اگست2019سے جنوری2020تک تقریباً6 ماہ کے لاک ڈائون کے بعد جب وادی کشمیر نارملسی کی جانب گامزن ہی تھی کہ یہ 21مارچ2020سے پھر لاک ڈائون ہوگئی ہے ۔اعدادوشمار اس تلخ حقیقت کو ثا بت کرینگے کہ گزشتہ 10برسوں میں لاک ڈائون کشمیر وادی میں کم و بیش معمول ہی رہے ہیں۔یوں دنیا میں اگر کوئی کمیونٹی ہے جوکووڈ19کرفیوسے نفسیاتی اور سماجی طور سب سے زیادہ لیس ہے ،وہ کشمیری ہی ہیں! تاہم ایسا ہی کشمیر کی معیشت کے بارے میں نہیں کہاجاسکتا ہے۔
کورونا کرفیو بنیادی طور اُن پہلے کے لاک ڈائونوں سے مختلف ہے جو کشمیرنے دیکھے اور کشمیریوں نے برداشت کئے ہیں۔یہ کرفیو اس لئے مختلف نہیں ہے کہ ماضی کے لاک ڈائون احتجاج کی علامت تھے اور یہ حفاظت کیلئے ہے ۔یہ اپنی فطرت میں ہی مختلف ہے کیونکہ یہ صحت اور اقتصادی بحران کا تقاطع ہے ۔
1 تشخیصی جائزہ:
اقتصادی نکتہ نگاہ سے ایک موافق فرق نما یہ ہے کہ پہلے کے بند مقامی لاک ڈائون ہوتے تھے ۔وادی بند ہوتی تھی یا وادی کے کچھ حصے۔موجودہ لاک ڈائون ملک گیر بلکہ عالمی لاک ڈائون ہے ۔اس نمایاں فرق کے جموںوکشمیر کی معاشی ترقی اور یہاں کے لوگوں کے بسر اوقات پرپڑنے والے اثرات انتہائی بھاری ہیں۔انسانی زندگیوںکی بات ہی نہیں ہے کیونکہ جموںوکشمیر فی الوقت کورونا متاثرہ افراد کے لحاظ سے آبادی کی شرح کو دیکھتے ہوئے پہلے نمبر پر ہے۔
جموںوکشمیر کی معیشت درآمدات پر منحصر اور برآمدات پر مرکوز ہے جس میں انفارمل یا غیر منظم پیداواری بنیاد بہت بڑی ہے۔ایسے میں طویل مقامی ہڑتالوں کے دوران پیداواری سرگرمیاں بین ریاستی تجارت اور لین دین کے معاملات محدود ہونے کے باوجود جاری رہیں۔گھریلو صنعتوں،چھوٹے و درمیانہ درجہ کی صنعتوں،باغبانی یا دستکاری سیکٹروں کی صورت میں معیشت کا آئوٹ پُٹ یاماحصل پیدا ہوتا رہا۔ ریاست سے باہر باقی ملک اور باقی دنیا میں بھی خریداری کی صورت میں آمدن آتی رہی ۔اس کے علاوہ غیر مقیم کشمیریوں کی جانب سے ترسیلات ِ زر کی صورت میں بھی پیسے کا بہائو جاری رہا۔
جہاں مقامی پیداوار اور کھپت کم ہوئی وہیں بیرونی کھپت اور ترسیلات ِزر اسی حد تک کم نہ ہوئے بلکہ کچھ معاملات میں فی یونٹ بھائو خاصے بہتر رہے۔ درآمدات کی کم کھپت اور برآمدات کی صورت میں مقامی اشیاء کی زیادہ بیرونی کھپت نے خوش قسمتی سے معیشت پر ویسے ہی مثبت اثرات مرتب کئے جو ایک کلاسیکل درآمدات متبادل حکمت عملی میں ہوتے ہیں۔یہ سلسلہ گھٹتی ہوئی منافعت کو محدود رکھنے پر منتج ہوا اور یوں معیشت توازن کی کم ترین سطح پر چلتی رہی۔
آج صورتحال یکسر مختلف ہے ۔بیرونی مارکیٹ (ملکی یا عالمی) لاک ڈائون میں ہیں۔اگر کشمیر میں اشیاء اور سروسز پیدا ہوتی بھی رہیںتاہم بازار سے ان کے صحیح دام وصول نہیں کئے جاسکتے ۔ایسا نہیں کہ پیداوار متاثر نہ ہوگی ،یہ ضرور متاثر ہوگی۔مثال کے طور پریہ باغبانی سیکٹر میں کافی سرگرمیوںکا سیزن ہے ،جراثیم کش ادویات کا چھڑکائو،شاخ تراشی اور دیگر کام کرنے ہیں۔ یہ کام صحیح طریقے سے نہیںہوسکتے ہیں اور ان کا پیداوار کے پیمانہ پر اثر پڑے گا۔ترسیلات زر کا بہائو بھی گرے گا۔ ان سب سے معیشت کا کم ترین توازن بھی ڈگمگائے گااور یہ کشمیر کی اقتصادیات میں ابتدائی بحران کو ایک ڈھانچہ جاتی بحران میں تبدیل کردے گا۔
