آج کرونا وائرس نے پوری دنیا میں ہلچل مچائی ہے۔ یہ ایک عالمگیر وبا ہے اور یہ وبا کسی ایک کو بھی اپنے لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اس سے قبل تقریباً دس ایسی وبائیں دنیا میں ظاہر ہوئی ہیں جنہوں نے مختلف زمانوں میں اپنا کام کر کے دکھا دیا۔ ان دس میں سے ایک وبا سارس تھی جو 2003ء میں ظاہر ہوئی۔ یہ وبا جلد ہی دنیا سے ناپید ہو گئی تھی۔آج کرونا وائرس کا خوف پورے عالم پر لاحق ہوگیا ہے اور ہر ایک کی تقریبا ًیہی آواز ہے کہ’’کریں تو کیا کریں، جائیں تو کدھر جائیں ‘‘۔ چونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس کے دائرے میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کوئی بھی گوشہ اور شعبہ باہر نہیں۔اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس میں انسانی زندگی کے جملہ مسائل کا حل ہے لہٰذا یہی دین انسانی نجات کا ضامن ہے۔ایسے مسئلے کا دنیا میں ابھرنا کوئی نئی بات نہیں بلکہ دنیا میں مسائل کا ابھرنا تادم سے ایں دم قائم ہے۔ آج کے دور میں سائنسی ترقی اپنے عروج پر ہے اور معاشرے میں ہر نئے اور ابھرتے ہوئے مسائل پر آگاہی کر رہی ہے لیکن سب سے بڑی اور نتیجہ خیز آگاہی ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ملتی ہے۔ آج کورونا وائرس کے حوالے سے جو بھی آگاہی طبی ماہرین نے فراہم کی ہے، تمام انسانوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص ان سب ہدایات پر عمل کرنا وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔چونکہ احتیاتی تدابیر یا علاج و معالجہ سنت کے عین مطابق ہے۔ احتیاتی تدابیر اور علاج معالجہ کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے کے بعد ہی ہم سب اس زہریلے وائرس سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
کرونا وائرس ور نبوی تعلیمات:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی کرونا وائرس جیسی ایک مہلک وبا یعنی طاعون( plague )نے انسانیت کو اسی طرح پریشان کر رکھا تھا جس طرح آج کورونا وائرس نے کر رکھا ہے۔ لیکن ا ُس وبا کا سامنا کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے بلکہ جو بھی تدابیر میسر اائیں ان سب پر عمل کر کے اور اللہ تعالی پر تو کل کر کے انسانیت کی جانیں بچانے کی حتی الامکان کوشش کی۔وباء کے اِس عالم میں رسول اللہؐ اور آپ کے صحابہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر30کا عملی نمونہ بنے۔’’ جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی‘‘(المائدہ:۳۰)
اسلام ہمیں زندگی کے ہر معاملے میں احتیاط و تدابیر اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ آج وائرس سے پیدا شدہ اِن مشکل حالات میں بھی ہمیں تعلیماتِ اسلامی میں بھرپور رہنمائی ملتی ہے۔ اِس ضمن میںذیل میں ہم چند احادیث مبارکہ پیش کرتے ہیں تاکہ بات سمجھنے میں ااسانی پیدا ہو:سیدنا ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بیمار آ دمی کو صحت مند آدمی کے پاس داخل نہ کیا جائے‘‘(مسند احمد : ۲۵۲۹)۔سیدنا علی بن ابی طالب بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جذام زدہ مریضوں پر زیادہ دیر تک نظر نہ ڈالو اور جب تم ان سے کلام کرو تو تمہارے اور ان کے درمیان ایک نیزے کے برابر فاصلہ ہونا چاہیے۔‘‘(مسنداحمد:۱۸۵)۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوڑھ کے مریض سے اس طرح فرار اختیار کرو جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو۔‘‘ (مسند احمد : ۹۷۲۰)۔سیدنا شرید بن سوید ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم کے پاس ایک کوڑھ زدہ آدمی اایا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لے،میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی کہ ایک جذام زدہ آدمی آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے، آپ نے فرمایا : تم اس کے پاس جائو اور اس سے کہو کہ میں نے اس کی بیعت قبول کر لی ہے ، وہ وہیں سے واپس چلا جائے۔‘‘ ( مسند احمد :۱۹۴۹۷)
قربان ہو جائیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ جنہوں نے آج سے چودہ سو سال پہلے ان احادیث کے حوالے سے (Concept of Isolation) دے دیا جو کہ آج غیر اقوام نے بھی Corona Virusپر قابو پانے کے لیے لاگو کیا ہے۔لہٰذا مذکورہ نبوی تعلیمات کی روشنی میں وقت کا ایک اہم تقاضا ہے کہ جو لوگ کرونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، ان کو لوگوں سے دور رہنا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ باقی لوگوں کو بھی احتیاط کرنا چاہیے تاکہ کرونا جیسی مہلک اور تیزی سے پھیلنے والی وبا زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی لپیٹ میں نہ لیں۔
