانی مسئلے کو مذہبی رنگ میں رنگنے کی مذموم کوشش کی گئی۔اس کے بعد ایک اور شرمناک واقعہ یہ ہوا کہ سماج میں انسانی حقوق اور انصاف کا علمبردار کہلانے والا طبقہ یعنی وکلاء بھی انصاف کا ساتھ دینے کے بجائے ملزمان کو بچانے کی فکر میں لگ گئے ۔اس وجہ سے جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے احتجاجی جلوس نکالا اور اس کیس کو مرکزی تفتیشی ایجنسی CBI کو سونپ دینے کا انوکھامطالبہ کیا، جب کہ ریاستی تفتیشی ایجنسی نے اس کیس کی کاروائی پہلے ہی مکمل کر لی تھی۔ افسوس کی بات ہے کہ ملکی سطح پر پیٹھے وزراء، دانشور،سول سوسائٹی، میڈیا اور دیگر ادارے چپ سادھے ہوئے بیٹھے رہے حتیٰ کہ ملک کے وزیر اعظم بھی آصفہ کے حق میں چنددن پہلے تک ہمدردی کے دو لفظ بھی نہ بول سکے۔
کیا آصفہ اس ملک کی بیٹی نہیں تھی جو کشمیر کو اپنا اَٹوٹ انگ کہتے ہوئے تھکتا نہیں ہے؟ کیا نربھیا آصفہ سے بڑھ کر تھی؟ کیا آصفہ کو اس لئے نظر انداز کیا جارہا ہے کہ وہ مسلمان تھی؟ کیا اس کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ ایک ایسے علاقے میں رہتی ہے جہاں ریاست کے ایک وزیر نے اپنا بزنس یونٹ شروع کرنے کیلئے غیر قانونی طریقے سے 438 کنال زمین ہڑپ لئے ہیں؟ کیا اس ملک میں دو قانون ہیں: ایک مسلمانان دوسرا غیر مسلموں کے لئے ؟یہ بعض ایسے تیکھے سوالات ہیں جو ہر ایک ذی شعور انسان ریاستی و مرکزی ھکومت سے پوچھنے میں حق بجانب ہے۔ کیا محبوبہ جی کو لوگوں نے اسی لئے چنا تھا کہ وہ اپنی کرسی کی خاطرہماری بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کا سودا کریں ؟ کیا ابھی تک وہ ان لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملاکر بیٹھی ہیں جنہوں نے مسلمانوں اور خاص کر کشمیر کو سوگوار بنادیا جیسا کہ خود ان کے بھائی تصدق مفتی نے صاف زبان میں کہہ ڈالا؟اگرPDP میں ذرہ برابر بھی سیاسی سدھ بدھ بچی ہے تو وہ ان باتوں کا نوٹس لے کر آئندہ کا لائحہ عمل انہی خطوط پر طے کرے جس کی نوید تصدق مفتی نے پہلے ہی سنادی ہے۔
………………..
نوٹ :مضمون نگارپی۔ایچ۔ڈی۔اسکالر، کشمیر یونیورسٹی اور سینئرریسرچ فیلو، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ، نئی دہلی ہیں
ای۔ میل: [email protected]
موبائل: +91 7006142828