کووڈ معاملات میں اُچھال خطرے کی گھنٹی!

  گزشتہ چند روز سے جموںوکشمیر میںایک بار پھر کورونا معاملات بڑھنا شروع ہوچکے ہیں اور تشویشناک امر یہ ہے کہ سب سے زیادہ دارالحکومتی شہر سرینگرسے سامنے آرہے ہیں اورگزشتہ چند روز کے دوران شہر کے چند ایک علاقوں میںمحدود پابندیاں دوبارہ عائد کردی گئی ہیں۔ہم بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ کورونا کہیں گیا نہیں ہے بلکہ وہ ہمارے ساتھ ہی موجود ہے اور مسلسل ہمارا تعاقب کررہا ہے تاہم لوگوں نے ان سنی کردی اور جس رفتار سے معاملات بڑھنا شروع ہوگئے ہیں توتیسری لہر کی باتیں ہونا بھی شروع ہوچکی ہیں۔  یہ انتباہ انتہائی پریشان کن ہے اور یقینی طور پر جہاں حکومت کیلئے نوشتہ دیوار ہونا چاہئے وہیں عوام کیلئے بھی اس میں کئی اسباق موجود تھے ۔ اب ہمیں یہ مان کر چلنا ہے کہ ہمیں بہت دیر تک اس وائرس کا سامنا رہے گا اور ہمیں یونہی اپنا طرز زندگی بھی تبدیل کرتے رہنا ہے ۔اب ہم قطعی اُس طرح کا طرز ِ زندگی اختیار نہیں کرسکتے جو کورونا وبا سے پہلے ہمارا معمول تھا ۔اب حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں۔فیس ماسک ہماری زندگی کا بالکل اُسی طرح حصہ بننا چاہئے جس طرح خوراک اور پوشاک ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔اسی طرح جسمانی دوریوںکے چلن کو بھی ہمیں بالکل اُسی طرح اپنا نا ہوگا جس طرح ہم عبادات کو فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ذاتی صفائی ویسے بھی مستحسن عمل ہے اور اسلام میں اس پر خاصا زور دیاگیا ہے کیونکہ اسلام کا ماننا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن موجودہ حالات میں اب ذاتی صفائی کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے اور ہمیں ذاتی حفظان صحت کا بھرپور خیال رکھنا پڑے گا۔جس طرح بتایا جارہا ہے کہ تیسری لہر آسکتی ہے تو بے شک سردیوں کا موسم ہمارے لئے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے کیونکہ سردیوں میں ویسے بھی کھانسی ،نزلہ زکام اور بخار عام ہوتے ہیں ۔ان حالات میں اس طرح کے امراض اس لئے بحرانی صورتحال کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ کورونا کے بھی ایسے ہی علائم ہیں اور ویسے بھی کہاجاتاہے کہ سرد ی میں یہ وائرس پورے شباب پر ہوگا کیونکہ سردی کا سیزن اس کا اپنا سیزن ہے ۔اس لئے ہمیں آج سے ہی اس کیلئے تیار رہنا پڑے گا۔وائرس کمیو نٹی میں موجود ہے ۔اب تو اس کی نئی نئی صورتیں سامنے آرہی ہیں اور یہاں تک حرکت قلب بند ہونے والے مریضوںمیں بھی اس وائرس کی تشخیص ہورہی ہے اور طبیبوںکا ماننا ہے کہ دراصل آکسیجن کی کمی کی وجہ سے نظام تنفس ٹھپ ہوجاتا ہے جو اچانک حرکت قلب بند ہونے کا موجب بن جاتا ہے اور اس کو بھی کورونا سے جوڑا جارہا ہے ۔مختصراً یہی کہاجاسکتا ہے کہ کورونا وائرس اب بھیانک رخ اختیار کرچکا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم گھر کی چاردیواری تک محدود رہیں ۔بے شک عوام کودو وقت کی روٹی کا بندو بست کرنے کیلئے باہر نکلنا ہے لیکن روزی روٹی کمانے کے دوران عوام کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ کہیںوہ اپنے اور اہل خانہ کیلئے دو وقت کی روٹی کا بندو بست کرنے کے دوران اپنے یا اہل خانہ کیلئے کسی بڑی پریشانی کا موجب تو نہیں بن رہے ہیں۔جب مکمل حفاظتی بندو بست سے لیس ڈاکٹر حضرات کووڈ کی زد میں آسکتے ہیں تو عام لوگوں کا بچنا محال ہی نظر آرہا ہے ۔اسی لئے عقلمندی اسی میں ہے کہ ہم کووڈ پروٹوکول پر سختی سے عمل کریں اور اپنی طر ف سے حتی المقدور کوشش کریں کہ اس وائرس سے محفوظ رہیں کیونکہ جب ہم خود محفوظ رہیں گے تو بحیثیت مجموعی سماج بھی محفوظ رہے گا اور اگر ہم خود خطرے میں پڑ گئے تو سماج کا بچنا پھر محال ہی ہے ۔اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ معمولات ِ زندگی رواںدواںرکھنے کے دوران لاپرواہی کی بجائے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اور اپنے سماج کی حفاظت یقینی بنائیں گے۔