کٹھوعہ عصمت دری اور قتل واقعہ کو لیکر 3 ماہ کی خاموشی

 سرینگر// مرکزی سرکار ، سیاستدانوں ، دانشوروں اور ہندوستانی میڈیا کی طرف سے کٹھوعہ عصمت دری اور قتل واقعہ کو لیکر تین مہینے تک خاموش رہنے کے خلاف  ہمہامہ میں مرد و زن نے احتجاجی مظاہرے کئے ۔ اے آئی پی سربراہ اور ایم ایل اے لنگیٹ انجینئر رشید کی سربراہی میں مظاہرین ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے ہوئے زوردار نعرے بازی کر رہے تھے اور ہندوستانی سرکار کے دوہرے معیاروں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے ۔ انجینئر رشید نے نئی دلی کو اس بات کیلئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ اس نے کشمیریوں کو نام نہاد قومی مفاد کے نام پر ہمیشہ انصاف سے دور رکھا ۔ انہوں نے کہا ’’بین الاقوامی برادری اور خود ہندوستان کے دانشور طبقہ کو اس سوال کا جواب ڈھونڈنا چاہئے کہ آخر ایسی کونسی رکاوٹ تھی جس کی وجہ سے ہندوستان کے سیاستدان، سرکار ، میڈیا اور دیگر ادارے تین ماہ تک کٹھوعہ  کے قتل اور عصمت دری کے مجرمانہ واقعہ سے بے نیاز رہے ۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی غفلت شعاری کا عالم تو یہ ہے کہ پوری مسلمان بستی بشمول مظلوم کے اہل خانہ کا پانی تک بھی روک کر کربلا کی یاد تازہ کی گئی۔انہوں نے کہا کہ سرکار جو کہ اب بڑے دعوے کر رہی ہے سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر میت کو دفن کرنے سے روکنے اور پانی کی سپلائی منقطع کرنے والوں کے خلاف اب تک کوئی کاروائی کیوں نہیں کی گئی ۔ نیز مقامی پولیس سے اس کے مجرمانہ رول کے بارے میں پوچھ تاچھ کیوں نہیں کی جا رہی ہے ‘‘۔ انجینئر رشید نے سرکار سے پوچھا کہ لال سنگھ کو کیوں کر جموں اور کٹھوعہ ضلوں میں ریلیاں نکالنے کی اجازت دی گئی اور اس دوران انہوں نے ایک مرتبہ پھر جسطرح سے نہ صرف جموں کے مسلمانوں بلکہ کشمیریوں کا نام لیکر توہین کی اس کیلئے ان سے کوئی پوچھ تاچھ نہیں کی جا رہی ہے۔ انجینئر رشید نے بین الاقوامی برادری سے سوال کیا کہ وہ ہندوستان سے اتنا تو پوچھ لے کہ کننن پوشہ پورہ کی عفت مآب خواتین کی اجتماعی عصمت دری میں ملوث فوجی اہلکارو ںکو آخر عدالت کے کٹھہرے میں کھڑا کیوں نہیں کرتی اور شوپیاں میں آسیہ اور نیلوفر کے ساتھ جو کچھ ہوا اس معاملے کی تحقیقات کو کیوں کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا ۔