ان مسائل میں سے کسی کو بھی حکومت ہند کی جانب سے پسماندہ طبقوں کیلئے اعلان شدہ عمومی کورونا انسانی ریلیف پیکیج کے تحت حل کیاجارہا ہے اور نہ حل کئے جاسکیں گے۔یہاں تک کہ قرضوں کی وصولی میں راحت اور انضباطی و عوام دوست ضوابط کی صورت میں ریزرو بنک آف انڈیا کی جانب سے اعلان شدہ اضافی یا ضمیمہ جاتی اعلانات بھی منظم تجارتی شعبہ کیلئے ہیں۔ملکی معیشت کو لگنے والے بھاری جھٹکے سے نمٹنے کیلئے یہ اقدامات صرف سطحی ہی نہیں بلکہ اس قدر عمومی ہیں کہ ان سے جموںوکشمیر جیسی تباہ شدہ معیشت پر کوئی معنی خیز اور سود مند اثر ات پڑنے والے نہیں ہیں ۔ایسے میں جموں وکشمیر میں مخصوص معاملات کواضافی اقدامات کے ذریعے ایڈرس کرنے کی ضرورت ہے جن میں سے کچھ قومی پیکیج کے اضافی جز ہیں۔
جموںوکشمیر پر مرکوز پالیسی ردعمل مرتب کرنے کیلئے اس بات کا ادراک رکھنا ضروری ہے کہ 5 اگست2019کا شش ماہی بند موجودہ کورونا لاک ڈائون کو مزیدسنگین بنارہا ہے۔موجودہ صورتحال سے مطابقت رکھنے والی ایک مثال ایسے دی جاسکتی ہے کہ کوئی نمونیا کے سخت ترین حملہ کے بعد اب کورونا وائرس سے متاثر ہوا ہو۔لازمی طور پر اب مریض زیادہ کمزور اور بے اختیار ہوگا۔یہی کشمیری معیشت کا حال ہے۔
یہ سمجھنا لازمی ہے کہ جموںوکشمیر کی معاشی تنگدستی یا بدحالی کارپوریٹ بیلنس شیٹ مسئلہ نہیں ہے جس کوسہ ماہی راحت دیکر حل کیاجاسکتا ہے۔یہ چکروں پرمبنی کساد بازی بھی نہیں ہے ۔یہ ساختی تجارتی بحران ہے ۔ تمام تجارتی سرگرمیاں، چاہئے وہ صنعتی ،دستکاری ،تجارتی یا زرعی ہوں،معیشت کے کم ترین توازن کے جال میں پھنس چکی ہیں۔
اگست میں 6ماہ کے بند کے بعد تجارتی رابطے بری طرح خلل پذیر ہوچکے ہیں جبکہ بزنس نیٹ ورک بھی بے نظمی اور خلفشار کا شکار ہے۔تجارتی اعتماد ڈگمگا چکا ہے ۔اس سے منظم اورباقاعدہ تجارتی سائیکل سکڑ چکا ہے ۔اس کے نتیجہ میں تجارت خاص کر تھوک والے اپنا کاروبار جاری رکھنے کیلئے تمام چلتایا گشتی و متحرک سرمایہ جھونک دینے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ماحصل یہ ہے کہ تاجروں کے ایسے اثاثے رہ گئے ہیں جن سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے کیونکہ طلب میں خلل ہے اور انکو مزید فائدہ کیلئے استعمال نہیںکرسکتے ہیں کیونکہ قرضوںکی حد ختم ہوچکی ہے۔انکے پاس ایسے اثاثے ہیں جنہیں نہ تو ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان سے مالی فائدہ حاصل کیاجاسکتا ہے۔انکے پاس سامان ہے جسے ٹرانسپورٹ نہیں کیاجاسکتا ہے۔ان کے پاس اشیاء ہیں جنہیں سٹور یا ذخیرہ نہیں کیاجاسکتا ہے۔اس سب میں بہت سارا پیسہ پھنسا ہواہے۔اس سرمایہ کو آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔بہ الفاظ دیگرمسئلہ مختلف ہے اور اس کو اُس طریقہ سے ہٹ کر حل کرنا ہے جو فی الوقت ملکی سطح پر عملایا جارہا ہے۔مزیدبرآں جیسا کہ ہوتا ہے ،جموںوکشمیر کی معیشت پیداواری سیکٹر سے زیادہ سروسز سیکٹر سے چلتی ہے ۔مثال ٹریڈ،سیاحت اورتواضع سیکٹر کی د ی جاسکتی ہے۔یہ سیکٹر نہ صرف اس وقت کورونا وباء سے سب سے زیاد ہ متاثر ہیں بلکہ ان کاروباری سیکٹروں کی بحالی کی رفتار بھی مدہم ہی ہوگی۔