کورونا وبا… لاپرواہی تناہ کُن ثابت ہوسکتی ہے!

 جموں وکشمیر یونین ٹریٹری میں کورونا کے حوالے سے جو نئی درجہ بندی کی گئی ہے وہ قطعی اطمینان بخش نہیں ہے۔وادی کشمیر میں صرف ایک ضلع بانڈی پورہ کو چھوڑ کر باقی سبھی اضلاع ریڈ زون میں رکھے گئے ہیں جبکہ جموں میں رام بن ضلع ریڈ زون میں ہے۔کٹھوعہ ، سانبہ ، گاندربل ، ریاسی ، اودھمپور، پونچھ ، راجوری اور جموں کو اورینج زون اور خطہ چناب کے ڈوڈہ و کشتواڑ اضلاع کو گرین زون میں شمار کیا گیا ہے۔ حکومت کی نئی درجہ بندی اور بندشوں کی تفصیلات سے واضح ہوجاتا ہے کہ جموںوکشمیر خاص کر وادی کشمیر میں صورتحال قطعی اطمینان بخش نہیں ہے۔یہاں مسلسل نئے معاملات سامنے آرہے ہیں اور روزانہ2ہزار سے زائد نئے معاملات کاسامنے آنا معمول بن چکا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ قطعی طور کوئی اطمینان بخش صورتحال نہیں ہے اور اس طرح متواتر کیسوں کا سامنے آنا انتظامیہ کیلئے ہی نہیں بلکہ سماج کیلئے بھی پریشان کن ہی ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کورونا مریضوںمیں اتنے بڑے پیمانے پر اضافہ کی وجہ کورونا ٹیسٹوں میں اضافہ ہے اور آج کل جتنے بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کئے جارہے ہیں ،اُس کے نتیجہ میں نئے کیسوں کا سامنے آنا کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہے تاہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر ٹیسٹ کافی بڑی تعداد میں کئے بھی جارہے ہیں لیکن جس اوسط کے ساتھ نئے معاملات سامنے آرہے ہیں ،وہ تشویشناک ہے ۔ یہی صورتحال ملکی سطح پر بھی ہے جہاں گوکہ بیشتر ریاستوں میں معاملات کنٹرول میں ہیں تاہم جب کورونا بے قابو ہوچکا ہے تو ایسے مقامات پر اس کو قابو نہیں کیا جاپارہا ہے ۔ملکی سطح پر بھی اب روزانہ 3لاکھ سے زائد کورونا کے نئے معاملات سامنے آرہے ہیںجو اگر چہ آبادی کی کثرت اور وبا کے عالمی منظر نامے کے پس منظر میں خوفناک ہیں اور باعث تشویش ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یومیہ کیسوں کی تعداد میں اضافہ کا رجحان جاری رہے گا اور اگر ایسا ہی چلتا رہے تو خدا نخواستہ کل کو یہاں صورتحال بے قابو بھی ہوسکتی ہے ۔مرکزی حکومت کو بخوبی معلوم ہے کہ اگر ا س مرحلہ پرمکمل ڈھیل دی گئی تو تباہی مچ سکتی ہے ۔بقول وزیر اعظم یہ جنگ بہت طویل ہے اور ہمیں جان بھی جہان بھی کے اصول پر عمل پیرا ہوکر جہاں کورونا کو بھی شکست فاش دینی ہے وہیں اپنی معیشت کو بھی پٹری پر واپس لاناہے۔لاک ڈائون کی وجہ سے ہمیں جو کامیابی نصیب ہوئی تھی ،ہم قطعی اس کو معاشی سرگرمیوں کی بلا احتیاط مکمل بحالی سے گنوانے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ ہم اپنی لاپرواہی کی وجہ سے تباہی کو خود دعوت دے رہے ہیں۔کورونا معاملات کا اس رفتار سے بڑھنا کوئی اچھی خبر نہیںہے اور جس طرح سے یہ وائرس پھیلتا ہی جارہا ہے ،وہ یقینی طور پر پریشان کن ہے ۔مشاہدہ میں آیا ہے کہ لاک ڈائون جوں جوں نرم پڑتا گیا ،عوامی سطح پر لاپرواہیوں کی ایک طویل داستان بھی شروع ہوتی گئی ۔حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ نظر نہ آنے والا دشمن عین ہمارے درمیان موجود ہے۔حال ہی میں معروف ماہر امراض کا جو بیان سامنے آیا ہے وہ انتہائی پریشان کردینے والا ہے ۔اُن کے بیان سے بین السطور یہی بات مترشح ہوجاتی ہے کہ صورتحال بے قابو ہوتی چلی ہے اور اب حالت یہ ہے کہ وینٹی لیٹر کم پڑنے لگے ہیں اور ماہرمعالجین کی کمی محسوس ہونے لگی ہے۔یہ قطعی کوئی اچھی صورتحال قرار نہیں دی جاسکتی ہے لیکن اس کے باوجود ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے وطیرہ میں تبدیلی لانے کو تیار نہیں ہیں۔کورونا سے روزانہ 10سے20اموات اور روزانہ ہزاروں نئے معاملات سامنے آنا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ یہ وائرس سماج میں انتہائی گہرائی تک سرایت کررہا ہے اور اب بڑا خطرہ یہ ہے کہ جینیاتی تبدیلیوں سے گزر کر کوروناوائرس کی جو نئی قسم سامنے آئی ہے ،وہ پہلی قسم سے نو گنا زیادہ متعدی اور خطرناک ہے۔اب ہمیں اندازہ لگانا چاہئے کہ ہم کس خطرناک صورتحال سے دوچار ہوچکے ہیں۔ اگر اس وقت بھی ہم نے اسی طرح لاپرواہی کا مظاہرہ جاری رکھا اور دوریوںکا کوئی پاس و لحاظ نہ رکھا تو یہ وائرس ہم پرپھر کچھ اس طرح حملہ آور ہوسکتا ہے کہ پھرہم چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپائیں گے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ معیشت کو پٹری پر لانے کیلئے معاشی سرگرمیاں بحال کی جائیں لیکن یہ سب انسانی زندگیوںکی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