ہیرانگر//تحصیل ہیرا نگر کے کوٹہ گائوں میں محمد یوسف پجوال کے صحن میں ایک پھٹا پرانا فٹ بال پڑا ہے ، جو لڑکی اس فٹ بال کے ساتھ کھیلا کرتی تھی وہ بے دردی سے وحشی درندوں کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہونے اور پھر بے رحمی سے قتل کئے جانے کے بعدیہاں سے کئی کلو میٹر دور قبر میں لیٹی ہوئی ہے ۔ اس آٹھ سالہ معصوم بچی کے والد کا تین کمروں پر مشتمل پختہ مکان مقفل ہے جہاں یہ کنبہ موسم سرما کے دوران رہائش رکھتا ہے ۔قریبی گائوں پٹہ کے لیاقت علی کی 14-15جنوری کو ہونے والی شادی کا ہاتھ سے تحریر کردہ دعوت نامہ بھی صحن میں پھڑپھڑا تا ہوا نظر آجاتا ہے ، یہ عین وہی وقت ہے جب محمد یوسف اپنی لاپتہ بیٹی کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ یوسف کے گھر کے آس پاس سناٹا چھایا ہوا ہے ، قریب ترین بکروال کنبے کا مکان قریب ڈیڑھ کلو میٹر کی دوری پر ہے جہاں یوسف کا ایک رشتہ دار محمد جان رہتا ہے ۔ محمد جان کے گھر کے دروازہ پر ایک کتا پہرہ دے رہا ہے جو ہر اجنبی کو دیکھ کا بھونکتا ہے ۔ جب یہ نمائندے وہاں پہنچے تو انہیں گھر والوں سے کتے کے بندھے ہونے کی تصدیق کرنا پڑی۔ جان نے بتایا کہ اس کے دو بیٹے موسمی نقل مکانی کے سلسلہ میں پہاڑی علاقوں کی طرف نکل پڑے ہیں لیکن وہ بچوں اور خواتین کے ساتھ ابھی رکا ہوا ہے کیوں کہ اس کیلئے پہاڑوں پر سفر کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ’’میرے بیٹے اس سال قبل از وقت ہی یہاں سے چلے گئے کیوں کہ ہمیں خوف تھا کہ انہیں فرضی معاملات میں پھنسا نہ لیا جائے، ہمارے ساتھ جانوروں سے بھی برا سلوک کیا جاتا ہے ‘۔جان نے بتایا کہ وہ 40سال قریب یہاں منتقل ہوئے تھے ، 8سالہ معصوم بچی کا قتل ان کی سمجھ سے بالا تر ہے ۔’’بکروالوں کے کل ملا کر 7کنبے یہاں آباد ہیں ، ہم ہزاروں لوگوں کیلئے کیوں کر خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں؟‘‘اپنے پوتے پوتیوں کے ہمراہ چارپائی پر بیٹھے جان محمد نے استفسار کیا۔ جنوری میں جب 8سالہ بچی کی آبر و ریزی اور قتل ہونے کے بعد بکروالوں کے کنبے مسلسل خوف و دہشت کے سائے میں جی رہے ہیں۔ ’’مقامی سرپنچ کی قیادت میں ہونے والے مسلسل مظاہروں میں ہمارے خلاف نعرہ بازی کی جاتی رہی جس میں ہمیں یہاں سے نکال پھینکنے کی دھمکیاں دی جاری رہیں، ہم خود کو پوری طرح غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں۔‘‘اس نے بتایا کہ ’دروازے پر بندھا کتا ہمیں جنگلی جانوروں سے تو بچا سکتا ہے لیکن ان انسانی شکل کے بھیڑیوں سے کون بچائے گا جنہوں نے ایک معصوم بچی کو بھی نہیں بخشا‘۔’’کرائم برانچ کیا ہے ؟ اور یہ سی پی آئی (سی بی آئی) کیا ہوتا ہے؟‘‘مقامی بی جے پی لیڈر کی طر ف سے تشکیل دی گئی ہندو ایکتا منچ کی مانگ کے بارے میں پوچھے جانے پر جان محمد نے لاعلمی اور معصومیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوال کیا۔ 8سالہ متوفیہ کی یادیں 7سالہ سیفل سے لے کر 35سالہ شینہ کے دل میں پیوست ہیں۔ شینہ نے بتایا کہ’وہ اکثر ہمارے گھر آیا کرتی تھی جب بھی اسے کوئی کام ہوتا تھا۔ سیفل بتاتا ہے کہ ’’وہ جب بھی گھوڑوں کو پانی پلانے ادھر آتی تو میرے ساتھ کھیلتی تھی لیکن عرصہ سے وہ اس تالاب پر نہیں آئی کیوں کہ اسے مار دیا گیا ہے ۔‘‘