لہٰذا یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ باقی ملک کے برعکس جموں وکشمیر میں اس وباء سے ابھرنے کا عمل نہ صرف سست رفتار بلکہ انتہائی کٹھن اور محنت طلب ہوگا۔ابھی تک جموںوکشمیر میں ترقی کی حرکیات کی سب سے دلچسپ خصوصیت یہ ہے کہ تقسیم ِ آمدن کا اعلیٰ خداد داد میکانزم موجود ہے۔اگر اس میں ترقی کی صحیح ترکیب داخل کی جائے(نہ کہ چھوٹی صنعتوں ،دستکاریوں ،کمرشل زراعت ،تجارت اور سیاحت کے ذریعے صنعتی ترقی، جو اکثر مطلب لیاجاتا ہے)،یہ معیشت اور سماج کی مضبوط اور پائیدار بحالی ثابت ہوسکتی ہے۔
2 نکتہ نظر کا تجزیہ
اس قدر سنگین بحران ،جو شٹ ڈائون کے بعد لاک ڈائون کی دو دھاری تلوار کا شکار ہو اہے ،سے نکلنے والے ایک تین تہہ والے پیکیج کی ضرورت ہے جو انسانی امداد و ریلیف ،باز آبادی اوربحالی کو متحرک کرنے والے اقدامات کا مرکب ہونا چاہئے۔
جموںوکشمیر کی یونین ٹریٹری انتظامیہ فوری طور حرکت میں آئی اور سماج کے کچھ طبقوں کو راحت دینے کیلئے کچھ عملی اقدامات بھی کئے ۔پنشن رقوم اور تنخواہوںکی چند اقسام کی پیشگی ادائیگی مستحسن ہے ۔جموںوکشمیر بلڈنگ و دیگر تعمیراتی ورکرس ویلفیئر بورڈ کے کارپس فنڈ کااستعمال ان انتہائی پسماندہ ترین لوگوں کو راحت دینے کا بہترین آئیڈیا تھا۔مذکورہ بورڈ کے کارپس فنڈ سے تمام تعمیراتی ورکروں کو ادائیگی کرنے سے خزانہ عامرہ پر بوجھ بھی نہیںپڑے گا اور اہداف تکمیل کے قریب ترین ہونگے۔ایسے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
جموںوکشمیر میں اس وباء کے منفی معاشی نتائج سے نمٹنے کیلئے ایک بہت ہی منظم اور کثیرجہتی پالیسی مداخلت کی ضرورت ہے جس کی بنیاد عوامی صرفہ پالیسی کی تنظیم نو پر ہونی چاہئے تاکہ ریلیف ،سیفٹی ،امداد اور تعاون کو یقینی بنایا جاسکے ۔اس کے علاوہ نجی صنعتوں کے استحکام کیلئے بھی پالیسی کی ضرورت ہے جو محرک پیکیج کی صورت میں ہونی چاہئے جس سے معاشی سرگرمیوں کی بحالی ،باز آبادکاری اور حرکیات یقینی بن سکے۔
A عوامی مصرف کی تنظیم نو
جموںوکشمیر کیلئے حالیہ اعلان شدہ بجٹ میں عوام پر خرچ کی جانے والی جن ترجیحات کا ذکر کیاگیا تھا،انہیں بعد کے پیش آمدہ واقعات نے اپنی گرفت میںلیا ہے ۔موجودہ ایک لاکھ کروڑ روپے خرچہ کی حد میں کئی تخصیصی تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں جن سے مصرف کو موجودہ ضرورتو ں سے ہم آہنگ کیاجاسکتا ہے۔
موٹے طور پر یا مجموعی طور تین زمروں میں سرنو تخصیص کی جاسکتی ہے ۔
پہلا… ماضی اور زیر التواء تمام حکومتی واجبات ادا کئے جائیں۔پرانے واجبات کو ختم کرنے کیلئے پیسے کے استعمال سے بہت سارا پیسہ فوری طور نجی سیکٹر میں جاسکتا ہے ۔اس سے انہیں نیاکام شروع کرنے کا موقعہ ملے گا کیونکہ سرمایہ کی پوزیشن بہتر ہوگی اور اس کے نتیجہ میں ان کے بینکنگ معاملات بھی آسان ہونگے۔کئی چھوٹے حکومتی سپلائر اورٹھیکہ دارمعیاری کھاتہ دار بن جائیں گے اور بنک انہیں دوبارہ قابل قرضہ پائیں گے۔اس کے علاوہ اس سے نظام میں تازہ طلب بھی پیدا ہوگی۔جموںوکشمیر کنٹریکٹرس کارڈی نیشن کمیٹی اب کافی عرصہ سے چیخ رہی ہے کہ ان کی واجبات اد اکی جائیں ۔صرف ٹھیکہ داروں کی واجبات 1000کروڑ روپے سے زیادہ تھیں۔
