کووڈ ۔19ٹیسٹ:غلطیوں کی چھان بین

وادیٔکشمیرکی2نامورطبی لیبارٹریوں سے کووڈ۔19 ٹیسٹ کے نتائج میں فرق کے بارے میں سوشل میڈیا میں پھیلی خبریں تشویش کا باعث بن گئیں۔ نمونے 2 مختلف دنوں میںلئے گئے تھے۔ ٹیسٹ کے نتائج کی تکرار پذیری کا فقدان نمونے لینے یا عبوری مختصر مدت کے دوران وائرل لوڈ میں تیزی سے گرنے کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ یہاں ہم کووڈ۔19 ٹیسٹنگ پر تبصرہ کرتے ہیں اور امکانی غلطیوں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں جو جانچ کے نتائج کو متاثر کرسکتے ہیں۔ ہم نے ان میں سے کسی بھی لیبارٹری کے کام کا معائنہ یا جائزہ نہیں لیا ہے اور زیر نظر مضمون میں ان لیبارٹریوں کے کام کرنے کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ ہماری اس تحریر میں مفادات کا کوئی تصادم نہیں ہے سوائے اس کے کہ آگہی پھیلاکر اور خدشات کا ازالہ کرکے سماج کی خدمت کی جاسکے۔
کورونا وائرس کے انفیکشن کی جانچ کرنا کووڈ۔19 وبائی مرض کے خلاف لڑنے کا سنگ بنیاد بن چکا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل نے 16 مارچ 2020 کوکووڈ۔19 کے بارے میں میڈیا بریفنگ میں کہا:’آپ آنکھوں پر پٹی باندھ کر آگ سے نہیں لڑ سکتے۔ اور ہم اس وبائی مرض کو نہیں روک سکتے اگر ہم نہیں جانتے ہیں کہ کون انفیکشن میں مبتلا ہے۔ ہمارے پاس تمام ممالک کے لئے ایک آسان پیغام ہے: ٹیسٹ ، ٹیسٹ ، ٹیسٹ۔ ہر مشتبہ مریض کی جانچ کرو‘۔ کووڈ۔19 کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک انتہائی اہم آلہ یعنی ’رابطہ ٹریسنگ اور تنہائی‘ متاثرہ افراد کی شناخت اور جانچ کرنے پر منحصر ہے۔ جنوبی کوریا جیسے ممالک نے اپنی ’ڈرائیو تھُروٹیسٹنگ ‘یعنی چلیء چلتے جانچ کرنے کی پالیسی سے انفیکشن کی شرح کو کامیابی کے ساتھ کم کردیا ہے۔کووڈ۔19 ٹیسٹنگ مراکز کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے اور ہر ملک میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعدادکی جانچ کی جارہی ہے۔ یکم جون ، 2020 تک بھارت میں681 لیبارٹریاں (476 سرکاری اور 205 نجی) قائم کی گئی تھیں، جن کی یومیہ صلاحیت تقریباً 1.2 لاکھ ٹیسٹ تھی۔ ان مراکز کے قیام اور کوالٹی کنٹرول کا عمل انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کی براہ راست نگرانی میں ہے۔ یہ قابل تحسین ہے کہ ایسی بہت سی لیبارٹریاں ایسی جگہوں پر قائم کی گئی ہیں جہاں نیوکلیک ایسڈ ٹیسٹنگ سے متعلق بہت کم معلومات یا مہارت موجود تھی جوکہ کووڈ۔ 19 کی تشخیص کی بنیادہے۔
کووڈ۔19 انفیکشن کی تشخیص کے لئے سنہری معیار ایک ایسی تکنیک پر منحصر ہے جس کو’ریئل ٹائم ریورس ٹرانس کرپٹیس پولی مریس چین ری ایکشن‘ (RT-PCR) کہا جاتا ہے۔ ٹیسٹSARS-CoV-2کے ربنونیوکلیک ایسڈ (آر این اے) کا پتہ لگاتا ہے جو کووڈ۔ 19 کا علائمی ایجنٹ ہے۔ ٹیسٹ کے تین مراحل ہیں: (1) نمونے جمع کرنا ، (2) آر این اے نکالنا ، (3) پولی مریس چین ری ایکشن (پی سی آر)۔ناک یا گلے سے ایک سٹیرائل یا جراثیم سے پاک ٹیوب کے ذریعے نمونہ لیاجاتا ہے جس میں وائرل ٹرانسپورٹ میڈیم ہوتا ہے۔