مورخ ضرورلکھے گاکہ کھٹوعہ کی آٹھ سالہ خا کانہ بدوش بچی جس طرح درندگی کی شکاربنی اورپھرجنونیت کے خناس میں مبتلافرقہ پرستوں کی طرف سے درندہ صفت زانیوں اور قاتلوں کے حق میں دھمال ڈالے گئے، اس نے انسانیت کی قبا کو تار تا ر کرکے رکھ دیا ۔ جموں میں ایک ناری اوراس کے ساتھ دھرنے پربیٹھی دیگرعورتوں کے بارے میںوقائع نگار لکھے گاکہ پوری انسانی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ فرقہ پرستوں نے بھی ننھی بچی سے ہوئی بدترین زیادتی اوروحشیانہ قتل پرمظلومہ ومقتولہ کے بجائے قاتلوں اور زانیوں کے حق میں دھرنا دیا ۔ کم سن بچی کے درندہ صفت قاتلوںکوبچانے کے لئے یرقانی جنونیت کے تمام شروفسادکے باوجودالبتہ معصومہ کا خون بول پڑاہے اوررنگ لانے لگا،سوئے ہوئے ضمیر جاگنے لگے ہیں اوربدترین مجرمین کوسزادینے کامطالبہ زورپکڑنے لگا۔ ضلع کٹھوعہ کے گائوں رسانہ میںرواں برس 10؍جنوری کو آٹھ سالہ خانہ بدوش بچی کے وحشیانہ ریپ اورقتل کے دلدوزسانحے میں ملوث سفاک قاتلوں کی واضح طرف داری اوران ظالموں کے حق میں11؍اپریل بدھ کوانتقامی مزاج اورمغلوب الحواس فرقہ پرست وکلاء پرمشتمل جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دی گئی ہڑتال کال اورجموںبندنے جہاںجموںکی مسلم اقلیت میںپہلے ہی سے پائے جانے والی بے چینی کوبڑھادیاہے، وہیں ناکام جموں بندسے انسانیت سرعام شرمسار ہوئی ۔ جموں وکشمیر کے انصاف پسندروزاول سے مظلوم بکروال بچی کے قاتلوں کو کڑی سے کڑی سزا دینے کا مطالبہ کررہے ہیں جب کہ جموں کے تمام فرقہ پرست ہندوایکتامنچ اورجموں ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کے زیرسایہ اکٹھے ہوئے اوروہ معصوم مسلمان بچی کے قاتلوں کو بچانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔اتناہی نہیںبلکہ سوشل میڈیاپروائرل ہوئی وہ ویڈیوابھی بھی فیس بک پردیکھی جاسکتی ہے کہ جس میں ایک عوامی مجمع میں تقریرکرتے ہوئے جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا صدربی ایس سلاتھیایہ کہنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے تھے’’آج جموں کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے ہیں، اگرروہنگیاکے مسلمانوں کوجموں بدرنہ کیاگیاتوتم دیکھوگے کہ جموں کے انہی نوجوانوں کے ہاتھوں میں AK47رائفل ہوگی‘‘۔جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کاصدردھمکی نہیںدے رہے تھے بلکہ وہ دراصل ستربرس گزرجانے کے بعدقائداعظم محمدعلی جناح کی سیاسی بصیرت اور دوقومی نظریہ کی صداقت پربزبان قال مہرتصدیق ثبت کررہے تھے اوراعلان کررہے تھے کہ قائد نے دھوپ میں اپنے بال سفید نہیں کئے تھے بلکہ دوقومی نظریہ پیش کیاجاناہرپہلوسے درست تھا اوراگراس میں کسی کوکوئی شک ہے توسترسال گذرجانے کے باوجودآکرجموں کی صورتحال کوملاحظہ کرے ۔ وہ اس اشتعال انگریزتقریرکے ذریعے کہناچاہتے تھے کہ ریاست جموںوکشمیرمیں1947والی صورت حال سرچڑھ کربول رہی ہے اورستربرس قبل کی طرح آج بھی ہندوقوم پرست مسلمانوں کوبرداشت کرنے کے لئے ہرگز ہر گزاورقطعی طورپرتیارنہیں بلاشبہ کھٹوعہ ریپ اور قتل کیس اس کی زندہ مثال ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق کٹھوعہ ضلع جوپنجاب کے عین متصل واقع ہے 1947سے قبل یہ مسلم اکثریتی علاقہ تھااورتقسیم ہندکے وقت یہاں سے مسلمانوں کاصفایاکردیاگیا۔آج کے اعدادوشمارکے مطابق کٹھوعہ ضلعے میں 87؍فیصدہندورہتے ہیں6؍فیصد سکھ جب کہ مسلم آبادی صرف ساڑے تین فیصدہے۔مسلمان پہاڑوں کے دامن میں بھیڑبکریوں اورمال مویشیوں کی پال پوس تک محدودہوکررہ گئے اوروہ گجر وبکروال کہلاتے ہیں۔10؍جنوری کو اسی کٹھوعہ ضلع کے رسانہ علاقہ میںاسی گجربکروال قبیلے سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ معصوم بچی کی آبروریزی اور قتل کے دلدوز واقعے نے انسانیت کوہلاکررکھ دیا۔گذشتہ کئی ہفتوں سے اسی مدعے کو لے کر جموں خطہ میں بڑے پیمانے پرہنگامہ آرائیاں اور مظاہرے ہوئے ہیں۔جموں میں غیظ وغضب کی آتشیں بھٹی تیز ترکرنے والے عام ہندو نہیں بلکہ فرقہ پرست ہندو جماعتیں اور نام نہادسول سوسائٹی کے کئی گروپ من ہستم کی ناپاک مہم چلانے پر مُصرو بے قرارہیں۔انسانیت کے خلاف اُن کی للکارسے پوری انسانیت کا دامن ِ تارتارہے ۔بربریت اورفسادبرپاکرنے پریقین رکھنے والے ان تشدد پسند گروپوں کی جانب سے جس پیمانے پر اس کیس کی تحقیقات کرائم برانچ سے سی بی آئی کو منتقل کرنے کیلئے دبائو بڑھانے کی کوششیں جاری ہیں، ا س سے ایک بڑی خوفناک صورتحال جنم لے رہی ہے ۔ اس سارے معاملے میں جموںکے تشدد پسند گروپوں نے جس مربوط طریقے پر جلسے جلوسوں ، احتجاج اور بھوک ہڑتال کا اہتمام کیا اور ان سرگرمیوں میں جس جارحانہ طریقے سے جموںصوبے میں فرقہ وارانہ جذبات ابھارنے کی کوششیں کی گئیں، وہ انتہائی تشویشناک اور خطرناک ہے۔
یہ امرروزروشن کی طرح عیاں ہے کہ اگرآج ایسے سنگین اور بہیمانہ جرم کے مرتکب افراد سخت سے سخت سزاسے بچ نکلیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے وقت میں جموی مسلمانوںکو سنگین صورتحال کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں ہوناچاہئے کہ جس سماج میں جرائم کو سیاست کاروں کی توثیق اور مجرموں کو قانون کے رکھوالوں کی جانب سے امداد و اعانت فراہم ہو، اس میں کسی قسم کی انسانیت پنپنے کی توقع رکھنا فضول و عبث ہے۔مقتولہ بچی کے ساتھ پیش آئے وحشیانہ اور بہیمانہ فعل کے پس پردہ فرقہ پرستوں کے کیا کیا اوچھے مقاصد کارفرما ہوسکتے ہیں، یہ دیکھنا اب عدلیہ کی ذمہ داری ہے ۔