حکومت کے زیر نگراں ایسے بے شمار کارپوریشن ہیں جنہوںنے کئی ماہ سے ملازمین کو تنخواہیں نہیں دی ہیں اور برسوں سے مال خریدنے والی کی ادائیگیاں نہیں کی ہیں۔مثال کے طور پر جموںوکشمیر سیمنٹس نے ظاہری طور دس ماہ سے اپنے ملازمین کو تنخواہیں نہیں دی ہیں۔یہ بھی واجبات کی ایک قسم ہے جس کا بوجھ حکومت پر ہے ۔یہ واجبات بھی کلّی طور اد اکی جانی چاہئیں۔
کچھ بھی کہیں، واجبات بشمول ادارہ جاتی جس میں صرف ٹریجریاں ہی شامل نہیں ہیں بلکہ محکمہ جاتی سطح پر بھی 7500کرو ڑ روپے کے آس پاس ہونگیں۔تمام سابقہ واجبات کی ادائیگی کا مجموعی اقتصادی اثر بہت ہی بڑا ہوگاکیونکہ یہ عام فہم الفاظ میں پیسہ نظام میں دوبارہ ڈال دینا ہے ۔ایسی کسی پالیسی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ قلیل مدتی طو ر تقسیم کرنے کی پالیسیاں پیداوار پر مرکوز پالیسیوں سے زیادہ اثر پذیر ہونگیں۔مرحلہ وار بنیادوںپر دونوں کا مرکب بہتر ہوگا لیکن فی الوقت پہلی پالیسی (یعنی تقسیم کرنیکی پالیسی)سے شروع کریں اور تین ماہ کی مدت میں دوسری پالیسی بھی لائیں۔انتظامی سطح پرقرضوں یا واجبات کی ادائیگی کوطویل محکمہ جاتی پیچیدگیوں کا سامنا کرنے کیلئے نہیں چھوڑ دینا چاہئے۔محکمہ خزانہ کے تحت ایک ٹاسک فورس قائم کیاجاناچاہئے جو اگلے 30دنوںمیں سابق ریاست کی تمام زیر التواء واجبات کو کلیئر کرے ۔
دوم …منریگا کیلئے مختص رکھے گئے موجودہ تقریباً1500کروڑ کے فنڈس کواُن لوگوںکیلئے بنیادی آمدن کیش ٹرانسفر میں تبدیل کریں جنہوںنے گزشتہ سال کام کے عروج کے ایام میں منریگا سہولیات سے استفادہ کیا ہو۔بلکہ جیسا کہ ہم نے 2018-19کے بجٹ میں تجویز پیش کی تھی ،سماجی تحفظ کی مختلف اقسام کی ادائیگیوں کو آپس میں ملا کر 4000کروڑ روپے کا ایک کارپس قائم کریں جو سطح افلاس سے نیچے گزر بسر کرنے والے کنبوںکیلئے آفاقی بنیادی آمدن کے طور ان کے بنک کھاتوں میں منتقل کرنے کیلئے استعمال کیاجاسکتا ہے۔
سوئم…تین سیکٹروں کیلئے مختص رقوم میں خاطر خواہ اضافہ کریں جن میں صحت ،سماجی بہبود اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہیں اور اس کیلئے تعمیرات عامہ اور مکانات و شہری ترقی محکموں کے اثاثوںکی تعمیر کیلئے مختص رکھے گئے کچھ رقوم استعمال کئے جاسکتے ہیں۔محکمہ صحت کے اثاثوں پر خرچ ہونے والی کل رقم 1268کروڑ روپے جو تعمیرات عامہ محکمہ کیلئے مختص رکھے گئے بجٹ سے آدھی سے بھی کم ہے ۔اگر سڑکوں پر میکڈم نہیں بچھایا جاتا ہے یا مزید ایک سال کیلئے کچھ علاقوں تک سڑکیںنہیں پہنچتی ہیں تو اس سے لوگوںکو کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوگا۔فی الوقت صحت کا بجٹ دوگنا کیاجانا چاہئے جو سماج کوبربادی سے بچاسکتا ہے۔
آن لائن تعلیم سہولیت کو مضبوط کرنے کیلئے خصوصی فنڈس رکھے جانے چاہئیں۔یہ کافی دیرینہ مطالبہ ہے۔محکمہ تعلیم کیلئے 1000کروڑ روپے کا اثاثہ جاتی بجٹ محکمہ داخلہ سے کافی کم ہے۔انتہائی نازک ترین صورتحال اور آئے روز کے ہڑتالوںکو دیکھتے ہوئے اگر کوئی سماج ہے جس کو آن لائن ایجوکیشن کوبڑے پیمانے پر فروغ دیناضروری ہے تو وہ کشمیر وادی ہے۔اس سے مرکزی حکومت کو بھی4جی انٹرنیٹ سہولیات بحالی کی اجازت دینے پر مجبور کیاجاسکتا ہے۔
