پٹھان کوٹ// پنجاب کے ضلع پٹھان کوٹ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ نے پیر کے روز صوبہ جموں کے ضلع کٹھوعہ کے رسانہ نامی گائوں میں سنہ 2018ء کے جنوری میں پیش آئے آٹھ سالہ کمسن بکروال لڑکی کی وحشیانہ عصمت دری و قتل کیس کے آٹھ میں سے چھ ملزمان کو مجرم قرار دیتے ہوئے تین کو تاحیات قید کی سزا جبکہ دیگر تین کو پانچ پانچ سال قید کی سنائی۔ اول الذکر کو فی کس ایک ایک لاکھ روپے جبکہ آخرالذکر کو فی کس پچاس ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔کورٹ نے ساتویں ملزم وشال جنگوترا کو ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کی بناء پر بری کردیا۔ آٹھواں ملزم جو کہ نابالغ ہے اور جس نے کمسن بچی پر سب سے زیادہ ظلم ڈھایا تھا، کے خلاف ٹرائل عنقریب جوینائل کورٹ میں شروع ہوسکتی ہے۔کیس کے ملزمان میں عصمت دری و قتل واقعہ کے منصوبہ ساز و سابق سرکاری افسر سانجی رام، اس کا بیٹا وشال جنگوترا، سانجی رام کا بھتیجا (نابالغ ملزم)، نابالغ ملزم کا دوست پرویش کمار عرف منو، ایس پی او دیپک کھجوریہ، ایس پی او سریندر کمار، تحقیقاتی افسران سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج شامل تھے۔ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج پٹھان کوٹ ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے منصوبہ ساز سانجی رام، پرویش کمار اور ایس پی او دیپک کھجوریہ کو تاحیات قید کی سزا جبکہ جبکہ دیگر تین بشمول ایس پی او سریندر کمار، سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج کو پانچ پانچ سال قید کی سزا سنائی۔ جج موصوف نے سانجی رام کے بیٹے وشال جنگوترا کو ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کی بناء پر بری کردیا۔چارج شیٹ میں سانجی رام پر عصمت دری و قتل کی سازش رچانے، وشال، نابالغ ملزم، پرویش اور ایس پی او دیپک کھجوریہ پر عصمت دری و قتل اور ایس پی او سریندر کمار، تحقیقاتی افسران تلک راج و آنند دتا پر جرم میں معاونت اور شواہد مٹانے کے الزامات لگے تھے۔سپیشل پبلک پراسیکیوٹر سنتوک سنگھ بسرا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ عدالت نے واضح کیا ہے کہ تین ملزمان جنہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے، اپنی آخری سانس تک جیل میں بند رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا: 'کورٹ نے سانجی رام، پرویش کمار اور دیپک کھجوریہ کو رنبیر پینل کوڈ کی 302، 376 ڈی، 120 بی، 328، 368،201، 343 اور 511 دفعات کے تحت تاحیات قید اور فی کس ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی ہے۔ کورٹ نے واضح کیا ہے کہ یہ تین ملزمان اپنی پوری زندگی جیل میں گزاریں گے۔ آنند دتا، تلک راج اور سریندر کمار کو پانچ پانچ سال قید کی سزا اور فی کس پچاس ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی گئی ہے'۔ متاثرہ آٹھ سالہ بچی کے والد کے ذاتی وکیل مبین فاروقی نے عدالت کے احاطے میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ملوثین کو سزائیں ملنے سے سچ کی جیت ہوئی ہے۔انہوں نے کہا: 'سچ کی جیت ہوئی ہے۔ یہ جیت تمام کمیونٹیز ہندوئوں، مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کی جیت ہے'۔ان کا مزید کہنا تھا: 'سانجی رام، پرویش اور دیپک کھجوریہ کو تاحیات قید کی سزا اور فی کس ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی گئی ہے۔ دیگر تین ملزمان کو پانچ پانچ سال قید کی سزا اور فی کس پچاس ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی گئی ہے'۔ملزمان کے وکیل اے کے ساونی نے نامہ نگاروں کو بتایا: 'جج صاحب ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے ایک سال تک اس کیس کے سوا کوئی دوسرا کیس ہاتھ میں نہیں لیا۔ اس کے لئے ہم اُن کی سراہنا کرتے ہیں۔ اب سوال ہے کہ ہم نے بحیثیت وکلاء صفائی آج کیا کھویا کیا پایا۔ تین ملزمان سانجی رام، دیپک کھجوریہ اور پرویش کو قتل، اجتماعی عصمت دری، اغوا کاری، سازش اور غیر قانونی حراست سے متعلق دفعات کے تحت سزا سنائی گئی۔ دیگر ملزمان سب انسپکٹر آنند دتا، ہیڈ کانسٹیبل تلک راج اور ایس پی او سریندر کمار کو شواہد مٹانے سے متعلق دفعہ 201 کے تحت سزا سنائی گئی'۔ملزمان کے ایک اور وکیل انکر شرما نے کہا: 'ہم فیصلے سے بہت حیران ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ یہ ایک برا فیصلہ ہے۔ یہ ایک متعصبانہ فیصلہ ہے۔ ہم اس کو چیلنج کریں گے۔ ہم فیصلے کی کاپی حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے'۔3 جون کو جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے استغاثہ اور وکلاء صفائی کی طرف سے پیش کئے گئے حتمی دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ رکھا تھا اور اسے دس جون کو سنانے کا امکان ظاہر کیا تھا۔کٹھوعہ معاملہ بعض سیاسی جماعتوں کے لیڈران کی طرف سے ملزمان کو بچانے کی کوششوں، 'ہندو ایکتا منچ' نامی تنظیم کی طرف سے ملزمان کے حق میں ترنگا بردار جلوس برآمد کرنے، کٹھوعہ میں وکلاء کی جانب سے کرائم برانچ کو ملزمان کے خلاف چارج شیٹ دائر کرنے سے روکنے اور متاثرہ کنبے کے سماجی بائیکاٹ کے سبب عالمی سطح پر خبروں میں رہا۔ بچی کے حق میں درجنوں ممالک میں ریلیاں نکالی گئی تھیں۔بتادیں کیس کی 'ان کیمرہ' اور 'روزانہ بنیادوں' پر سماعت قریب ایک سال تک جاری رہنے کے بعد 3 جون کو اختتام پذیر ہوئی اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے 10 جون کو سنانے کا امکان ظاہر کیا تھا۔سپریم کورٹ کے احکامات پر 31 مئی 2018ء کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ پٹھان کوٹ میں کیس کی 'ان کیمرہ' اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی تھی۔ اس دوران عدالت میں کیس کی قریب 275 سماعتیں ہوئیں اور 132 افراد عدالت میں بطور گواہ پیش ہوئے۔
کیس کی تحقیقات جموں وکشمیر پولیس کی کرائم برانچ نے کی تھی اور ملزمان کے خلاف چارج شیٹ 9 اپریل 2018ء کو پیش کی تھی۔ کرائم برانچ نے تحقیقات کے دوران 130 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے تھے جن میں سے استغاثہ کی طرف سے 116 گواہ عدالت میں پیش کئے گئے۔ ایک مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والے چند گواہ عدالت میں اپنے اعترافی بیانات سے مکر بھی گئے۔ضلع انتظامیہ پٹھان کوٹ نے عدالت کے اردگرد تین دائروں والی سیکورٹی کا بندوبست کیا تھا۔ کسی بھی فرد بشمول نامہ نگاروں کو عدالتی کمرے کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جبکہ ملزمان کو پنجاب پولیس نے بلٹ پروف گاڑی میں عدالت لایا۔استغاثہ کی طرف سے کیس کی پیروی سپیشل پبلک پراسیکیوٹرس سنتوک سنگھ بسرا اور جگ دیش کمار چوپڑا نے کی جبکہ انہیں متعدد دیگر وکلاء بشمول کے کے پوری، ہربچن سنگھ اور مبین فاروقی (متاثرہ بچی کے والد محمد یوسف پجوال کے ذاتی وکیل) انہیں اسسٹ کررہے تھے۔ ملزمان کی طرف سے کیس کی پیروی اے کے ساونی، سوباش چندر شرما، ونود مہاجن اور انکر شرما نے کی۔قابل ذکر ہے کہ ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گائوں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، کو 10 جنوری 2018ء کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ کرائم برانچ پولیس نے مئی کے مہینے میں واقعہ کے سبھی 8 ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا۔کرائم برانچ نے اپنی تحقیقات میں کہا تھا کہ آٹھ سالہ بچی کو رسانہ اور اس سے ملحقہ گائوں کے کچھ افراد نے عصمت دری کے بعد قتل کیا۔ تحقیقات کے مطابق متاثرہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کا مقصد علاقہ میں رہائش پذیر چند گوجر بکروال کنبوں کو ڈرانا دھمکانا اور ہجرت پر مجبور کرانا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ کمسن بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیاتھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اسے مسلسل درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ یو این آئی
10؍جنوری2018:
رسانہ کٹھوعہ میں بکروال قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک8سالہ بچی لاپتہ ہوگئی۔
12؍جنوری2018:
پولیس تھانہ ہیرانگرمیں متاثرہ بچی والد کی شکایت پر کیس درج کیا گیا۔
17؍جنوری2018:
بچی کی نعش برآمدہوئی۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اجتماعی آبروریزی اورقتل کی تصدیق ۔
22؍جنوری2018:
کیس کو جموں و کشمیر پولیس کی کرائم برانچ کے سپردکیاگیا۔
16؍فروری2018:
ہندئوایکتامنچ نامی ایک گروپ نے ملزمان کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔
01؍مارچ2018:
پی ڈی پی بھاجپا مخلوط سرکارکے2وزراء نے ہند ایکتا منچ کے مظاہرے میں شرکت کی ۔
