کورونا کا قہر تازیانہ عبرت ! | خوردبینی جرثوم سے انسانی غرور پاش پاش

کرونا وائرس نے پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ دو لاکھ کے قریب لوگ اس مہلک وبا کا شکار ہو کر وفات پا چکے ہیں۔ لاکھوں اس مرض سے جوجھ رہے ہیں اور نہ جانے آنے والے دنوں میں یہ وبا کیا کیا کہرام برپا کرے گی۔ دُنیا بھر کے سائنسدان اس وبا کا کوئی خاطر خواہ علاج ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن ابھی تک کہیں سے کوئی اچھی خبر نہیں آرہی ہے۔ ہمارے ہاں بھی اس وبا نے چہار سو اپنے مہلک پر پھیلا دئے ہیں۔ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے رہنا اور ایک دوسرے سے دوری قائم رکھنے کے سوا سائنسدان ابھی تک اس وبا کے پھیلائوکو روکنے کی کوئی اور ترکیب بتا نہیں پا رہے ہیں۔ اس لئے عقل و دانش کا تقا ضہ یہی ہے کہ سماجی دوری قائم رکھی جائے اور ہر کوئی اپنے آپ کو اپنے ہی گھروں تک محدود کر رکھے۔
جہاں ایک طرف کرونا وائرس نے انسانوں کو بے بس کرکے اپنے ہی گھروں میں قید کر رکھا ہے وہیں اس نے جدید دُنیا کے انسان کا گھمنڈپاش پاش کر دیا ہے۔ دُنیا کی بڑی بڑی طاقتیں (Super Powers) جدید اسلحہ اور جوہری ہتھیاروں کے بل پر اترا رہے تھے۔ امریکہ کا جب بھی من کرتا، اپنی فوجی طاقت کے بل پر کسی بھی ملک میں گھس جاتا۔ ہندوستان اور پاکستان میں بھی برسہا برس سے ہتھیاروں کی دوڑ جاری ہے۔ انسان خلاء میں پہنچ گیا، چاند سر کیا، مریخ پر جانے کی باتیں کرنے لگا ۔ لیکن آج ایک چھوٹے سے وائرس نے اس کی ساری اکڑ نکال دی۔ جو دنیا اپنی معیشت اور ٹیکنا لوجی کے بل پر آسمانوں پر راج کرنے کا سوچ رہی تھی، وہی آج ایک ایکFace Mask کے لئے ترس رہی ہے۔
کرونا وائرس بربادی تو کر رہا ہے اور شاید کچھ اور دیر تک کرتا رہے گا لیکن لازم ہے کہ یہ بربادیاں نام نہاد جدید دنیا کے لیڈروں کی آنکھیں کھولنے کا بھی سبب بنیں۔ آج نہیں تو کل اس وائرس پر قابو پا لیا جائے گا لیکن اُس کے بعد کیا؟ کیا دنیا کے لیڈران ایک بار پھر سے اسلحہ کی دوڑ میں لگ جائیں گے؟ یا پھر اپنے ممالک کو فلاحی ممالک بنا کر انسان کی بنیادی ضرورتوں کی طرف اپنی توجہ مبذول کریں گے۔ اگر ان ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک نے صحت کے شعبے کی طرف ذرا سی بھی توجہ دی ہوتی تو آج ان کا یہ حال نہیں ہوتا۔ قدرت کائنات کا تماشہ خاموشی دیکھتی رہتی ہے اور موزون وقت پر اپنا پینترا بدلتی ہے۔ اُس نے اپنا پینترا بدلا ہے صرف اور صرف موجودہ دور کے انسان کی آنکھیں کھولنے کے لئے۔ آج قدرت نے سرمایہ داری نظام کے بکھئے ادھیڑ دئے ہیں۔ آج ڈونالڈ ٹرمپ بھی اتنا ہی بے بس ہے جتنا نیو یارک کے اولڈ ٹائون کا کوئی بھکاری۔ دنیا بھر کے مغرور لیڈروں کے علاوہ کرونا وائرس نے دنیا کی بڑی بڑی کاروباری کمپنیوں کو بھی چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ آج کوئی معیشت کی بات نہیں کرتا، بات کرتا ہے تو صرف جان بچانے کی۔ دوسرے لوگوں سے دور بھاگ کر اکیلے میں رہنے کی۔