بجٹ میں تخمینہ لگایاگیا ہے کہ اکتوبر2019سے31مارچ 2020تک اثاثے قائم کرنے پر 14885کروڑ روپے صرف کرنے ہیں ۔ 1000 کروڑ کے قرضوںکی ادائیگی کو ایک طرف چھوڑ کریہ تقریباً ناممکن ہے کہ باقی بچے14000کروڑ روپے خرچ ہوئے ہونگے۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اگست 2019 سے ریاست خاص کر وادی میں مکمل بند تھا۔کوئی تعمیراتی سرگرمی نہیں چل رہی تھی ۔اگر اس پیسہ کو اگلے مالی سال کیلئے بھی سرنو مختص کیاجائے تو موجودہ وباء دوسری سہ ماہی کے اختتام تک شاید ہی کسی تعمیری سرگرمی کو شروع کرنے کی اجازت دے جس کے بعد سرما ایک قدرتی رکاوٹ بن کر سامنے آئے گا۔لہٰذا پیسہ تلاش کرنے کے تعلق سے یہ کوئی چیلنج نہیں ہے ۔حقیقی چیلنج یہ ہوگا کہ فنڈنگ کے تناظر سے رقوم کی تخصیص سکیموںپر مرکوز ہو جیسے کہ یہ کوئی جمع کیاگیا پیسہ نہ ہو۔یہ کسی مخصوص سکیم کیلئے مختص ہوناچاہئے لیکن موجودہ حالت میں یہ زمرہ جاتی معاملہ مرکزی وزارت خزانہ کے ساتھ اٹھاکر حل کیاجاسکتا ہے۔اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ کھاتہ اثاثہ جات سے رقوم کھاتہ آمدن میں منتقل ہونگیںلیکن موجودہ بحران جیسی سنگین بحرانی صورتحال میں یہ مالی انصرام میں نہ کوئی نقص ہے اور نہ اسے اس زاویہ سے دیکھا جاناچاہئے۔
تمام فعال زمرہ جات میں بجٹ رقوم معاشی سرگرمیوں کو مجموعی معاشی پس منظر میں چلاتے ہیں ۔اسی لئے سائیکلی اور ضد سائیکلی مالی پالیسیاں ہوتی ہیں۔چونکہ جموں وکشمیر کی معیشت میں جذب کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے ،اثاثوں کے قیام پر صرفہ کارآمد ثابت ہونے میں کافی وقت لے گااور اسی طرح اس کو معاشی نظام میں اثر دکھانے میں بھی وقت لگے گا۔ہوسکتا ہے کہ اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہو۔
چہارم…یوٹی انتظامیہ کو پیشگی ادائیگیوں کی حد بڑھانے کیلئے ریزرو بنک آف انڈیا سے رجوع کرنا چاہئے۔انتظامیہ کو معیشت اور تجارت کی بحالی میں مدد طلب کرنے سے قبل قرضوںکی اپنی لائنوں پرمحفوظ کرلینا چاہئے۔
B نجی سیکٹر کے استحکام کی پالیسی
پہلا… تجارتی قرضوں کوالتوا میں ڈالنے(جو آر بی آئی پیکیج کررہا ہے )کی بجائے یوٹی انتظامیہ کونجی سیکٹر کے موجودہ اور بار بار کے قرضوںکو ختم کرنا چاہئے۔پورے جموںوکشمیر میں تاجرین کے قرضوں کو مرحلہ وار بنیادوںپر واجب ادائیگیوں کی بنیادپرقرضوں اور سود کی ادائیگی کے میکانزم پر عمل کرکے ایڈرس کرنے ضرورت ہے۔
اس عمل میں سب سے اہم ٹیکسوںکی ادائیگیاں ہیں جس میں دونوں براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس شامل ہیں۔اگست2019سے مارچ2020تک قدرتی انصاف کی بنیادوں پربالواسطہ ٹیکسز معاف ہونے چاہئے تھے ۔ا س سے حکومت ہند پر 6894کروڑ روپے کا بوجھ پڑے گا۔مالی سال2020-21کیلئے متوقع راحت کاری پیکیج کے تحت بالواسطہ ٹیکسز کے حوالے سے جو بھی فیصلہ لیاجاتا ہے ،اس کا خود بخود اطلاق جموںوکشمیر پر بھی ہوگا۔تاہم یہ زیادہ مناسب رہے گاکہ اگر جموںوکشمیر کوسال2020-21کیلئے ٹیکسوں کی ادائیگی پر چھوٹ دی جائے اور ا س کی ادائیگی کیلئے تین سال کا ٹائم فریم مقرر کیاجائے۔