9؍اپریل2018:
پولیس نے کٹھوعہ کورٹ میں7 ملزمان کیخلاف چارج شیٹ داخل کیا۔
10؍اپریل2018:
مبینہ طورپرنابالغ ملزم کیخلاف چارج شیٹ داخل۔ احتجاجی وکلاء کیخلاف کیس درج۔
14؍اپریل2018:
ملزمان کے حق میں مظاہرہ کرنے والے2بھاجپاوزراء کابینہ سے مستعفی۔
16؍اپریل2018:
پرنسپل سیشنز کورٹ کٹھوعہ میں کیس کی سماعت کاآغاز۔
7؍مئی 2018:
سپریم کورٹ کی ہدایت پرکیس کٹھوعہ سے پٹھانکوٹ عدالت منتقل۔
3؍جون2019:
پٹھانکوٹ عدالت میںکیس کی سماعت مکمل۔
10؍جون2019:
3ملزمان کو عمر قید اور 3کو 5سال قید کی سزا، ایک مجرم بری۔
مجرمان کوپھانسی دی جائے: قومی خواتین کمیشن
سرینگر//قومی خواتین کمیشن کی صدر ریکھا شرما نے ملک بھر میں معصوم بچیوں کیساتھ ہورہی عصمت دری واقعات پر سخت مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ عصمت ریزی میں قصوروار پائے جانے والے عناصر کو پھانسی دی جانی چاہیے۔ صنف نازک کیخلاف ہونے والے جرائم کی شکایتوں کے سدبات کے سلسلے میں اندور شہر میں منعقدہ ایک تقریب میں شامل ہونے کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے ریکھا شرما نے بتایا کہ معصوم بچیوں کیساتھ عصمت دری جیسے واقعات کی روک تھام کیلئے قصورواروں کو پھانسی کی سزا دی جانی چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ ایسے وحشیانہ مجرموں میں ڈر قائم کرنا وقت کی اولین ضرورت ہے۔ریکھا شرما کے مطابق ایسے معاملات میں دن بہ دن اضافہ ہونے کی اہم وجوہات میں سے ایک پولیس کا غیر حساس برتائو بھی شامل ہے۔ پولیس کو خواتین کی شکایتوں پر فوری طور پر کارروائی کرنی چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ مفت اور لامحدود ملنے والی انٹرنیٹ سروس کی سہولیات بھی دور جدید کے طلبا کے ذہن پر منفی اثرات ڈال رہی ہے۔ ریکھا شرما کے مطابق سماج میں ہر ایک شہری کو اپنا رول ادا کرنا چاہئے بالخصوص والدین کو اپنے بچوں کو مکمل دھیان رکھنا چاہیے اور بچپن سے ہی انہیں خواتین کی عزت کرنے کی تعلیم دینی چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے لوگوں میں بیداری مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ سماج میں اس طرح کے بڑھتے واقعات کے تئیں سماج کا ہر طبقہ حساسیت کا مظاہرہ کرے۔
فیصلہ اطمینان بخش:عمر،محبوبہ،سجاد
سرینگر/بلال فرقانی/سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ نے کھٹوعہ عصمت ریزی واقعہ پر عدالتی فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ جن سیاست دانوں نے مجرموں کا دفاع کیا تھا،ان کیلئے مذمت کے الفاظ بھی کم ہیں،جبکہ اس طرح کے سنگین جرائم پر سیاست کرنے سے پرہیزکرنے کا مشورہ دیا۔ کھٹوعہ کے رسانہ واقعہ میں ایک معصوم بچی کی عصمت ریزی اور قتل کیس میں خصوصی عدالت کی طرف سے منصوبہ ساز سانجے رام اور پولیس افسر دیپک کھجوریہ سمیت7میں سے6ملزماں کو قصور وار ٹھرانے کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس طرح کے سنگین جرائم میں سیاست کرنے سے احتراز کرنے کی صلاح دی۔پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے سماجی رابطہ گاہ ٹیوٹر پر اپنا پیغام درج کرتے ہوئے کہا’’سنگین جرم،جس میں8سالہ بچی کو گھسیٹا گیا،متواتر آبروریزی کی گئی اور بعد میں قتل کیا گیا پر سیاست بند کرنے کیلئے معقول وقت ہے۔امید ہے کہ ہماری عدلیہ نظام میں کمیوںکا استحصال نہیں کیا جائے گا،اور مجرموں کو مثالی سزا دی جائے گی۔‘‘ سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مجرموں کو سخت سزائیں دینے کی وکالت کی۔عمر عبداللہ نے سماجی رابطہ گاہ ٹیوٹر پر اپنا پیغام تحریر کرتے ہوئے کہا’’آمین، قانون کے تحت مجرم سخت ترین سزا کا مسحق ہے،اور جن سیاست دانوں نے ملزموں کا دفاع کیا،مظلوم کی تذلیل کی اور قانونی نظام کو دھمکایا،انکی مذمت کیلئے کتنے الفاظ بھی کم ہے۔‘‘اس دوران پیپلزکانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون نے کٹھوعہ سانحے پر عدالتی فیصلہ سامنے آنے کے بعد اپنے رد عمل میں ہے کہ یہ فیصلہ خوش آئند ہے ۔عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے سجاد لون نے کہاکہ میں اس عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں ۔انہوں نے کہاکہ مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہئے تاکہ یہ دنیا کیلئے ایک عبرت بن جائیں