کیرلہ میں احتجاجی ہڑتال
پولیس کے ساتھ جھڑپیں
سرینگر//کٹھوعہ سانحہ کے خلاف بیرون ریاست کیرالہ میں ہڑتال کے دوران احتجاجی مظاہرے ہوئے جس دوران پولیس نے درجنوں احتجاجی مظاہرین کو حراست میں لیا گیا۔ ضلع کٹھوعہ میں پیش آئے آبروریزی اور قتل معاملے کے خلاف جہاں ریاست میں تنائو اور کشیدگی کا ماحول برقرار ہے اورزندگی کے مختلف شعبہ جات سے وابستہ لوگ اس شرمناک واقعہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں وہیں سوموار کو بھارت کے شہر کیرالہ میں بھی واقعہ کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق کیرالہ میں 8سالہ بچی کی فرقہ پرستوں کے ہاتھوں آبروریزی اور قتل کو لے کر مکمل ہڑتال کی گئی جس دوران پورے شہر میں زندگی کی جملہ سرگرمیاں معطل رہی۔ احتجاج کے دوران کیرالہ میں دکانیں، تجارتی ادارے، تعلیمی ادارے، سرکاری و غیر سرکاری ادارے بند کرنے کے علاوہ سڑکوں سے ٹریفک مکمل طور پر غائب رہا۔ کیرالہ کی مشہورسیاسی جماعت ’سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا‘ کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے شہر کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کئے اور آر ایس ایس اور بی جے پی کے خلاف نعرہ بازی کی۔ اس دوران مظاہرین نے مختلف علاقوں میں کھلے دکانات کو تالہ بند کروادیا اور سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے گاڑیوں کی آمدروفت مکمل طور روک دی۔ احتجاجی مظاہروں کو دیکھتے ہوئے کیرالہ پولیس نے مظاہرین کا تعاقب کرتے ہوئے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا سے وابستہ درجنوں کارکنان کو حراست میں لیا۔ اطلاعات کے مطابق احتجاج کے دوران سب سے زیادہ اثر ضلع کوزی کھوڑی، کنور، مالہ پورم، پالہ کڑ اور تیرووننتھ پورم میں دیکھنے کو ملا جو ذرائع کے مطابق سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کا گڑ مانے جاتے ہیں۔
کپوارہ میں کانگریسی ارکان کا مشعل بردار جلوس
کپوارہ/اشرف چرا غ /کپوارہ قصبہ میں کانگریس پارٹی کے کار کنو ں نے کٹھوعہ میں پیش آئے واقعہ کے خلاف مشعل بردار نکال کر زور دار احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ اس شر مناک واقعہ میں ملوث مجرمو ں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے ۔پیر کی شام کو کانگریس پارٹی نے ضلع صدر حاجی محمد فاروق میر کی قیادت میں ایک مشعل بردار جلوس نکال کر کٹھوعہ میں 8سالہ بچی کی عصمت ریزی کے بعد قتل کے خلاف مطالبہ کیا کہ ملزمو ں کو کڑی سے کڑی سز ا دی جائیں ۔کانگریس صدر حاجی فاروق نے کہا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیو ں میں ہونے والا اضافہ اور جبر و دنیا بھر کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ۔انہو ں نے کٹھوعہ کیس میں وکلاء کی جانب سے مداخلت اور رکاوٹ کو اخلاقی دیوالیہ پن سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ان وکلاء کے خلاف بھی کاروائی ہونی چایئے جنہوں نے عدالت میں فرد جرم پیش کر نے پر پولیس کے کرائم برانچ کو روک دیا ۔انہو ں نے موجودہ سرکار پر الزام لگایا کہ وہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام میں موجودہ مخلوط سرکار کے خلاف صف آرا ہوچکے ہیں ۔انہو ں نے مطالبہ کیا کہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے خلاف بھی کاروائی عمل میں لائی جائیں ۔