گزشتہ پانچ برسوںکے دوران جموںوکشمیر نے براہ راست ٹیکسوںکی مد میں8084کروڑ دئے ہیںاور بدلے میں بے شک اس نے ان ٹیکسوں میں ریاستی حصہ داری کے تحت اس سے زیادہ لیا۔انکم ٹیکس کوچھوئے بغیر یوٹی انتظامیہ کو جموں وکشمیر میں کارپوریٹ ٹیکس کیلئے ایک سال کی چھوٹ کا تقاضا کرنا چاہئے کیونکہ یہیں پر صنعتی پالیسی پیکیج کے حصے کے طور ٹیکس معاف کیاجاسکتا ہے۔یہ رقم ا س سال کیلئے سو دو سو کروڑ روپے سے کم ہی ہوگی۔
جموںوکشمیر میں قومی سطح کی نسبت انکم ٹیکس پر چھوٹ کے معقول دلائل نہیں ہیںکیونکہ یہاں یہ ٹیکس زیادہ تر تنخواہوں پر منحصر ہے اور اس میں بھی اکثر یت سرکاری ملازمین کی ہے جن کی آمدن میں کسی قسم کی خلل یا کمی واقع نہیں ہوئی ہے ۔ٹیکسوں کی ادائیگی کے مد میں اگر راحت دی جاتی ہے تو یہ مجموعی طو ر7500کروڑ سے زیادہ نہ ہوگی۔
اس کے بعد اس فہرست میں ریگولیٹری یا انضباطی ادائیگیاں ہیں جن میں بنک قرضوںپر سود اور حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی خدمات پر فیس یا یوزر چارجز شامل ہیں۔جموںوکشمیر بنک کیلئے آر بی آئی پیکیج بے سود ہی ہے ۔یہ بزنسوں میں پیسے کے بہائوکے نظام میں مدد کیلئے بنائی گئی ہے اور اس میں خاص توجہ کارپوریٹ بزنس پر دی گئی ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ جموںوکشمیر میں مائیکرو اور منی انٹرپرائزز ہیں ،نہ کہ کارپوریٹ ادارے۔مزید برآں کشمیر میںگزشتہ 8ماہ سے زائد عرصہ سے پیسے کا کوئی بہائو نہیںرہا ہے۔بنکوں میں تاجروں کے کیش کریڈٹ حدود اس کا ثبوت بھی دینگے۔انہیں اگر مزید اوو ڈرافٹ نہیں دینا ہے تو کم از کم ان بندشوں کو ختم کیاجاناچاہئے۔
آر بی آئی پیکیج میںایام چھوٹ کے دوران نہ صرف سود لگتا رہے گابلکہ ا س سے واپس ادائیگیوں کی تکمیل کی مدت میں مزید تین ماہ کا اضافہ ہوجائے گا۔ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ جموںوکشمیر جیسے غیر یقینی تجارتی ماحول میں کسی قرضہ پر قرضہ خدمت کو موخر کرنے سے مزید پیچیدگی پیدا ہوگی۔تجارت میں بڑھوتری کے بغیر ادائیگیوں کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔مزید یہ بھی کہ آر بی آئی پیکیج صوابدیدی ہے نہ کہ لازمی۔بنک کیسوں کی بنیاد پر چھوٹ کی اجازت دینگے اور اس میں بنک یہ دیکھیں گے کہ کس طرح کورونا وباء کے دوران ان مخصوص بنک کھاتوں میںرقوم کا بہائو متاثر ہوا ہے۔
کشمیر میں تاجروں سے سود کی وصولی میں جس اصول پر عمل کیاجاناچاہئے ،وہ یہ ہے کہ اس کو مؤخر نہ کریں بلکہ اس کی ادائیگی میں مدد کریں۔حقیقت یہ ہے کہ اگست 2019کے 6ماہی ہڑتال کی مدت کیلئے کشمیر میں تاجروں کی جانب سے لئے جانے والے قرضہ کیلئے اثاثوں کی موجودہ مارکیٹ قدر اور قرضہ کے وقت کئے جانے والے اثاثوں کے تخمینہ میں فرق کیاجاناچاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ اس دوران قرضوں کے باوجود اثاثے کی قدر میں کتنی کمی واقع ہوئی۔ہڑتال اور بندشوں کی وجوہات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ اس کا بوجھ مرکزی حکومت کو برداشت کرنا چاہئے تاہم آر بی آئی او ر کمرشل بنکوں کو مدد کیلئے طلب کیاجاسکتا ہے۔
