جموںوکشمیر میں کورونا مریضوںکی تعداد میں یکایک تشویشناک اضافہ سے ہسپتالوں پرکافی بوجھ پڑ چکا ہے جس کے نتیجہ میں گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران نئے سامنے آنے والے ہزاروں مریضوں کو داخلہ دینا مشکل ثابت ہورہا ہے۔جموںوکشمیر حکومت کی پالیسی کے مطابق علاج کی ضروریات اور علامات کو خاطر میں لائے بغیر کورونا مریضوںکو ترجیحی بنیادوں پر اپنے آبائی اضلاع کے ہسپتال میں داخل رکھنا ہے۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ کشمیر میں تقریباً تمام نامزد کووڈ ہسپتال مریضوں سے بھر چکے ہیںاور وہاں مزید گنجائش نہیں رہی ہے۔امراض چھاتی کے ہسپتال میں صرف180بستروں کی گنجائش ہے اور خال خال ہی کوئی بیڈبچاہے ۔اسی طرح 50بستروں کی گنجائش والاکشمیر نرسنگ ہوم ،جسے حال ہی میں کووڈ ہسپتال ڈکلیئر کیاگیاتھا ،میں بھی شاید ہی کوئی بیڈ خالی ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت نئے مریضوں کے داخلہ کیلئے نئے امکانات تلاش کررہی ہے جس کیلئے اب مزید23ہسپتالوں کو کووڈ نامزد ہسپتال ڈکلیئر کیاگیاہے۔ سکمز میڈیکل کالج ہسپتال بمنہ ،جسے عرف عام میںجے وی سی بمنہ کہتے ہیں ،میں 170سے زائد بستروں کی گنجائش ہے اور فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ نہ صرف یہ تمام بیڈ مریضوں سے بھرے پڑے ہیں بلکہ آئی سی یواور ہائی ڈیپنڈنسی یونٹ میں کوئی جگہ نہیں بچی ہے اور منتظمین پریشان ہیں کہ اب کیا کیاجائے۔جواہر لعل نہرو میموریل ہسپتال کووڈ ہسپتال رعناواری میں بھی 140کے قریب بستروں پر کورونا مریض ہیں ۔سکمز صورہ میں300جبکہ صدر ہسپتال میں250مریض داخل ہیں اور عملی طور اب جگہ کم پڑرہی ہے جبکہ دیگر مسائل بھی سرچڑھ کر بول رہے ہیں۔کشمیر کے تمام اضلاع میں نامزدکووڈہسپتالوں کی حالت اس سے کچھ مختلف نہیں ہے ۔اس صورتحا ل کو دیکھ کر بے شک انتظامیہ پریشان ہے اور وہ امکانات تلاش کررہی ہے تاہم طبی ماہرین کا مانناہے کہ وقت آچکا ہے جب ہمیں ایسے کورونا مریضوںکو ہسپتالوںکی بجائے انتظامی قرنطینہ کے علاوہ خانہ قرنطینہ میں رکھنا چاہئے جن میں علامات ظاہر نہ ہوئی ہوں تاکہ ہم ہسپتالوںکو اُن مریضوں کیلئے میسر رکھ سکیں جو انتہائی علیل ہوں۔یہ خیال برا نہیں ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت اب نہ صرف رنگریٹ میں فوج کی جانب سے قائم شدہ250بستروں والے ہسپتال کو استعمال کررہی ہے بلکہ اب انڈور سٹیڈیم سرینگر کے علاوہ تمام اضلاع میں قائم کئے گئے کووڈ کیئر کلینکوں کو بھی ایسے کورونا مریضوںکے داخلہ کیلئے استعمال کیاجارہا ہے جن میں علامات نہ ہوں ۔نیز خانہ قرنطین کا آپشن بھی استعمال ہورہا ہے۔بلا شبہ ہمارے یہاں کورونا مریضوںکو گھروںمیں قرنطین کرنا مشکل ہے کیونکہ ہمارا معاشرتی اور سماج نظام ایسا ہے جو مسائل پیدا کرسکتا ہے لیکن جس طر ح ہسپتالوںکے باہر اب انتظامات کئے جارہے ہیں ،وہ ٹھیک ہے اور کوشش کی جانی چاہئے کہ اس طرح کے مراکز ہسپتالوں کے قریب ہی ہوں ۔سہولیات قائم کرنا شاید اُتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے لیکن ایسی سہولیات کیلئے پھر عملہ بھی درکار ہوتا ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ ایک طرح کے عارضی ہسپتال ہی ہونگے۔یہاں ہسپتالوںمیں حکومتی انتظامات سے کوئی راضی نہیں ہے ،ایسے میں اس طرح کے عارضی ہسپتالو ں کے بار ے میں عوامی سوچ کیا ہوسکتی ہے ،سمجھ سے بالاتر نہیں ہے ۔اس کے علاوہ اب جبکہ خانہ قرنطینی کا سلسلہ بھی شرو ع ہوچکا ہے تو ایسے مریضوں کی مسلسل طبی نگرانی لازمی ہے اور اس کیلئے بھی عملہ درکار ہے ۔ بے شک ہمارا طبی نظام کافی حد تک ناقص ہے اور سہولیات کا فقدان ہونے کے علاوہ عملہ بھی قلیل ہی ہے ۔موجودہ آفت کے ماحول میں اب بڑی تبدیلیوں کی امید نہیں کی جاسکتی ہے لیکن اتنا ضرور ہوسکتا ہے کہ فی الوقت کورونا سے نمٹنے کی پالیسی صحیح ہو۔جس ملکی یا بین الاقوامی طریقہ کار پر ہم عمل کررہے ہیں ،ضروری نہیں کہ وہ یہاں بھی کامیاب ہو۔ہمارے یہاں اپنے مسائل ہیں اور ہمیں اپنی کمزوریوں اور مضبوطیوںکودھیان میں رکھتے ہوئے اپنی ضروریات کے حساب سے اقدامات کرنا ہونگے۔ارباب بست و کشاد سے یہی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کم از کم اس نازک ترین مرحلہ پر اپنے عوام کو مایوس نہیں کرینگے ۔بے شک عوام کو سرکار کی مجبوریوں کا بھی ادراک ہے لیکن لوگ کہاں جائیںگے ۔سرکار کو مضبوط رہ کر تمام وسائل بروئے کار لاکر تمام امکانات کو تلاش کرناچاہئے تاکہ کوئی بھی شہری معیاری علاج ملنے سے نہ رہ جائے کیونکہ اس وقت سرکاری سیکٹر کے علاوہ کچھ نہیں جہاں لوگ جاسکیں۔
کورونا وباء او رجموںوکشمیر | احتراعی اقدامات کی ضرورت
