حالیہ ایام میں تین حاملہ خواتین کے ساتھ ہسپتالوں میں جو کچھ ہوا ،اُس نے اُن مصائب و مشکلات کو کھول کر سامنے لایا ہے جن کا کورونا بحران کے بیچ کشمیر کے بیمار او ر حاملہ خواتین کو سامنا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا وائرس کیخلاف جنگ کو پہلی ترجیح حاصل ہے اور اس ضمن میں کسی لیت و لعل کی گنجائش نہیں ہے تاہم جس طرح کشمیر کے سبھی بنیادی طبی مراکز سے لیکر بیشتر اعلیٰ طبی مراکز کوعملی طور کووڈ ۔19کیلئے مختص رکھاگیا ہے ،اُس نے یقینی طور پر کشمیر میں طبی بحران پید اکردیا ہے ۔آج کل حالت یہ ہے کہ عام مریضوںکا ہسپتالوں میںکوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ہے ۔بیشتر ہسپتالوںکے اوپی ڈی بند رکھے گئے ہیں اور سرجری شعبے تو تالہ بند کئے جاچکے ہیں۔پرائمری ہیلتھ سینٹروں،کمیونٹی ہیلتھ سینٹروں ،سب ضلع ہسپتالوں اور ضلع ہسپتالوں ،جن پر دیہی آبادی کے 90فیصد مریضوں کا انحصار ہوتا ہے ،کی حالت غیر ہوچکی ہے ۔ایسے تمام طبی مراکز میں کووڈکلینک کھولے جاچکے ہیں جہاں مشتبہ مریضوںکی جانچ کی جارہی ہے ۔ایسے میں جب عام مریض علاج کیلئے آتے ہیں تو ان کاکوئی پرسان حال نہیں ہوتا ہے ۔اول تو ایسے مریضوں کو دیکھا ہی نہیں جاتا ہے اور اب اگر دیکھا بھی جائے تو وہ محض خانہ پری ہوتی ہے اور اگر خدانخواستہ کسی مریض کو داخل کرنے کی ضرورت محسوس تو مسئلہ سنگین بن جاتا ہے کیونکہ اس کیلئے ہسپتال والے تیار نہیں ہوتے ہیں اور وہ پہلے کورونا ٹیسٹ کروانا چاہتے ہیں۔گزشتہ کچھ روز کے دوران حاملہ خواتین کی اموات نے طبی بے حسی کو بے نقاب کردیا ہے ۔اندازہ کریں ،سنیچر کو اننت ناگ کے ایک ریڈزون کی خاتون کی لل دید ہسپتال میں زچگی ہوتی ہے اور اس کے فوراً بعد اس کا کورونا کیلئے نمونہ لیاجاتا ہے جو مثبت آتا ہے،نتیجہ کے طور پر ہسپتال کے11ملازمین کو قرنطینہ کردیناپڑا جن میں طبی و نیم طبی عملہ شامل ہے۔کچھ سنے بغیر ہی مریضہ اور اس کے شوہر کو معلومات چھپانے کا مرتکب قرار دیاگیا لیکن اس کے بعد جو کہانی سامنے آئی ،وہ نہ صرف شرمسا ر کردینے والی تھی بلکہ ہمارے طبی نظام کے ناقص تال میل کو بے نقاب بھی کرگئی۔ مذکورہ حاملہ خاتون جو درد زہ میں مبتلا تھی، کو تین ہسپتالوں نے اُسے داخل کرنے سے منع کیا کیونکہ اس کی خطا صرف یہ تھی کہ وہ ریڈ زون علاقہ کی تھی اور بالآخر اُسے لل دید ہسپتال میں یہ حقیقت چھپانی پڑی کہ وہ ریڈزون سے ہے تاکہ اُس داخل کیاجاسکے۔سب سے پہلے مذکورہ خاتون اپنے مقامی سب ضلع ہسپتال سے ریفر کی گئی کیونکہ وہاں انتظام نہ تھا جس کے بعد اسکی زچگی زچہ وبچہ ہسپتال اننت ناگ میں ہوسکتی تھی لیکن اُسے ریڈزون کی حاملہ خواتین کیلئے ناقابل رسائی بنادیا گیا ہے اور اس ہسپتال کی انتظامیہ نے اس خاتون کو لینے سے صاف انکار کرتے ہوئے اُسے سکمز میڈیکل کالج ہسپتال بمنہ ریفر کیالیکن وہاں بھی ڈاکٹروںنے یہ کہہ کر اس کو داخل نہ کیا کہ مذکورہ ہسپتال کورونا مریضوںکیلئے مخصوص رکھاگیا ہے او ر یہ مشتبہ مریضوںکو داخل نہیں کرسکتا ہے ۔نتیجہ کے طور پر مریضہ وہاں سے ناامید ہوکر نکلی اور بالآخر لل دید ہسپتال پہنچ گئی۔لل دید ہسپتال میں حقائق چھپاکر زچگی تو ہوئی لیکن اگلے روز جب اُسکی ریڈزون علاقہ کی رہائش کے بارے میں معلوم ہو ا تو انہیں ایک گھنٹہ میں ہی ہسپتال سے رخصت کرکے واپس سب ضلع ہسپتال بجبہاڑہ منتقل کیاگیا۔اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ مذکورہ خاتون ،اس کا نوزائد بچہ اور شوہر جن مصائب سے گزرے ہونگے اور انکی نفسیاتی حالت کیا ہوگی۔اس سے ایک روز قبل سیر ہمدان کی ایک حاملہ خاتون زچہ وبچہ ہسپتال اننت ناگ میں طبی و نیم طبی عملہ کی لاپر واہی کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلی گئی اور اس کے بعد اس خاتون کی نعش کے ساتھ جو معاملہ ہوا ،وہ انسانیت سوز ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی تھا۔کس طرح مذکورہ خاتون کو ایمبولینس فراہم نہ کی گئی اور لاش کو سٹریچر پر باہر نکالاگیا ،وہ منظر دل کو پسیج دینے والے تھے۔ یہی حال کم و بیش سبھی ہسپتالوں کا ہے ۔میڈیکل کالج ہسپتال بارہمولہ بھی کووڈ مریضوںکیلئے مخصوص رکھاگیا ہے جبکہ اننت ناگ میڈیکل کالج کا حال بھی کچھ مختلف ہے ۔ایسے میں دیہی علاقوں کے مریض جائیں توجائیں کہاں۔صورہ ،صدر یا دوسرے بڑے ہسپتال میں ساری توجہ کورونا مریضوںپر ہے جبکہ عارضہ قلب یا دیگر امراض میں مبتلا لوگوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت نے عام لوگوںکو مرنے کیلئے چھوڑ دیا ہے ۔اس صورتحال میں جو لوگ علاج نہ ملنے کی وجہ سے مررہے ہونگے ،اُن کی تعداد شاید کورونا مہلوکین سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے لیکن وہ کسی کو معلوم بھی نہیں پڑے گا کیونکہ ان کا کوئی کوئی شمار نہیں رکھ رہا ہوگا۔وقت کا تقاضا ہے کہ اس بے تکی پالیسی کو تبدیل کیاجائے۔بے شک کورونا کیخلاف جنگ اہم ہے لیکن اس لڑائی میں عام مریضوںکو بھینٹ نہ چڑھایا جائے ۔