ایسا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ شرح سود کو تین حصوں میں بانٹ دیں۔ان میںبنک کا شرح سود،انضباطی و پروڈنشل لاگت اوراشیاء کی قیمت فروخت میںفرق شامل ہیں۔حکومت کو شرح سود کا حصہ برداشت کرنا چاہئے ۔آر بی آئی کو بنکوں کو سروس چارجز معاف کرنے کی اجازت دینی چاہئے اور بنکوںکو اپنے قیمت فروخت کی فرق یا مارک اپ کو معاف کرنا چاہئے۔
اس سے نہ صرف قرضہ معافی کا اخلاقی عنصر ختم ہوجائے گابلکہ اس سے اس بات کو بھی یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ تنگدستی تاجروں سے بنکوںکو منتقل نہ ہو۔کیونکہ جموںوکشمیر بنک وادی میں قرضے فراہم کرنے والا سب سے بڑ اور بنیادی ادار ہ ہے اوریہ ادارہ اثاثوں کی کوالٹی کو لیکر انتہائی دبائو کا شکار ہے۔
قرضوں کے پیچیدہ مسئلہ کو ایڈرس کرنے کے بعد یو ٹی انتظامیہ کومعاشی سرگرمیوں کو بڑھاوا دینے کے اقدامات کرنا ہونگے۔ایسے راحتی پیکیج میں مخصوص بنکنگ معاونت پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔اس مرحلہ پر متحرک بنکنگ کا یہ رول ہونا چاہئے کہ وہ سرمایہ کی لائنوںکو کھول دے جو پوری طرح سے جام ہوچکی ہیں۔عملی طور مالی تنگدستی کو دھیان میں رکھتے ہوئے 25لاکھ یا اس سے کم کے تمام تجارتی قرضوں پرسود معطل کیا جانا چاہئے لیکن اس کیلئے آر بی آئی کی منظوری درکار ہے جو شاید ملنے سے رہ جائے گی کیونکہ اس کے باقی ملک پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
تاہم دو رخی حکمت عملی پر عمل کیاجاسکتا ہے جس کیلئے آر بی آئی کے اجازت کی ضرورت نہیں ہے اور بنکوں میں بورڈ کی سطح پر ہی ایسے فیصلے لئے جاسکتے ہیں۔پہلا یہ کہ تمام معیاری بنک کھاتوں میں حد بڑھادی جائے ۔یہ پیسہ نکالنے کے اختیار میں 25فیصد اضافہ اور زر ضمانت 25فیصد ختم کرنے سے کیاجاسکتا ہے ۔دوسرا ،یوٹی انتظامیہ کورونا کریک ڈائون تک ورکنگ سرمایہ اور ورکنگ سرمایہ قرضوں پر3فیصد سود خود اد اکرے ۔
تجارت پر مبنی معیشت کیلئے مندی کے دورا ن حصص گرنے کو اگر کوئی چیز بچاسکتی ہے تووہ انونٹری بلڈ اپ یا تجارت میں اضافہ ہوتا ہے چاہئے وہ دکان ہوں یا سٹور۔اقتصادی سرگرمیوں کو نئی جہت دینے کیلئے حکومت کو مالیاتی اداروں میں انونٹری فنانسنگ یعنی اُن اشیاء کی خریداری کیلئے قرضہ کی سہولت جنہیں فوری طور بیچنانہیں ہوگا،کو متعارف کرنا چاہئے ۔جموںوکشمیر بنک کے علاوہ اچھا رہے گا اگر اس کا م کو مالی مسائل سے دوچار سٹیٹ فنانس کارپوریشن،غیر متحرک ڈیولپمنٹ فنانس کارپوریشن اور علاقائی دیہاتی بنکوں سے کرایا جائے ۔ویئر ہائوسوں جنہیں عرف عام میں ہم بڑے بڑے تھوک بیوپاری کہتے ہیں،کو قرضہ دینے سے باغبانی اور دستکاری سیکٹر کوبہت فروغ ملے گا۔
یوٹی انتظامیہ کو ایس ایل بی سی میٹنگ کا انعقاد کرنا چاہئے اور جموںوکشمیر بنک کی سربراہی میں بنکوں سے کہا جاناچاہئے کہ وہ بزنس کی واجب الادا رقوم کیلئے پیشگی ادائیگیوں اور سیلز بڑھانے کی خاطر معاونت کیلئے منصوبہ تیار کریں۔انہیں جارحانہ طور کرایہ ،پیشگی ادائیگیوں اور بلوںکے چھوٹ جیسے معاملات سے نمٹنا چاہئے۔کوئی بھی تجارتی ہائوس ،جس کے پاس کسی باعتبار اور لائق بھروسہ شراکت دارسے تصدیق شدہ پیشگی ادائیگیاں ملی ہوں،انہیںرعایت دی جانی چاہئے۔اس سے چھوٹے اور درمیانہ درجہ کے تجارتی یونٹوں کا مالی دبائو کم ہوگا۔