آٹھ سالہ کم طالع بچی کی آبروریزی اور بہیمانہ قتل کے سانحہ عظیم کے تین ماہ بیت جانے کے بعداگرچہ اب جاکر بھارت میں اس دردوالم کی ٹیسیں محسوس کی جارہی ہیں اور ننھی پری کے لئے انسانی ضمیر جاگ رہاہے اوربادی النظرمیں اس بات کاایک مثبت اشارہ مل رہاہے کہ ابھی انسانیت پوری طرح وفات نہیں پاچکی ہے ،ابھی اس کی نبضیں دھک دھک کررہی ہیں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ بھارت کا رائے عامہ ننھی بچی کی حمایت میںانسانیت کے خلاف سنگین جرم میں زیر حراست آٹھوں ملوثین کوقرارواقعی سزادلوانے تک بے نوا بکروال بچی کے لواحقین کابھرپور ساتھ دے سکے گی؟ جب کہ بھارت کے متعصب میڈیاکا مکروہ چہرہ ہمارے سامنے ہے کہ جو بھارت میںمسلم خواتین کومجبورومقہورطبقہ پیش کرتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کاتمسخراڑانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کررہاہے لیکن کھٹوعہ کی کھلی فسطائیت کے خلاف اس کے قلم اور کیمرے مہربلب اور ساکت و جامدہیں۔بھارت کا رائے عامہ کم سن مظلومہ کے حق مین ہموار ہورہاہے مگر یک چشمی میڈیا کشمیریوں کے قتل عام پرہمیشہ کی طرح آج بھی مہربلب نظرآتا ہے۔حتیٰ کہ مظلومہ بچی کے وحشیانہ ریپ اورقتل سانحے پرجب قابل گردن زدنی جرم میں ملوثین کے حمایت میں ہندوفرقہ پرست جموں میں ہندو ایکتامنچ کے تحت طوفان ِ بدتمیزی چلائیں،بدتمیزیوں پر اتر آئے، بلاجوازریلیاں نکالیں ، ترنگے لہرائیں ،تفتیش اور انکوائری میں خلل ڈالنے کے لئے تہذیب و شرافت کا لبادہ سرراہ نوچ ڈالیں،بے ہودگیوں کی حدیں پھلانگ دیں ، بھارت کی ہی طرف دار پولیس کو کیس کی جانچ سے ہٹاکر اسے سی بی آئی کے سپرد کر وانے کے لئے جموںہائی کورٹ بارایسوی ایشن جموں بند کی کال دے،سب فرقہ پرست بیک آوازبچی کے سفاک قاتلوں کی پیٹھ ٹھونکیں،مگریہ ساراظلم دیکھتے ہوئے بھی بھارتی رائے عامہ بنانے ( یہاں پڑھئے بگاڑنے) والے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاکو یہ توفیق نہ ہوئی کہ مقتولہ کے حق میں دکھاوے کے لئے ہی دولفظ زبان سے ادا کر کے فرقہ پرستوں کی ناقابل فہم کرتوت کی نکتہ چینی کرتے ۔اب چلئے دیرآیددرست آیدکے مصداق اُمیدکی جانی چاہئے کہ بھارت کی رائے عامہ جموں وکشمیرمیں ہورہے قیامت خیزمظالم کے خلاف اپنی آوازبلندکرتی رہے گی۔
