تین مہینے قبرستان کی جیسی خاموشی کے بعد نہ صرف ہندوستانی میڈیا، سرکار بلکہ فلمی ادا کاروں سے لیکر ہر ایک ذی ہوش شہری کو اس بات کا احساس ہوا کہ کٹھوعہ میں آٹھ سالہ آصفہ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ پورے ہندوستان کیلئے ہی نہیں دنیا کیلئے شرمندگی کا باعث ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہندوستان سے اٹھنے والی بیشتر آوازیں جس انداز میں آصفہ کیلئے بول رہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ جیسے نہ صرف آصفہ بلکہ پورے جموں کے مسلمانوں پر کوئی احسان کر رہے ہیں ۔ بلا شبہ ہندوستانی میڈیا نے تین مہینے کی مکمل خاموشی کے بعد جس طرح اچانک اپنی خاموشی توڑ دی اسے نہ صرف بہت سارے سوالات پیدا ہوتے ہیں بلکہ یہ بات بھی عیاں ہو چکی ہے کہ نئی دلی اور اس کے ادارے جموں کشمیر کے حوالے سے ہر چیز کو لیکر بے حد محتاط میں چوکنا رہتے ہیں اور مسئلہ کتنا ہی گھمبیر اور نازک کیوں نہ ہو اس میں پہلے نام نہاد قومی مفاد کو دیکھا جاتا ہے ۔ خود کو ہندوستان کی نمبر ون کہلائے جانے والی ہر ٹی وی چینل سے پوچھا جا سکتا ہے کہ آخر آپ کا ضمیر اس قدر مردہ کیوں ہو چکا تھا کہ دس جنوری سے ۱۲ اپریل تک آپ نے اس دلدوز سانحہ کے بارے میں ایک لفظ بولنا بھی گوارا نہیں کیا۔ ہو سکتا ہے کہ شائد تین مہینے تک پردے کے پیچھے نام نہاد قوم پرست طاقتیں اس کوشش میں تھیں کہ کسی طرح آصفہ کے قتل کو پاکستانی ایجنسیوں کی کارستانی یا کوئی اور چال ثابت کیا جائے ورنہ ایسی کوئی بھی معقول وجہ ہرگز نظر نہیں آتی کہ آصفہ ہندوستان کی نر بھیا کی طرح پورے ملک کی توجہ کا مرکز نہ بنتی ۔ ہندوستانی میڈیا لاکھ دعویٰ کرے کہ اس نے آصفہ کا معاملہ اٹھا کر کشمیریوں اور صحافت کے پیشے پرکوئی احسان کیا ہے لیکن تین مہینوں کی مسلسل خاموشی نے نئی دلی کے اصلی عزائم اور کشمیریوں کے تئیں موجود بے پناہ نفرت کو بے نقاب کر دیا ۔ اگر بین الاقوامی میڈیا اور ادارے اس مسئلہ کو عالمی رائے عامہ کے منظر نامے میں نہ لاتے تو شائد ہی ہندوستانی میڈیا اس مسئلہ کے اوپر زبان کھولنے کی جسارت کرتا ۔ اپنی گرتی ہوئی ساخت اور پوری دنیا کے سامنے اس افسوسناک جرم کے بے نقاب ہونے کے بعد ہر ہندوستانی اس بات کیلئے مجبور ہوا کہ وہ آصفہ کیلئے دولفظ بول ہی دے ۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ جہاں راہل گاندھی کو تین مہینے کے بعد آصفہ کی یاد آگئی وہاں ان کی طرح وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ایک جملہ کہہ کر ہمالیہ سر کرنے کی کوشش کی ۔ بے شرمی کی بات تو یہ ہے کہ پی ڈی پی نے تب تک نہایت ہی دفاعی رخ اختیار کیا جب تک نہ ہندوستان کی انتہا پسند ٹی وی چینلو ں نے شور مچانا شروع کیا ۔ محبوبہ جی کو اپنی کرسی کی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا تو جس دن لال سنگھ اور چندر پرکاش ہندو ایکتا منچ کی ریلی میں گئے اسی دن ان کے خلاف کاروائی کرتی اور اگر بی جے پی کوئی رکاوٹ سامنے لاتی تو محبوبہ جی کیلئے کرسی کو لات مارنا ہر لحاظ سے واجب تھا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ نعیم اختر ہندوستانی میڈیا کا اس بات کیلئے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے سرکار کی توجہ کابینہ کے دو وزیروں کے رول کی طرف دلائی ۔ اگر واقعی ریاستی سرکار کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا تو جن لوگوں نے آصفہ کے قتل کے بعد اس کی لاش کو بھی اپنے آبائی گائوں میں دفنانے سے منع کیا ان کو ایک ایک کرکے تہاڑ جیل بھیج دیا ہوتا لیکن ان کے خلاف کاروائی کی دور کی بات جن لوگوں نے بد نصیب رسانہ گائوں کے ماتم داروں کا پانی تک بند کرکے کربلا کی یاد تازہ کر دی ان کے خلاف معمولی کاروائی تک بھی نہیں کی گئی۔ افسوس تو یہ ہے کہ قوم پرستی کی آڑ میں انتہا پسند وں کو ہندوستان کا قومی پرچم تک ہاتھوں میں لیکر وہ سب کچھ کرنے کی چھوٹ دی گئی جس سے انسانیت شرمسار ہوتی ہے ۔ اس ساری دردناک کہانی کا ایک اور کرب انگیز پہلو یہ بھی ہے کہ جموں کے مسلمانوں کو اکثر اوقات زیر کرنے اور رسوا کرنے کیلئے ان کے ہی مذہب سے وابسطہ کسی حاکم کو تعینات کیا جاتا ہے ۔ بد نصیبی سے کشمیر کی طرح جموں صوبے میں مسلم آبادی سے وابسطہ بیشتر صاحبان خاص طور سے پولیس محکمہ کے لوگ خود کو شاہ سے زیادہ وفادار ثابت کرنے کیلئے اپنے ہی لوگوں پر ایسی بربریت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ جو کوئی ہندو افسر کرنے سے پہلے دس بار نتائج کے بارے میں ضرور سوچ لے گا۔ متعلقہ ایس ایس پی کا رول جس قدر شرمناک اور قابل مذمت رہا اس سے ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا اور بد نصیبی یہ ہے کہ متعلقہ ایس ایس پی صاحب نجی محفلوں میں اپنے مسلمان ہونے کو اپنی کمزوری جتلا کر انتہا پسندوں کی تمام زیادتیوں کو جواز فراہم کر رہے ہیں ۔ پی ڈی پی کی طرح عمر عبداللہ صاحب نے بھی ریاست کے مسلمانوں اور انصاف پسندوں کے زخموں پر یہ کہہ کر نمک چھڑکا کہ وہ نریندر مودی کا اس بات کیلئے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے آصفہ کے متعلق ایک عدد جملہ کہہ کر ہمالیہ سر کیا ۔ عمر صاحب سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر مودی جی تین ماہ تک خاموش رہے تو اس بات کیلئے ان سے جواب طلبی کے بجائے ریاست کے وزیر اعلیٰ رہے عمر عبداللہ کیونکر ان کی مرثیہ خوانی کے بجائے قصیدہ خوانی کر رہے ہیں یہ بات بغیر کسی مبا لغہ آرائی کے کہی جا سکتی ہے کہ جموں کشمیر کے لوگوں خاص طور سے اکثریتی آبادی کو ہندوستان سے زیادہ این سی ، پی ڈی پی اور اپنے لوگوں نے ہر محاذ پر مایوسی کے دلدل میں دھکیل دیا۔ کاش نام نہاد مین اسٹریم جماعتیں اتنا ہیں سمجھ لیتیں کہ آصفہ عصمت ریزی اور قتل کیس جیسے گھنائونے واقعات کا نہ کسی قومی مفاد سے تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی کسی مذہب سے ۔ بلا شبہ ہندو یا اور کوئی مذہب بھی کبھی ایسے گھناونے جرم کی اجازت دینا تو دور کی بات اس بارے میں سوچنے کی بھی اجازت نہیں دے گا لیکن ہندو مذہب کے چند ٹھیکیدار جس طرح خود کو ہر احتساب سے بالا تر مانتے ہیں اور انہیں اس بات کا یقین ہے کہ ان کا ہر گناہ ہندوستان کی قوم پرست قوتوں کو مضبوط کرتا ہے اس کے ہوتے ہوئے جموں کے مسلمانوں کے ساتھ 1947سے اب تک جاری ظلم و ستم کا بھر پور جواز پیش کیا جاتا ہے ۔ بات صرف آصفہ کی نہیں بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ جموں خطہ کے مسلمانوں کو کبھی بھی انصاف نہیں ملا اور گذشتہ 70برسوں سے وہ کسمپرسی اور خوف کی حالت میں رہ رہے ہیں ۔ ان لوگوں کو جو آصفہ کو انصاف دلانے کی دہائیاں دیتے ہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا کی کوئی طاقت آصفہ یا اس جیسی بد نصیب مخلوق کے ساتھ کبھی انصاف نہیں کر سکتی کیونکہ اگر مقتول کے بدلے میں سو مجرموں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جائے تو بھی اس سے مظلوم اور مقتول کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کی جان اور عصمت کی کوئی قیمت نہیں لگائی جا سکتی ۔ تاہم ایسا کرکے صرف ملزموں کو سزا مل سکتی ہے اور سماج میں سدھا لایا جا سکتا ہے ۔ آصفہ کے حق میں لکھن پور کے اس پار اٹھنے والی ہر آواز نے ایک مرتبہ پھر ہندوستانی ریاست کے دوہرے معیاروں کو بری طرح سے بے نقاب کر دیا ہے ۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر عالمی سطح پر اپنی حفت مٹانے کیلئے ہندوستانی میڈیا ، سیاستدان، دانشور و دیگر لوگ ہائے ہائے کر رہے ہیں تو کننن پوشہ پورہ کی معصوم اور مظلوم خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی کرنے والے درند ہ صفتوں کی کیونکر قومی مفاد کے نام پر پردہ پوشی کی جاتی ہے ۔ اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ کننن پوشہ پورہ اور شوپیاں کے خوفناک سانحوں کو قوم پرستی کے تابوت میں دفن کرنے کی کوششیں عرصہ دراز سے جاری ہیں ۔ جہاں کننن پوشہ پورہ کے سانحہ کی چیخ و پکار یورپ سے لیکر امریکہ تک اب بھی سنائی دے رہی ہیںوہاں خود ہندوستان میں اس گھنائونے جرم کو سب سے زیادہ دانشور اور قابل ماننے والے کالے کورٹ اور کالی ٹائی پہنے ہوئے لوگ افسپا کی گندی کتاب کا سہارا دیکر دبانے کی ناپاک مگر ناکام کوششوں میں بے شرمی کے ساتھ ملوث ہیں ۔ شوپیاں اور کننن پوشہ پورہ کے دلدوز سانحوں کی پردہ پوشی کرکے نہ صرف ہندوستان نے پوری عالمی برادری کے سامنے اپنی شبیہہ بگاڑ دی ہے وہاں اس کے اپنے دعوے کہ وہ جموں کشمیر کے لوگوں کو اپنا تاج مانتا ہے بے نقاب ہو چکے ہیں ۔ رام جی کی سیتا کی بظاہر بڑی مدا ح سرائی کرنے والے جب راون کی یاد کو بھی اپنی گھنائونی حرکتوں سے پیچھے چھوڑ دیں تو یہ اندازہ لگانا ہر گز مشکل نہیں کہ ہندوستان کس طرف جا رہا ہے ۔ جب تک نہ ہندوستان کا ہر وہ شہری ، صحافی ، جج، وکیل، دانشور، سیاستدان اور حکمران کننن پوشہ پورہ اور شوپیاں جیسی دردناک وارداتو ں میں ملوث مجرموں کو انصاف کی عدالت میں سامنے لانے کیلئے کمر بستہ ہو جائیں گے تب تک ریاست کے مسلمانوں کے علاوہ ہر انصاف پسند انسان یہ کہنے میں حق بجانب ہو گا کہ آصفہ کیلئے تاخیر سے اٹھنے والی تمام آوازیں صرف اور صرف تصویر کا ایک رخ ہیں اور ہندوستان کا دوسرا رخ کسی کے تصور سے بھی زیادہ مختلف ہے ۔
کھٹوعہ المیہ کی تشہیر