اس کے ساتھ ساتھ ایس ایل بی بی یا ریاستی سطح کی بنکرس کمیٹی کوعہد بند رہنا چاہئے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ چھوٹے تاجر بھی اپنے گاہکوں سے واجب الادا رقوم لے سکیں۔اس مقصد کیلئے تمام بنکوںسے کہا جانا چاہئے کہ وہ رقوم کی ادائیگی کیلئے الیکٹرانک رعایتی نظام اپنائیں جو ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں چھوٹے تاجراپنے انوائس لسٹ کرتے ہیں اور شریک بنک تمام بلوں کا کولیکشن اپنے سر لیتے ہیں اور چھوٹے تاجر کو ادا کرتے ہیں۔
چھوٹے تاجروں کو ملازمین کی تعداد،آپریشنل اور دیگر ضروری ادائیگیاں برقرار رکھنے ،جو تنخواہوں اور دیگر مرعی اخراجات کی صورت میں ہوتی ہیں،انہیں فنانس کیاجانا چاہئے نہ کہ فنڈنگ۔یہ اُوور ڈرافٹ سہولت قائم کرنے سے کیاجاسکتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اس تاجر کے تنخواہوں کی بل کو فنانس کیاجاسکے تاہم اس عمل کے ماحصل کی نگرانی لازمی ہے ۔ملازمین برقرار رکھنے پر مراعات دیں اور اسکے لئے گزشتہ ایک برس کی اوسط تنخواہ بل کو اُوور ڈرافٹ سے مربوط کریں۔یہی اصول بجلی اور خال مواد پر بھی قابل اطلاق بنایا جانا چاہئے۔
حاصل کلام کے بجائے ایک فکر!
گوکہ یہاں پیش کئے منصوبوں کیلئے مالیاتی ذرائع کی نشاندہی بھی کی گئی ہے ،اس کے باوجود جو برحق سوال پوچھا جائے گا،وہ یہ ہے کہ پیسہ کہاں سے آئے گا؟۔زندہ رہنے کیلئے رقوم صرف کرنے سے قبل اس کیلئے وسائل تلاش کرنا لازمی ہیں۔جموں وکشمیر یوٹی کیلئے 2020-21کے بجٹ میں ’’الائونس کے مطالبات ِ زر‘‘کی مد میں4500کروڑ روپے مختص رکھے گئے ہیں۔غالباًیہ سابق ریاست اوراب یوٹی ملازمین کے الائونس یا بھتہ کیلئے مختص رکھے گئے ہیںتاکہ انہیں مرکزی ملازمین کے ہم پلہ بنایا جاسکے ۔اس عمل کا یقینی طور پر انتظار کیاجاسکتا ہے۔
ا ن الائونسز کو کم سے کم ہم تین سال کیلئے روک سکتے ہیں اور یہ رقم تعمیر نو کیلئے استعما ل کی جاسکتی ہے ۔جب معیشت بحال ہوگی ،ٹیکسوں کی صورتحال اطمینان بخش ہوگی تو ملازمین اپنے الائونسز کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔تاہم جموں وکشمیر کی بحالی و تعمیر نو کیلئے ملازمین کی جانب سے چھوڑے جانے والے یہ الائونسز کئی وجوہات کی بناء پر روشن خیالی پر مبنی ذاتی مفاد میں لیاگیا فیصلہ ہوگااور اس کیلئے بیانیہ ہمیشہ کیلئے تبدیل ہوجائے گا۔ گھروں میں رہنے کے ساتھ ساتھ بحیثیت سماج اُس سطح تک پہنچنے کیلئے، جہاں ہم اپنی ذمہ داریاں خود لیں اور اجتماعی طور اپنے مسائل حل کریں،یہ انتہائی اہم اور پہلا قدم ہوگا ۔ اس پیش قدمی کی نشان پردازی ایسا منافع دے گی جو تجارت کی وسعتوں سے کہیں آگے نکل کر سماج اور سماجی برتائو کی وسعتوں تک پہنچ جائے گی۔اس بحران ،بے چینی اور مصیبت کی سنگینی سے کچھ اچھا نکل کر آسکتا ہے۔یہ ہمیںاپنی سیول سوسائٹی کے مثبت کردار کا ادراک کرنے پر آمادہ کرے گااور ساتھ ہی ہمیں اپنے آپ پر اعتماد کرنا بھی سکھائے گا۔نتیجہ کے طور پریہ مصیبت کی گھڑی میں صبر واستقامت کے ساتھ قوم کی تعمیر کی نئی سیاست ِ انتقادی کو جنم دے گا۔