انسانی تاریخ میں بہت سی وبائی بیماریاں آئیں اور گئیں لیکن کو رونا کی وباء نے سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا ۔انسانو ں کے درمیان فاصلے بڑھ رہے۔ یہ کیسا پرند ہے جو کسی کی پکڑ میں نہیں آ رہا ۔وبائی بیماریاں پہلے بھی پھیلتی رہی ہیں، موت نے پہلے بھی سر اٹھائے ہیں ،گلی گلی پہلے بھی جنازے اٹھائے جاتے رہیں ہیں،خوف کے بھیانک سائے پہلے بھی پنجے گاڑ چکے ہیں مگر اس بار انسان موت سے نہیں ڈرہا ہے بلکہ اس مر تبہ انسان ،انسان سے ڈر رہا ہے ۔بقول جون ایلیا ؎
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
جب ہزارو ں ٹھکانے لگ گئے تو ہم پر بھید کھلا کہ کوئی کسی کو ہاتھ نہ لگائیں ،گلے نہ ملیں ،قریب نہ بیٹھے تو بیچ میں چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں ۔ٖغرض یہ کہ اگر کرنا ہی ہو تو دور سے سلام کریں۔وبا زندگیا ں چھینا کرتی تھیں لیکن کو رونا نے غضب ہی کیا ہے ۔اس وبا نے محبتیں ہی چھین لی ہیں ۔دوریا ں دو چند ہورہی ہیں ۔مرض کو کیسے پر لگے ہیں کہ اڑ کر ایک دوسرے کو لگ رہا ہے ۔کہتے ہیں کہ کچھ نہ کرو ،گھر میں بند ہو کر بیٹھے رہو ۔جیسے آیا ویسے ہی چلا جائے گا ۔کیا آ سان نسخہ ہے ۔
یہ کون سا مرض ہے جس کا کوئی علاج ہی نہیں ہے بلکہ تنہائی میں عافیت ہے۔ اگر یہ بے رحم بیماری آپ کی جان سے چمٹ جائے تو خود کو کسی کمرے میں بند کر لیں نہ آ پ باہر جائیں نہ کوئی اندر آئے ۔تو کیا کرے ،انسان ،انسان سے بیزار ہوجائے گا ؟یہ تو بیماری نہ ہوئی ،یہ تو انسان دشمنی ہوئی ،محبت کی قاتل ۔ہم جو سدا محبتو ں میں پلے ہیں ،چاہتو ں میں بڑے ہوئے ہیں اور قربتو ں میں رہ کر ہو ش سنبھالا ہے ۔کیا کریں ،ہم سب سے کنارہ کر لیں ،تمام سے منہ پھیر لیں ،نہیں یہ مر ض نہیں کچھ اور ہے۔ یہ بیماری نہیں کوئی آسمانی آفت ہے ۔کیا عجب کہیں سے کوئی اڑن طشتری آئی ہو اور اپنے ساتھ یہ وبا لائی ہو ۔ایسی آفت کہ جس میں وبا ء تو ہے لیکن وفا نہیں جس میں ایسا کچھ ہو جو پہلے کبھی نہیں ہوا ،جس میں کچھ ایسا کرنا پڑے جو پہلے کبھی نہ کیا ہوا ۔جس کے چلن نرالے اور جس کے ڈھنگ انوکھے ہو ں ۔اسی لئے تو انسان کے بس میں نہیں آرہی ۔
یہ مرض اپنے ساتھ حیرتیں لایا ہے ۔جہا ں جہا ں پھیلا ہے وہاں عجیب با تیں ہو رہی ہیں ،پہلی تو یہ کہ ہلاکتو ں کی خبروںکی بہتات کے باوجود یو ں لگتا ہے جیسے لوگ ان خبرو ں کو ایک کان سے سن کر دو سرے سے اڑا رہے ہیں ۔جیسے لوگو ں کو ایک عجیب دیوانگی جیسا یقین ہے کہ جو ہو نا ہے اوروں کو ہو، انہیں کچھ نہیں ہو گا ۔لاک ڈاون ہو رہے ہیں اور سر پھرے لوگ یہ دیکھنے کے لئے گھرو ں سے نکل رہے ہیں کہ باہر کیا ہورہا ہے ۔ذمہ دار لوگ چیخ رہے ہیں چلا رہے ہیں کہ یہ لاک ڈاون ہے مزے کرنے والی چھٹی نہیں گھر بیٹھنے کے لئے چھٹیا ں دی گئی ہیں ۔یہ بات سن کر لوگ قہقہے لگا رہے ہیں ۔آج ہمارے سرو ں پر سوال منڈ لارہا ہے کہ کیا کورونا وائرس کی شکل میں عذاب نازل ہو ا ہے ؟کیا یہ ہوا کے ایک جھو نکے کی طرح گزر جائے گا یا آج کے بعد ہمارا رویہ بدل جائے گا؟کیا ہمارے سوچنے سمجھنے کے انداز بدلیں گے ؟کیا نسانی جان کی جو قدر و قیمت بازار کے بھائو کی طرح گرتی جارہی تھی، اس قیامت کے بعد وہ ہمیں ہمیشہ سے زیادہ عزیز ہوگی ؟کیا آج کے بعد ہم اپنے ماحول کو صاف رکھیں گے تا کہ پھر کوئی نیا وائرس سر نہ اٹھا سکے ؟۔اگر ہم اس وبا ء سے بچ گئے تو کیا اس طرح کے حقدارو ں کا حق ماریں گے یا حق دارو ں تک ان کا حق پہنچائیں گے ؟طاقت رکھ کر کمزور کا حق تو نہیں ماریں گے ؟خیر کے وسائل ہونے پر دوسروں پر انہیں دو بارہ سے روکیں گے تو نہیں ؟۔
(مضمون نگار کشمیر عظمیٰ کے نامہ نگار برائے کپوارہ ہیں ۔
رابطہ نمبر:7780840219.)