قدرت نے مذہب کے ٹھیکیداروں کو بھی اپنی اوقات دکھادی ہے۔ سارے مندر، مسجدیں، کلیسا، گرجے ، گردوارے بند پڑے ہیں۔یہ اس لئے کہ ان مذہب کے ٹھیکیداروں میں مذہبی تکبر آگیا تھا۔ یہ اپنے سوا سب کو گمراہ سمجھتے تھے۔ مذہب کے نام پر لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑواتے تھے۔ دنیا میں تشدد کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ہر سُو نفرت کا ماحول پیدا کرنے کے در پے تھے۔ اللہ، یسوع مسیح، بھگوان کے نام پر قتل و غارت گری کرتے تھے۔ پہنائوں، رنگ اور کھانے پینے کی عادتوں کو لے کر ایک دوسرے کو کاٹتے، مارتے تھے۔ مسجدوں، مندروں اور گرجاگروں کا سہارا لے کر، انسان کو انسان کا دشمن بنانے کے درپے تھے۔ لیکن قدرت نے ان کو ایسا سبق سکھایا کہ اگر یہ اب بھی نہیں سنبھلے تو مکمل بربادی ان کا مقدر بن جائے گی۔
آج ہر سو نفسا نفسی کا عالم ہے۔ باپ بیٹے سے دور بھاگ رہا ہے، بیٹا ماں سے دور بھاگ رہا ہے، ماں بیٹی کو پرے ہٹا رہی ہے۔ کوئی کسی سے ملتا نہیں، کوئی کسی سے ہاتھ نہیں ملاتا، کوئی کسی سے بغلگیر نہیں ہوتا۔ ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ اگر اب بھی انسان نہیں سدھرا تو کب سدھرے گا۔ کب انسان یہ سمجھ پائے گاکہ وہ اس قدر کمزور اور بے بس ہے کہ ایک چھوٹا سا وائرس اس کی پوری دنیا تہہ و بالاکرسکتا ہے۔ 
امید پر دنیا قایم ہے اور نا امیدی موت سے بھی بدتر ہوتی ہے۔ اُسی امید کا سہارا لے کر ہم سب پر لازم ہے کہ ماہرین صحت کی ہدایات پر عمل کریں۔ اپنے اپنے گھروں تک ہی محدود رہیں اور سماجی فاصلے بر قرار رکھیں۔ کوئی ایسی حماقت نہ کریں جس سی ہم کرونا وائرس کو پھیلانے کا موجب بن سکتے ہیں۔ وہ وقت عنقریب آئے گا جب ہم ایک بار پھر ایک دوسرے سے ہاتھ ملائیں گے، بغلگیر ہوں گے۔ اُس کے بعد ہمیں صرف یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا اس وبائی مرض نے ہمارے سیاسی، مذہبی اور کاروباری لیڈروں کو کچھ سکھایا ہے یا نہیں۔ اگر کرونا وائرس کو شکست دینے کے بعد بھی دنیا ویسے ہی چلتی رہی جیسے کہ وائرس سے پہلے چلتی تھی تو ہمیں انتظار کرنا ہوگا جب قدرت پھر اپنا قہر نازل کرنے کا فیصلہ کرے۔
آپ سب محفوظ رہیں، صحیح سلامت رہیں، زندہ رہیں۔ اپنے آپ کو اپنے گھروں تک ہی محدود رکھیں اور امید رکھیں کہ گھومنے پھرنے کے دن بھی عنقریب آئیں گے۔
یار زندہ، صحبت باقی!
رابطہ :  [email protected]