سوپور فروٹ منڈی میں مظاہرہ
سوپور/غلام محمد /// کٹھوعہ میں پیش آئے ایک دردناک واقعہ کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے ، واقعہ کے خلاف آج فروٹ گروورس اور ڈیلرس ایسو سی ایشن فروٹ منڈی سوپور کے ممبران نے ایشیاء کی سب سے بڑی دوسری درجہ کی فروٹ منڈی سوپور مین ایک بڑا احتجاجی مارچ نکالا جس میں بائیرس یونین اور ٹرانسپورٹ یونین کے ممبران نے بھی شرکت کی۔ احتجاجی مارچ ایسو سی ایشن کے صدر مشتاق احمد تانترے کی قیادت مین نکالا گیا۔ مظاہرین نے آٹھ سالہ معصوم بچی کی بے دردانہ عصمت دری اور قتل کو سماج کیلئے ایک وحشیانہ اور شرم ناک موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی ہونی چاہئے اور مقتولہ کے لواحقین کو انصاف ملنا چاہئے۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں بینر اُٹھاتے ہوئے حکومت اور بی جے پی کے خلاف سخت نعرے بازی کی اور واقع پر شدید الفاظ میں مذمت کی اس بارے میں صدر مشتاق احمد تانترے نے کہا ہے کہ حکومت کو اس کیس کی پیروی کرنے کے لئے فاسٹ ٹریک کوٹ اور قانون کا استعمال کرنا چاہئے اور ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہئے کیونکہ یہ انسانیت کا قتل ہے۔
سرینگر میں طلباء و ڈاکٹروں کا احتجاجی مظاہرہ
بلال فرقانی
سرینگر// برستی بارشوں کے دوران سرینگر کی پریس کالونی میں پیر کی شام مقامی نوجوانوں نے کٹھوعہ سانحہ کی متاثرہ بچی کے حق میں احتجاج کرتے ہوئے ملوثین کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا۔اس دوران ویٹنری ڈاکٹروں اور انجینئرنگ طلبہ نے بھی شہر میں احتجاج کیا۔ پریس کالونی سرینگر پیر کی شام کو اس وقت نعرئوں سے گونج اٹھی،جب نوجوانوں کی ایک ٹولی نمودار ہوئی،اور انہوں نے بھاجپا اور حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مقتولہ بچی کے حق میں نعرہ بازی کی۔اس موقعہ پر انہوں کہا کہ کٹھوعہ معاملے میں بیداری مہم چلانا چاہتے ہیں،تاکہ مجرمین کو سخت سزائیں دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ 3ماہ گزر جانے کے باوجود بھی ابھی تک اس سلسلے میں مجرموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ ملزموں کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔مظاہرین کافی دیر تک بارشوں کے باوجود پریس کالونی میں خیمہ زن رہے،اور نعرہ بازی کی۔اس دوران سوہامہ آلسٹنگ میں ویٹنری ڈاکٹروں نے متاثرہ بچی کے ساتھ یکجہتی کے طور پر ریلی برآمد کی۔ فیکلٹی آف ویٹنری سائنس طلاب یونین نے اس احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا تھا۔مظاہرین نے پلے کارڑ بھی اٹھا رکھے تھے،جن پر متاثرہ بچی کو انصاف دینے کے حق میں تحاریر درج کی گئی تھی۔