ایک طرف وادی کشمیرمیں بہ طفیل افسپا لا قانونیت ہے، تیر وتفنگ کی حاکمیت ہے،حقوق البشر کی بے حرمتی ہے، ظلم وستم کی چھوٹ ہے، ماردھاڑ کا دبد بہ ہے،گالی اور گولی کی حکمرانی ہے ، قبروں کی فراوانی ہے،مظالم کا جل تھل اورمصائب کاشور وغل ہے، معصوم شرجیلوں کوقتل اور انشائوںکواندھا کیا جا رہاہے ۔ غرض قتل عام اور خوف و ہراس کی آندھیاں ہیںاورپورے تسلسل کے ساتھ قتل و غارت گری کے المناک واقعات رونماہورہے ہیں ۔ چناںچہ آوپریشن آل آوٹ کے نام سے حال ہی ضلع شوپیان کے22؍نوجوانوں کو ایک ہی دن جاں بحق کیا جانا اور محض ایک ہفتہ گذرجانے کے بعدضلع کوگام کے علاقہ کھڈونی میںچار عام نوجوانوں کانہایت ہی سفاکانہ اندازمیں قتل عمد اور75 افراد کو شدید زخمی کردیاجانا سفاکیت ہی نہیں بلکہ یہ قیامت خیز واقعات ظلم و بربریت ، بدترین انتقام گیری اور جارحانہ عزائم کے غماز ہیں،ایسے میں کھٹوعہ جموں میں ایک جانب مظلومیت کی داستان ہے اور دوسری جانب سنگھ پریوار اور اس کے فکری اولادوں کی دھماچوکڑیاںہیں۔ حالات کی یہ حدت وتپش اتنی ناقابل برداشت ہے کہ باوجودیکہ پی ڈی پی بھارتیہ جنتاپارٹی کی سیاسی حلیف اور سرکار کی ساجھے دار ہے، پھر بھی زمینی سچائیوں کا برملا اعتراف کہیے یا اپنے غیر یقینی سیاسی مستقبل کا ادراک سمجھئے کہ وزیراعلیٰ کے بھائی وزیر سیاحت مفتی تصدق نے اعلانیہ طور کہا کہ پی ڈی پی اور بی جے پی کا اتحاد جرائم کی شراکت داری ہے جس کی قیمت کشمیری عوام کو اپنا خون بہا کر ادا کر نی پڑرہی ہے ۔ایسے میں کٹھوعہ جموں میں ایک کم سن مسلم بچی کے ساتھ خون کھول دینے والا المیے کا وقوع پذیر ہونا اور درندہ صفت قاتلوں کوبچانے کے لئے جموں کے فرقہ پرست یرقانی جتھوں کا کھلے بندوں سامنے آنا، ہر غیرت مند انسان کا خون کھول دینے کے لئے کافی ہے ۔ گذشتہ اٹھائیس برسوں کی خونچکان تاریخ اس امرپرگواہ ہے کہ ریاست جموں وکشمیرمیں حالات کو دانستہ طور مخدوش بنایا جا رہا ہے تاکہ نوجوانوں کا قتل عام کیا جاسکے اور تباہی مچا ئی جاسکے کیونکہ جن لوگوں کاا قتدار ہی مسلمان بیزاری ، تلوار ترشول اور فرقہ وارانہ فسادات کی رہین منت ہو، وہاں یہ ساری چیزیں ہو ان قابل فہم ہیں ۔ یہی و جہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابھی شوپیاں میں22نوجوانوں کی قبروں کی مٹی گیلی ہی تھی اورسینوں میںلگے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ کولگام میں ایک بار پھر ظلم و دہشت کی آگ بھڑکائی گئی ۔شوپیان میںمائوں اور بہنوں کی آہ و فغان آسمان کا کلیجہ چیر رہی تھی کہ کھڈونی میں بوڑھے باپ کے کندھوں پر جوان بیٹوں کے لاشے دھر دیے گئے ۔ ایک قیامت کا سا سماں تھا کہ ضلع کولگام کے علاقے کھڈونی میں 10اور11اپریل منگل کو 14سالہ نوعمر بچے سمیت چارنوجوانوں 28 سالہ سرجیل احمد شیخ ولد عبدالحمیدساکن کھڈونی، سہیل احمد ڈار ولد بشیر احمد ڈار ساکن ریڈ ونی، 16 سالہ بلال احمد تانترے ولد نذیر احمد ساکن کوجر حال مشی پورہ ہاوورہ، 16 سالہ فیصل الہی ولد غلام رسول ساکن ملہورہ شوپیان جان بحق کردیئے۔