ناک سے اگر نمونہ لینا ہو تو جاروب(Swab)ناک میں گھسائی جاتی ہے اور اس کو آہستہ سے ناک کی نالی میں گھسایا جاتا ہے اور مخصوص مدت کیلئے پھر گمایاجاتا ہے تاکہ وہ سیال مادہ حاصل کیا جاسکے جس میں متاثرہ شخص میںوائرس ہوتا ہے۔ جمع شدہ مادے سے وائرل آر این اے ا ایک لیسیز بفر اور سلکا پر مبنی کارتوس استعمال کرکے نکالاجاتاہے۔ کوروناوائرس کا جینیاتی مواد 30Kb کے ایک واحددھاگے کا آر این اے ہے۔ اس کا پتہ لگانے کیلئے آر این اے کو ریورس ٹرانس کرپٹیس کے ذریعہ تکمیلی ڈی این اے(cDNA) سلسلوں میں تبدیل کرنا ہوتا ہے اور نئے ترکیب شدہ (cDNA)کو معیاری پی سی آر طریقہ کار (آر ٹی پی سی آر) کے ذریعہ لاکھوں کاپیوں میں بڑھاکردیا جاتا ہے۔ موجودہ ٹیسٹ میں بہتر حساسیت اور وضاحت دینے کے لئے وائرل آر این اے کے تین الگ الگ خطوں کو بڑھاکرکے رکھ دیاجاتا ہے۔ ان کا پتہ لگانے کیلئے خاص طور پر لیبل کئے جانے والے پروب (اس سرجیکل آلہ)استعمال ہوتے ہیں جو اُس طرح ڈیزائن کئے گئے ہیں کہ وہ تقویت شدہ یا بڑھائے گئے حصوں میں بندھے رہتے ہیں۔چونکہ وائرل جینیاتی مواد کو بڑھاوا دیا جاتا ہے توٹیوب میں اس کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے ، ٹیوب کی بائینڈنگ ایک بڑھتی ہوئی فلوریسنٹ سگنل دیتی ہے جس کا اصل وقت میں پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس طرح یہ تکنیک نتائج کو فوری طور پر دیکھنے کی اجازت دیتی ہے جبکہ عمل ابھی جاری (ریئل ٹائم)ہی ہوتاہے ، جبکہ روایتی آر ٹی پی سی آر صرف عمل کے اختتام پر ہی نتائج فراہم کرتا ہے۔
ٹیسٹ کے لئے ضروری لیبارٹری کے سازوسامان میں تھرمل سائیکلر (جسے تھرموسائیکلربھی کہتے ہیں)، پی سی آر مشین ، یا ڈی این اے ایمپلی فائر شامل ہیں تاکہ cDNA کے حصو ں کوپالی مریس چین ری ایکشن (پی سی آر) کے ذریعے انہیں بڑھاکیاجا سکے۔ ایک بروقت پی سی آر مشین بھی مسلسل فلوریسنٹ سگنلوں کا پتہ لگاسکتی ہے۔ ٹیسٹ کے لئے کئی ریجنٹس کی ضرورت ہے جن میں لیسز بفر ، ریورس ٹرانس کرپٹیس اور ڈی این اے پولی مریس انزائمز ، نیوکلیوٹائڈس ، فارورڈ اور ریورس پرائمر سیٹ اورپروبس (سرجیکل آلات) شامل ہیں۔یہ کٹس کی صورت میں سپلائی کئے جاتے ہیں جو کئی سپلائرز کے پاس دستیاب ہیں۔ آئی سی ایم آر نے کووڈ۔19 جانچ کے لئے کارکردگی کی بنیاد پر 40 سے زیادہ کٹس کی توثیق یا منظوری دی ہے۔ کٹس بنانے والے درستگی (لگ بھگ 10 وائرل کاپیاں / یونٹ کا پتہ لگاسکتے ہیں)،بار بار کے ٹیسٹوں پر تکرار پذیری ، مختلف آلات کیلئے مختلف آپریٹروں کے ذریعہ ان کا تجزیہ کرواتے ہیں۔تصدیق شدہ مثبت اور منفی نمونوں پر موجود تمام توثیق کٹس کی تشخیصی درستگی 99 فیصد سے زیادہ ہے۔ ان نتائج کی بنیاد پر ، ریئل ٹائمRT-PCR کو تجربہ گاہ میں اعلی حساسیت اورمخصوصیت کے ساتھSARS-CoV-2 یاکورونا وائرس اور بہت سارے دوسرے وائرسوں کی تشخیص کیلئے سنہرا معیار سمجھا جاتا ہے۔