بھیم سنگھ غیر جانبدارانہ تحقیقات پر مصر
سپریم کورٹ کے پاس درخواست دائر کی
سرینگر/پینتھرس پارٹی کے سرپرست اورسپریم کورٹ وکیل پروفیسر بھیم سنگھ نے کٹھوعہ معاملے میں سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس کیس کی تحقیقات سپریم کورٹ از خود کرے ۔اپنے ایک بیان میں ۔بیان کے مطابق ۔اسٹیٹ لیگل ایڈ کمیٹی کے ایکزیکیوٹیو چیرمین اور سینئر وکیل پروفیسر بھیم سنگھ نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے سامنے ایک دستاویزداخل کی ہے جس میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ اس معاملہ کی کسی آزادانہ ایجنسی سے تفتیش کرائی جائے خواہ سی بی آئی یا پھر دیگر ایجنسی جسے حکومت ہند مناسب سمجھے۔پروفیسر بھیم سنگھ نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ جموں وکشمیر کی حکومت سے دریافت کرے کہ وہ کیوں اس معاملہ کی نئے سرے سے تفتیش کرانے کی مخالفت کررہی ہے۔کیوں یہ معاملہ مناسب تفتیش کے بعد ملک کی کسی عدالت کو منتقل نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے کہاکہ معاملہ کی ابتدائی تفتیش کرنے والے ایک سب انسپکٹر، ایک ہیڈکانسٹبل اور دو پولیس کانسٹبل کو معطل کردیا گیا ہے۔اس کی بھی آزادانہ ایجنسی سے تفتیش کرائے جانے کی ضرورت ہے۔
ترال کے سکھ شہری
نے مقتولہ کے کنبے کو ایک ماہ کی تنخواہ عطیہ دینے کا اعلان کیا
سید اعجاز
ترال// قصبہ ترال سے دو کلومیٹر دو گامراج علاقہ سے تعلق رکھنے والے ایک انجینئر نے کٹھوعہ سانحہ کی متاثرہ کمسن بچی کے لواحقین کی معاونت کیلئے اپنی ایک ماہ کی تنخواہ وقف کی ہے ۔مذکورہ انجینئر سکھ فرقے سے تعلق رکھتا ہے اور محکمہ بجلی کا ملازم ہے ۔ہر مندپال سنگھ ولد ایس گوجندر سنگھ ساکنہ گامراج ترال نیکٹھوعہ سانحہ پر زبردست غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا متاثرہ بچیمیری اپنی بیٹی جیسے تھی اور انہیں جن درندوں نے بے دردی کے ساتھ مارا ہے اس کا دکھ دنیا کے ہر صاحب دل شخص کو محسوس ہو تا ہے جبکہ اس غم سے تمام لوگ بلا مذہب ،ملت نڈھال ہیں ۔انہوں نے کہاکہ مقتولہ کے گھر والوں کا کیا حال ہوگا یہ صرف وہ ہی جانتے ہونگے۔کشمیر عظمی کے ساتھ بات کرتے ہوئے ہر مند پال سنگھ نے کہا ہم تومعصوم بچی کو بچا نہ سکے یا اس دنیا میں واپس نہیں لا سکیں گے مگر انسانی ہمدری کی بنیاد پر متاثرہ خانہ بدوش گھرانے کو انفردی یا اجتماعی طور اس مصیبت کی گھڑی میں مدد کر سکتے ہیں ۔ میں نے بھی انہیں انسانی بنیادوں پر اپنے ایک ماہ کی تنخواہ مقتولہ کے ورثاء کو عطیہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ میری مدد سے معصوم متاثرہ بچی زندہ تو نہیں ہو گی لیکن کنبے کو وقتی طور پردلاسہ ملے گا کہ غم کی اس گھڑی میں ہر کوئی شہری ان کے ساتھ کھڑا ہے ۔ہر مندر پال نے کہا کہ متقولہ ایک خانہ بدوش کنبے کے بیٹی نہیں تھی بلکہ وہ پورے ملک کی بیٹی تھی۔انہوں نے کہا کہ مجرموں کو قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا ملنے کے علاوہ انکے بچانے والوں کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہئے تاکہ آئندہ اس قسم کا کوئی اور واقعہ پیش نہ آئے ۔