ان نوجوانوں میں سے شرجیل کی شادی کی تاریخ طے ہوچکی تھی اور18؍اپریل اُن کی بارات تھی ۔شادی کے کارڈ بھی تقسیم ہو گئے تھے اور شادی کی تیاریاں مکمل تھیں کہ دلہے کی لاش گھر آگئی ۔اس پرجب پولیس چیف یہ گل افشانی کر یںکہ گولی اندھی ہوتی ہے وہ جب چل پڑتی ہے تویہ نہیں دیکھتی کہ سامنے کون ہے ۔ اب ریاستی مسلمان ہلاک شدہ جوان سال لڑکوں کا سوگ منائے یا ریپ اور قتل کی بھینٹ چڑھائی گئی ننھی کلی کے ہولناک انجام پر مر ثیہ کریں ؟
جن وردی پوش ویر بہادروں کے دم قدم سے افسپا کاسارا کرو فر ریاست میں قائم ہے، انہی سے شہ پاکر ملزموں کو یہ ناگفتہ بہ جرم کر نے کی جرأت ہوئی اور فرقہ پرست وکلاء کو حوصلہ ملا کہ اپنے عظیم پیشے کی روایات سے منہ موڑ تے ہوئے مظلوموں کی بجائے ظالموں کے دفاع کر کے پر جا پریشد کی یادیں تازہ کریں۔ انہیں انسانیت کے ناطے مقتول بچی اور اس کے بے چین والدین کے دکھ درد سے کوئی لینا دینانہیں ہے بلکہ یہ آبرو ریزی و قتل معاملہ کی تحقیقات سی بی آئی کے سپرد کرنے کے فراق میں ہیںتاکہ مجرمین کوممکنہ سزاسے اسی طرح سے بچایاجاسکے جیسے دودن قبل مکہ مسجد حیدرآباد میں این آئی اے کورٹ نے گیارہ سال قبل ہوئے بم بلاسٹ سے سنگھ پریوار سے جڑے پانچ ملزموں کو استغاثہ کی طرف سے ’’ معقول ثبوت وشواہد‘‘ پیش نہ کر نے کی دلیل دے کر بیک جنبش قلم بری کردیا ۔ جموں کے زعفرانی وکلاء نے اپنے بلاجواز مطالبے کو وزن بڑھانے کے لئے جموں میں پناہ گزین چند سو روہنگیائی مہاجرین کی جموں بدری کاایک اور فرقہ پرستانہ مطالبہ بھی کردیا ہے ۔ غور طلب ہے کہ وکلاء کو ایک ایسا مہذب اور دانش ور طبقہ سمجھاجاتاہے جسے مظلوم کے کاز کی پیروی کر نے، عوامی مسائل قانون کے دائرے میں حل کرانے اور سماجی و سیاسی خامیاں دور کرنے کے تعلق سے جانا اور ماناجاتاہے لیکن مقتولہ کے معاملے میںانہوں نے جو فرقہ پرستانہ کارڈ کھیل رہے ہیں ،اس پر انسانیت انگشت بدنداں ہے ۔حدیہ ہے کہ ریپ اور قتل معاملے کی پیروی کررہی خاتون وکیل کا الزام ہے کہ انہیں جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دھمکایا جارہا ہے ۔ اُدھر وکلاء کے قابل اعتراض رول کا عدالت عظمیٰ نے سنجیدہ نوٹس لے کر بار کونسل آف انڈیا کو حقائق جاننے کی ہدایات دی ہیں ۔ بہر صورت کرائم برانچ کے چالان سے واضح ہوتاہے کہ رسنا کھٹوعہ کے گھنائونے جرم میں ملوثین کا اصل ارادہ یہ تھا کہ بکروال بچی کوایسے وحشیابہ طریقے سے قتل کیاجائے کہ جموں کے مسلمانوں کو نومبر1947کی یاد آئے ، نیز کھٹوعہ سے گجر بکروال طبقے کو ماربھگایا جائے تاکہ فرقہ پرستانہ منصوبہ کی عمل آوری کو ایک ہیبت ناک شکل دے کر صوبے میں فرقہ پرست ووٹ بنک کو تقویت دی جائے ۔ا س کے لئے فرقہ پرستوں نے ہندوایکتا منچ کو معرض وجود میں لاکراپنے ایجنڈے کو عملانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن تمام اعلانیہ اورچھپے ہوئے حربوں سے کام لینے کے باوجود بفضل ایزدی معصومہ کا خون ِ ناحق رنگ لایا اور ملزموں کی نشاندہی کے بین بین وہ ساری رام کہانی سرکاری سطح پر مشتہر ہوئی جسے سن کر مذہب وملت سے بالاتر ہوکر ہر باشعور اور مہذب انسان کاسرشرم سے جھک جاتا ہے۔کرائم برانچ کو تحقیق ورتفتیش سے پتہ چلا کہ مقتولہ کو کئی دن تک ایک مقامی مندر میں یرغمال رکھا گیا تھا اور کئی دن تک اس ننھی سی جان کا اجتماعی ریپ کیا گیا، اس پر تشدد کیا جاتا رہا، اخیر پر شیطانی پلان کے مطابق پہلے اس کا گلا گھونٹ دینے کے علاوہ اس کے سر پر بھاری پتھر مارکرٹھنڈا کر دیا گیا۔ریاستی کرائم برانچ نے اپنی جانچ رپورٹ عدالت میں پیش کردی جس میں بتایاگیاہے کہ 60سالہ ریٹائرڈ سرکاری ملازم سنجی رام جومندرکی دیکھ بھال کرنے پرمامورتھانے چار سپاہیوں سریندر ورما، تلک راج، کھجوریا اور آنند دتا کے ساتھ مل کر اس جرم کی منصوبہ بندی کی۔رام کا بیٹا وشال، اس کا کم عمر بھتیجا اور دوست پرویش کمار بھی ریپ اور قتل کے ملزم ہیں ۔ نظر بند ملزموں کی تعداد آٹھ ہے۔ تفتیش کاروں کا الزام ہے کہ کھجوریا اور دوسرے پولیس اہلکاروں نے مقتولہ کے خون آلود کپڑے دھو کر فارنسک لیبارٹری کو بھیجے تھے تاکہ مجرموں کا سراغ دینے والے نشانات زائل ہو جائیں۔خیال رہے کہ مسلمان بکروال چرواہے جموں کے جنگلات میں سرمامیں اپنامال مویشی صدیوں سے چراتے ہیںلیکن حالیہ برسوں میں بعض مقامی فرقہ پرست ہندوؤں ان کے ساتھ لڑتے جھگڑتے رہے ہیں۔جموں کے ہندووں کاخیال ہے کہ مسلمان خانہ بدوش جموں کی آبادی کے تناسب کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وقت جموں ڈویژن میں ہندوں کی اکثریت ہے اوروہ مسلمانوں کے زیر استعمال جنگلوں اور پانی کے وسائل پر قابض ہو تے جا رہے ہیں۔بلاشبہ کرائم برانچ کا کھٹوعہ کیس کے حوالے سے جو لرزہ خیزحقائق منظر عام پر لائے ہیں ،وہ پریواری فرقہ پرستوں کے ماتھے پرایسادھبہ ہے جوکبھی دھل نہیں سکے گا۔اس سنگین جرم کو انڈین میڈیامیں کوئی کوریج نہ دی گئی، البتہ کشمیر کے میڈیا نے اسے اُجاگر کر کے مقتولہ کا المیہ عوامی عدالت کے سامنے لاکھڑا کیا،اب یہ اسی عدالت کا کام ہے کہ وہ مظلومہ کو بھر پور انصاف دے کر انسانیت کی آخری اُمید کو مر جھاجا نے سے بچائے۔