کووڈ۔۱۹،ایک مہلک اور خطرناگ بیماری ہے۔ اس بیماری نے پوری دنیا کو زنجیروں میں جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ آج دنیا کو امریکہ؛ روس اور چین جیسےملکوں کے مہلک ہتھیاروں سے کم بلکہ کویڈ ۔۱۹سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ اب دنیا ترقی اور ہتھیاروں کی دوڑ سے ہٹ کر اکوویڈ ۔۱۹کو مٹانےکی دوڑ میں لگ گئی ہے۔ امیر ملکوں کی میعشت چکناچور ہو کر رہ گئی ۔ ہتھیاروں اور طاقت کے بل پر ناچنے والے ممالک اس مہلک بیماری کے سامنے پیٹ دکھانے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔ اگرچہ دنیا کے بہت سے ملکوں نےکوویڈ موثر دوائی بنانے کا دعویٰ کیا لیکن یہ دعویٰ زیادہ موثر ثابت ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔ اب سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ لاک ڈاون اس بیماری کا صحیح علاج ہے یا نہیں ۔لاک ڈاون کی اگر بات کی جائے، تو اس سے اگر کووڈ ۔۱۹کو روکنے میں کافی مدد ملی لیکن دوسری طرف اس نے بےروزگاری جیسی بیماری کو جنم دیا ۔یہ بیماری کوویڈ کی تباہکاری سے کہیں گنا خطرناگ اور مہلک ہے ۔اس بیماری سےچند افراد یا خاندان ہی نہیں بلکہ پوری قوم تباہ و برباد ہوسکتی ہے ۔
کووڈ ۔۱۹نے ہر طرف تباہی کا بازاز گرم کر دیا ۔ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ چھوٹے کارخانہ دار اپنے کارخانوں کو تالا بند کرنے پر مجبور ہورہے ہیں ۔ ہر چیز بے ترتیب چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ سب سے بڑھ کر تعلیم کے میدان میں جو انخلا پیدا ہوا ، برسوں تک اُس کاپُر ہونا محال بن گیا ہے۔ تعلیم کی محرومی کی وجہ سے ایک قوم کو ہمیشہ کیلے دفنایا جاسکتاہے ۔کسی قوم کو تباہ اگر کرنا ہوتو وہاں علم کے حصول کو مشکل ترین بنا دیا جائے۔تعلیم حاصل کرنا ہر بچے کا بنیادی حق ہےاور تعلیم فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہے۔ دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں بچوں کی تعلیم اور صحت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ بچے ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں جنہوں نے آگے جا کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم میعاری ایجوکیشن پر زور دیں۔اگر ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا ہے تو اپنے ملک میں تعلیم کو عام اور آسان سے آسان کرنا ہوگا، ہندستان کا مستقبل اسی وقت روشن ہوسکتا ہے جب یہاں کا بچہ بچہ تعلیم حاصل کرےگا۔ ہمارے ملک میں دو یا تین سالوں میں کووڈ کی وجہ سے کئی بچوں نے اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی ۔ ہمارے ملک میں بڑی تعداد میں ایسے بچوں کی ہیں جوپہلے ہی مزدوری کرتے ہیں۔ جس ملک کا بچہ اسکول جانے کے بجائے مزدوری کررہا ہو، اس ملک کا مستقبل کیسے روشن ہوسکتا ہے؟ ایسا ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے بلکہ اور مسائل کا شکار ضرور ہوسکتا ہے۔حالات سخت اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ موجودہ وقت میں تیزی سے ہوتی نئی تبدیلیاں اصل میں ہمیں نیا سبق سیکھنے اور شاید یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور کرسکتی ہے کہ ہمیں کووڈ۔ ١٩ کیلئے احتیاتی تدابیر کے ساتھ ساتھ پڑھائی کے لیے اساتذہ کی موجودگی والے کمرہ جماعت کا ماڈل ہی واحد اور لازم ذریعہ ہے۔انسانی حقوق کے عالمی قانون کی رُو سے ہر شخص کو ممکنہ حد تک اعلیٰ ترین معیاری صحت کا حق حاصل ہے اور حکومتوں پر فرض ہے کہ وہ صحت عامہ کو درپیش خطرات کی روک تھام اور ضرورت مندوں کی طبی نگہداشت کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ انسانی حقوق کا قانون یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ صحت عامہ کو سنگین خطرات اور قوم کی زندگی کے لیے پُرخطر قومی ہنگامی حالات میں بعض حقوق پر پابندیاں جائز ہو سکتی ہیں بشرطیکہ اُن کا قانونی جواز ہو، محدود مدت کے لیے ہوں، انسانی وقار کا احترام کریں، نظرثانی کے تابع ہوں، اور مقصد کے حصول کے لیے موزوں ہوں۔
انسانوں پر صدیوں سے مختلف وبائیں پھوٹتی رہی ہیں۔گزشتہ دس بیس سال کو ہی دیکھا جائے تو لگ بھگ ہردو یا تین سال کے بعد کوئی نہ کوئی وبا پھیل جاتی اور اچھی خاصی تباہی لاتی رہی ہیں۔تاہم ان وباؤں کی تباہ کاری چند مخصوص علاقوں تک محدود تھی۔ کورونا وائرس اس لحاظ سے انتہائی خطرناک ہے کہ اس کی تباہ کاری عالمگیر ہے۔ وبائیں اخلاقی و سماجی سطح پر ثواب و عذاب کے مختلف تصورات بھی ہمیشہ ساتھ لاتی رہی ہیں۔ ہر مذہب و فرقہ کے لوگ اس وباء کے حوالے سے اپنے اپنے تصورات رکھتے ہیں۔تاہم کورونا وائرس تباہی لاتے ہوئے کسی مذہب، فرقہ، رنگ و نسل اور کسی نوعیت کی گروہ بندی کو نہیں دیکھتا بلکہ تمام انسانوں پر اندھادھند وار کر تا رہا ۔اس وبا سے بچنے کے لیے جو حفاظتی اوراحتیاطی تدابیر بتائی جا رہی ہیں ،ان سے نفع کم اور نقصان زیادہ ہے۔ اب ہماری سرکارکو چاہیےکہ وہ احتیاتی تدابیر کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت کا خیال رکھے۔اسکو خراب اور ابتر ہونے سے بچایا جائے۔ خاص کر ایجوکشن سسٹم جو قوموں کی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہے، اس پر خاص توجہ دئیے بغیر ہم امریکہ اور چین جیسے ملکوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ اس لئے تعلیم کی بحالی وقت کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے ملک اور قوم کو دنیا کے اعلی قوموں کی صف میں شریک کر سکیں۔
(فیری پورہ شوپیان)