حضرت عمر بن خطابؓ شام تشریف لے جارہے تھے جب آپ مقام سرغ پر پہنچے تو آپ کی ملاقات فوجوں کے امرا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں سے ہوئی۔ ان لوگوں نے امیرالمومنین کو بتایا کہ طاعون کی وبا شام میں پھوٹ پڑی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے پاس مہاجرین اولین کو بلا لائو۔ آپ انہیں بلا لائے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے مشورہ کیا اور انہیں بتایا کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے ، مہاجرین اولین کی رائیں مختلف ہو گئیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی باقی ماندہ جماعت آپ کے ساتھ ہے اور یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ انہیں اس وبا میں ڈال دیں۔عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب آپ لوگ تشریف لے جائیں پھر فرمایا کہ انصار کو بلائو۔میں انصار کو بلا کر لایا آپ نے ان سے بھی مشورہ کیا اور انہوں نے بھی مہاجرین کی طرح اختلاف کیا کوئی کہنے لگا چلو کوئی کہنے لگا کہ لوٹ جائو۔ امیر المومنین نے فرمایا کہ اب آپ لوگ بھی تشریف لے جائیں ۔پھر فرمایا کہ یہاںقریش کے جو بڑے بوڑھے ہیں جو فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کر کے مدینہ آئے تھے انہیں بلا لائو۔ میں انہیں بلا کر لایا ان لوگوں میں کوئی اختلاف رائے پیدا نہیں ہوا۔ سب نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ چلیں اور وبائی ملک میں لوگوں کو نہ لے کر جائیں۔ یہ سنتے ہی عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کرادیا کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہو کر واپس مدینہ لوٹ جائوں گا۔ تم لوگ بھی واپس چلو۔ صبح کو ایسا ہی ہوا۔ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کاش! یہ بات کسی اور نے کہی ہوتی ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کر رہے ہیں لیکن اللہ ہی کی تقدیر کی طرف۔ کیا تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم لیکر کسی ایسے وادی میں جائوجس کے دو کنارے ہوں ایک سر سبز شاداب اور دوسرا خشک۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اگر تم سرسبز کنارے پر چرائوگے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہوگا۔اور خشک کنارے پر چرائوگے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر ہی سے ہوگا۔ بیان کیا کہ پھر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ آگئے وہ اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس وقت موجود نہیں تھے انہوں نے بتایا کہ میرے پاس اس مسئلہ سے متعلق ایک علم ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب تم کسی سرزمین میں(وبا کے متعلق ) سنو تو وہاں نہ جائو اور جب ایسی جگہ وبا آجائے جہاں تم خود موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ راوی نے بیان کیا کہ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کی حمد کی اور پھر واپس ہوگئے۔(بخاری: ۵۷۲۹)
کرونا وائرس اور قرآن:
اللہ تعالی کا ایک انتہائی اہم قانون ہے کہ جس کے تحت دنیا میں لوگوں کے کرتوتوں کے سبب ان پر چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجے جاتے ہیں۔اس کا مقصد انہیں خبردار کرنا ہوتا ہے شاید کہ وہ اس طرح سے خواب غفلت سے جاگ کر توبہ کی روش اپنا لیں اور بڑے عذاب سے بچ جائیں۔پورے غور و خوض کے بعد اور اللہ تعالی کے مذکورہ انتہائی اہم قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچ گئے کہCorona Virus کا اشارہ ہمیں قرآن مجید میں سورۃسجدہ سورہ نمبر23 ،آیت نمبر12میں دیکھنے کو ملا جس میں اللہ تعالی ارشاد فرما رہے ہیں کہ:’’اُس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں ( کسی نہ کسی چھوٹے ) عذاب کا مزا انہیں چکھاتے رہیں گے شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے ) باز آجائیں‘‘۔اس آیت پر صاحبِ تفہیم القران نے جو نوٹ لکھا ہے وہ بڑا ہی بصیرت افروز بھی ہے اور اپنے مدعا کی وضاحت میں بڑا مو ثر بھی لکھتے ہیں:
