صوبہ جموں کے کٹھوعہ علاقہ میں ایک خانہ بدوش قبیلہ کی کمسن بچی کے بہیمانہ قتل نے سماج کے ذی حس حلقوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے ، لیکن ا س سے زیادہ افسوس اس کیس کی تحقیقات میں لاپرواہانہ اور عامیانہ اپروچ اختیار کئے جانے کی وجہ سے ظاہر کیا جا رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ریاستی اسمبلی میں بھی اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے اس سنگین نوعیت کے معاملے کی تحقیقات میں لاپرواہانہ طرز عمل اختیار کئے جانے کے خلاف زبردست غم وغصہ کا اظہار اور بھر پور احتجاج کیا گیا۔ یہ افسوس کا امر ہے کہ مذکورہ بچی کے جسدخاکی کو سپرد خاک کے جانے کے بعد پولیس نے ملزم کی تلاش کے لئے عوام سے مدد کی اپیل کی ، جو اس امر کا مظہر ہے کہ متعلقہ تحقیقاتی عملہ اس کیس کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لے رہاتھا۔ جس کے بعد متعلقہ ایس ایچ او کو معطل بھی کر دیا گیا ۔ریاست کے اندر یہ واقع ایسے وقت میں پیش آیا، جب پاکستان میں حال ہی میں ایسا ہی ایک واقع پیش آنے کے بہ سبب وہاں زبردست بحران کھڑا ہوگیا ہے۔ ساری دنیا کے ساتھ ہندوستان بھر میں اُس واقع کی نہ صرف مذمت کی جارہی ہے بلکہ اُس پر میڈیا چینلوں پر زبردست مباحث چھڑ گئے، مگر کھٹوعہ واقع ملکی سطح پر وہ ردعمل پیدا نہیں کرسکا،جسکا یہ متقاضی تھا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ہمارے ارباب فکر کو اس بات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے۔ بہر حال یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ حکومت نے دیر سے ہی صحیح، کیس کو کرائم برانچ کے سپرد کر کے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دیکر دانشمندی کا کام کیا ہے۔ بصورت دیگر یہ ایک ایسا سنجیدہ معاملہ ہے، جس سے حالات میں کسی بھی طرح کی خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ تھا۔ جسکا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہیرا نگر میں اس واقع کی تحقیقات میں تاخیر کےخلاف ہوئے احتجاج پر امن وقانون کی حفاظت کے ذمہ داروں کی جانب سے لاٹھی چارج اور ٹیر گیس شلنگ اور آمادہ بر احتجاج افراد کی گرفتاری کے بہ سبب کشیدگی میں مزید اضافہ ہونے لگا تھا اور احتجاج کا دائرہ پھیل کر پونچھ اور کشمیر تک وسیع ہونے لگا تھا۔ بہر حال حکومت نے کیس کو تحقیقات کے لئے کرائم برانچ کو سپرد کرنے کافیصلہ کرکے درست سمت میں قدم اٹھایا ہے، لیکن اب سب سے اہم بات یہ ہے کہ تحقیقاتی عمل سرعت کے ساتھ مکمل کرکے اس گھناونے جرم کے تمام کوائف کو سامنے لاکر ملوث مجرم یا مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فرد و گزاشت نہ کیا جائے۔ فوری تحقیقاتی عمل سے اس قلیتی طبقہ کو اس خوف و ہراس سے نجات مل سکتی ہے، جسکایہ فی الوقت صوبہ جموں میں شکار ہے۔ ملک کے ساتھ ساتھ ہماری ریا ست میں بھی سنگین نوعیت کے جرائم میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، اس کے لئے سماج کے تمام متفکر اور سنجید ہ سوچ رکھنے والے طبقوں اور اداروں کو بیدار ہو کر ہمہ گیر سطح پر کام کرنے کےلئے تیار ہونا چاہئے۔ نیز انتظامی سطح پر ذمہ دار اداروں کو ایسے واقعات کے حوالے سے کسی قسم کی کوتاہی کو در آنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ چونکہ موجودہ عہد میں دنیا بھر میں انتظامی اداروں کے اند رمالی منفعت کے حصول کا ایک مزاج تیزی کے ساتھ پنپ رہا ہے ، جس کی وجہ سے معاملات کو نمٹنے اور نمٹانے کےلئے منظم مافیا پیدا ہوگئے ہیں ، جو معاملات میں سرکاری کاروائی پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے اثرات ہر سطح پر ہیں لیکن حکومتی اداروں کو چاہئے وہ کم ازکم حساس معاملات میں ایسی اثر پذیری کو زائل کرنے کا ایک رجحان پید ا کرکے اسکو مضبوط کریں کیونکہ جرائم کی وسیع دنیا میں متحرک عناصر کی سرگرمیاں بہر حال سامنے آ تی رہیں گی لیکن انکا مقابلہ کرنے کےلئے سنجیدہ فکر ی کی ضرورت ہے اور سماجی حلقوں کو اس کام میں حکومت کو بھر پور تعاون میسر رکھنا چاہئے۔ بہر کیف کھٹوعہ کے اس سنگین واقع کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامی اداروں اور عوامی حلقوں کو آپس میں تعاون کرکے حقائق کو سامنے لاکر اس فعل قبیح کے مرتکبین کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرکے کیفر کردار تک پہنچانے میں پہل کرنی چاہئےنیز ایسے واقعات پہ سیاستدانوں کو کسی قسم کی سیاست کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔
کٹھوعہ کا سنگین واقعہ۔۔۔۔۔