جہاں رئیل ٹائم RT-PCRوائرل جینیاتی مواد کی انتہائی قلیل مقدار کا پتہ لگانے کے لئے ایک انتہائی حساس ٹیسٹ ہے ، وہیں کلینیکل سیٹنگ میں یہ ٹیسٹ استعمال کیے جاتے ہیں تو بہت سی موروثی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ناپسندیدہ نتائج کے ساتھ دونوں غلط پازیٹیو اور غلط نگیٹیونتائج بھی آسکتے ہیں۔کووڈ۔19 غلط مثبت ٹیسٹ افراد اور ان کے اہل خانہ کو لاک ڈاون اور اس سے منسلک معاشرتی بدنامی یا شرمندگی کی غیر ضروری مشکلات میں ڈال سکتا ہے۔ ایک غلط منفی ٹیسٹ کووڈ۔19 کے خلاف جنگ کو خطرے میں ڈال سکتاہے ، کیونکہ متاثرہ فرد تنہا کیے بغیر انفیکشن منتقل کرنے کاعمل جاری رکھ سکتا ہے۔ لہٰذا اس کا بات کا تنقیدی جائزہ لگاناانتہائی ضروری ہے کہ وہ کون سے حالات ہیں جو جانچ میں غلطیوںکا باعث بن سکتے ہیں اور کووڈ۔19 رئیل ٹائم RT-PCR ٹیسٹ کرتے وقت ان سے ہمہ وقت باخبر اور ہوشیاررہیں۔
کووڈ۔19 کے لئے رئیل ٹائم RT-PCR ٹیسٹنگ میں سب سے اہم بے ثباتی نمونہ لینے کی تکنیک اور بیماری کے دوران نمونے جمع کرنے کی جگہ اور وقت ہے۔ زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ نامناسب نمونہ اکٹھا کرنا ، کافی نمونہ حاصل کرنے میں ناکامی اور ناک میں گہرائی تک سواب (swab) ڈالنے میں ناکامی کم طبی حساسیت کیلئے ذمہ دار ہیں اور اس کے نتیجے میں غلط منفی نتائج سامنے آتے ہیں۔ نیزنمونے کو غلط طریقے سے سنبھالنایانامعقول و نامناسب سٹوریج سے نمونے پھٹ سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں غلط منفی نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔ ٹیسٹ کے درستگی پر نمونے لینے کے مقام کابھی بڑا اثر پڑتا ہے۔ مختلف مقامات سے حاصل کئے جانے والے نمونوں کی مثبت آنے کی شرح بھی مختلف رہتی ہے۔مثلاً ہوا کی نالی میں موجود فلیوڈ کی93فیصد،فائبروبرونکوسکوپی برس بیوپسی 46 فیصد ،تھوک 72 فیصد ، ناک کے نمونوں سے63فیصد،حلق سے لینے والے سواب 32فیصد ،پائخانہ سے29فیصد ،خون سے1فیصد اور پیشاب سے0فیصدرہتی ہے ۔ اس طرح کووڈ۔19کیلئے ٹیسٹنگ کیلئے سنہرے طریقہ کار یعنی ناک سے نمونوں لینے سے صرف دو تہائی معاملات کا ہی پتہ لگایا جاسکتا ہے اور حلق سے لئے جانے والے نمونوں سے صرف ایک تہائی معاملات کا پتہ لگ پائے گا۔ اگلا ، وائرس کے جینیات کا پتہ لگانے کا امکان اس بات پر منحصر ہے کہ انفیکشن کے بعد سے کتنا وقت گزر چکا ہے۔ ایک مطالعہ میںعلامات کے آغاز کے بعد پہلے ہفتے میں رئیل ٹائمRT-PCR ،67 فیصدمیں مثبت ، دوسرے ہفتے میں 54 فیصد اور تیسرے ہفتے میں 45 فیصد میں مثبت رہا تھا۔ اس کے برعکس بیماری کے بالترتیب پہلے ، دوسرے اور بیماری کے تیسرے ہفتے میں 93.1فیصد ، 82.7فیصد ، اور 64.7 فیصد معاملات میں کورونا وائرس اینٹی باڈیوں کا پتہ لگایاگیا۔ آر این اے اور اینٹی باڈی کے پتہ لگانے کے امتزاج سے کووڈ۔ 19 کے متعدی تشخیص کی حساسیت میں نمایاں اضافہ ہوا۔
دوسرا مسئلہ جو رئیل ٹائم RT-PCR میں غلطیاں پیدا کرسکتا ہے، وہ جانچ کے دوران آلودگی ہے۔ اگر جانچ کے دوران معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (SOP) پر عمل نہیں کیا گیا تو آلودگی پائے جانے کا امکان ہے۔ ون ٹیوب بمقابلہ دو ٹیوب آر ٹی پی سی آر کے درمیان انتخاب کے اپنے اہم نتائج ہیں ۔ کووڈ۔19 ٹیسٹنگ کے لئے ون ٹیوب کے طریقہ کار پر عمل ہورہا ہے۔دونوں فرسٹ سٹرینڈ cDNAاختلاط اور بڑھائے گئے پی سی آرکو ایک واحد ٹیوب میں ملایا جاتا ہے ۔cDNAاختلاط اور پی سی آر بغیر کسی رکاوٹ تھرمل سائیکلنگ پروگرام کے دوران خصوصی طور پر بہتر آر ٹی پی سی آر بفر میں کامیابی کے ساتھ رونما ہوتا ہے۔ چونکہcDNA اختلاط اور پی سی آر پرورش کے مابین ری ایکشن ٹیوب نہیں سنبھالنا پڑتا ہے ، لہٰذا ون ٹیوب آر ٹی پی سی آر نظام کو کم وقت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں دو ٹیوب سسٹم کے مقابلے میں نمونہ کو آلودگی کاشکار ہوجانے کا کم خطرہ رہتاہے۔ تاہم آلودگی پھر بھی ممکن ہے کیونکہ سسٹم مکمل طور پر بند نہیں ہے۔کووڈ۔19 وائرل آر این اے یا مثبت کنٹرول ٹیمپلیٹ کو اگر صحیح طریقہ سے ہینڈل نہیں کیاگیاتو اس سے قابل قدر وائر ل ایروسول پیدا ہوسکتا ہے اور وہ آر این اے نکالنے اور آر این اے پرورش عمل کے درمیان کسی منفی نمونے کو بھی آلودہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سے غلط مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
آخر میں ہمیں COVID-19 ٹیسٹنگ کے انوکھے حالات کا ادراک کرنا ہوگا۔ جانچ کی سہولیات کی توسیع ایک انتہائی مشکل اور جان لیوا صورتحال میں ہوئی ہے۔ کچھ لیبارٹریاں ایسی جگہوں پر قائم کی گئی ہیں جہاں پہلے کبھی بھی نیوکلیک ایسڈٹیسٹنگ نہیں کی گئی تھی۔ اس طرح کی ٹکنالوجی میں تربیت نہ رکھنے والے تکنیکی عملے کو کم سے کم وقت میں تربیت دی گئی ہے ، جس میں سیکھنے کا ایک محدود دائرہ تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر لیبارٹری میں سینکڑوں نمونوں سے بھری پڑی ہے جنہیں ایک مخصوص ماحول میں مکمل کرنا ہے اور یہ عمل نہ صرف وقت لیتا ہے بلکہ مکمل طور خودکار بھی نہیں ہے۔ تکنیکی عملہ اپنی حفاظت یقینی بنانے کیلئے تمام حفاظتی لباس میں ملبوس ہے جس سے کام کرنا مشکل بن جاتا ہے۔
 اس سب کے ساتھ ہمیں فخر محسوس ہوتا ہے کہ ملک بھر کی بہت سی لیبارٹریوں میں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں نمونوں کی جانچ کی جارہی ہے تاہم   اس سب سے نظام میں بہت سارے مسائل اور غیر ارادی غلطیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی طبی عمل کی کارکردگی خاص طور پر کووڈ۔19 کے لئے رئیل ٹائم RT-PCR جیسے انتہائی نفیس طبی پروسیجر کو مناسب طور سیکھنے کی ضرورت ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیسٹنگ کارکردگی بہتر ہوگی کیونکہ ٹیسٹنگ ٹیمیں سیکھنے کا تجربہ اور اعتماد حاصل کریں گی۔ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ تیسرے سال کا ریذیڈنٹ ڈاکٹر پہلے سال کے ریذیڈنٹ ڈاکٹرسے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے اور یہی کچھ تجربہ گاہوں کے کاموں پر بھی صادق آتا ہے جس میںکورونا کی جانچ کیلئے رئیل ٹائم RT-PCR ٹیسٹ کرنا بھی شامل ہے۔
یہ سب کہنے کے بعد ہمیں ان ٹیموں پر فخر ہے جنہوں نے انتہائی مشکل اور تھکا دینے والے اوقات میں بہت زیادہ اور بہت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ خدا ا کورونا کے خلاف لڑنے والے ہر اول دستہ کے ان تمام ساتھیوں کو سلامت رکھے۔
(پروفیسر ایم ایس کھورو شیر کشمیر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ،سری نگر کشمیرکے سابق ڈائریکٹر ہیںجبکہ ڈاکٹر شاہد جمیل ،پی ایچ ڈی ویلکم ٹرسٹ ڈی بی ٹی انڈیا الائنس کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیں)
مترجم : ریاض ملک