’’عذاب اکبر‘‘سے مراد آخرت کا عذاب ہے جو کفر و نفاق کی پاداش میں دیا جائے گا۔اس کے مقابلے میں’’عذاب ادنیٰ‘‘کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد وہ تکلیفیں ہیں جو اسی دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں۔ مثلا ًافراد کی زندگی میں سخت بیماریاں، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت، المناک حادثے، نقصانات ،ناکامیاں وغیرہ۔اور اجتماعی زندگی میں طوفان ،زلزلے، سیلاب، وبائیں،قحط، فسادات ، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں ، لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ عذابِ اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں اور ا س طرز فکر و عمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ نے انسان کو خیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ پورے آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ اس سے بالاتر کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو۔ بلکہ اللہ تعالی نے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ وقتا فوقتا افراد پر بھی اور قوموں اور ملکوں پر بھی ایسی آفات بھیجتا رہتا ہے جو اسے اپنے بے بسی کا اور اپنے سے بالاتر ایک ہمہ گیر سلطنت کی فرمانروائی کا احساس دلاتی ہیں۔ یہ آفات ایک ایک شخص کو ،ایک ایک گروہ کو اور ایک ایک قوم کو یہ یاد دلاتی ہیںکہ اوپر تمہاری قسمتوں کو کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے۔سب کچھ تمہارے ہاتھ میں نہیں دے دیا گیا ہے۔ اصل طاقت اسی کارفرما اقتدار کے ہاتھ میں ہے اس کی طرف سے جب کوئی آفت تمہارے اوپر آئے تو نہ تمہاری کوئی تدبیر اسے دفع کرسکتی ہے ،اور نہ کسی جن یا روح یا دیوی اور دیوتا، یا نبی اور ولی سے مدد مانگ کر تم اس کو روک سکتے ہو۔اس لحاظ سے یہ آفت محض آفت نہیں ہیں بلکہ خدا کی تنبیہات ہیں جو انسان کو حقیقت سے آگاہ کرنے اور اس کی غلط فہمیاں رفع کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں ان سے سبق لے کر دنیا ہی میں آدمی اپنا عقیدہ اور عمل ٹھیک کر لے تو ااخرت میں خدا کا بڑا عذاب دیکھنے کی نوبت ہی کیوں آئے‘‘(تفہیم القراان، جلد۴، صفحہ۴۸۔۴۷)
نجات کا واحد راستہ توبہ
خدا را غور کریں کہ آج ہم بے حسی کے کس مقام تک پہنچ چکے ہیں۔ کتے کو بھی جہاں سے ایک وقت کی روٹی مل جائے تو وہ اس در کا وفادار بن کر رہتا ہے۔لیکن ہم نے کتنی وفا کی اپنے مالک سے جو ہمیں کھلا رہا ہے ، سلا رہا ہے ، ان گنت نعمتیں عطا کر رکھی ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سب سچے دل سے توبہ کریں اور آئندہ کے لیے گناہوں سے باز آجائیں۔ وہ تو ایسا رحیم و کریم رب ہے کہ فرما رہا ہے’’ اے میرے بندوں ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ، خدا کی رحمت سے نا امید نہ ہونا۔ خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ ( زمر: ۳۵) دیکھیں کہ کس محبت سے مالک اپنے نافرمان بندوں سے مخاطب ہے۔ اگر ہم اب بھی اپنے رب کو بھلا دیں تو ہم سے بڑا احسان فراموش اور کون ہوگا۔ اللہ تعالی فرما تے ہیں کہ ’’کیا اب بھی مومنوں کے لیے یہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل خدا کے لیے نرم ہو جائیں۔ ‘‘( الحدید: ۶۱)
آج ہم کرونا کے جس دلدل میں پھنس چکے ہیں اس سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ اور وہ ہے توبہ۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ’’ مومنو خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو۔امید ہے کہ وہ تمہارے گناہ تم سے دور کر دے گا اور تم کو باغہائے بہشت میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا۔‘‘( التحریم: ۶۶)۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرما تے ہوئے سنا ’’ خدا کی قسم میں ایک دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ خدا سے معافی مانگتا اور توبہ کرتا ہوں ‘‘ ( بخاری)۔ اب ہم ذرا اپنی حالت کو دیکھ کر اندازہ لگائیں کہ ہمیں توبہ و استغفار کی کتنی ضرورت ہے۔ جبکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جن سے بڑھ کر کوئی نیک اور تقوی والا نہیں ہوسکتا ، وہ ایسا فرما رہے ہیں۔
ابھی بھی وقت ہے ، آئیے ہم سب مل کر اللہ کے سامنے گڑ گڑائیں، اپنے اللہ کو راضی کر لیں۔ آج ہمیں چھوٹے بچوں سے سبق لینا چاہیے جنہیں کوئی بھی تکلیف پہنچے وہ صرف رونا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اسی سے ہمارا کام بنے گا۔ آج ہمارے پاس بھی اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کہ اپنے رب کے سامنے روئیں ، گڑ گڑائیں اور توبہ کریں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ توبہ کے بعد دوسرا کام یہ کرنا ہے جتنے غلط کام ماضی میں کئے ، ان کی تلافی کی کوشش کی جائے۔ یعنی جو فرائض واجبات، نمازیں ، روزے، زکواۃرہ گئے ان کو ادا کرنے کا اہتمام کریں اور اگر کسی کی کوئی مالی یا جانی حق تلفی کی تو اس کا ازالہ کریں یا کسی کو نا حق تکلیف پہنچائی ہو تو اس سے معافی مانگیں۔ اور توبہ کے بعد پھر ہر قسم کے گناہ سے پچیں۔ اور اگر کبھی نادانی سے غلطی ہوجائے تو پھر فورًا توبہ کر لیں۔ اپنی ظاہری و باطنی اصلاح کی ہر طرح سے کوشش کرتے رہیں۔ اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو توبہ کی توفیق اور اس پر استقامت عطا فرمائے۔آمین۔
رابطہ :کولگام، کشمیر