کورونا وائرس حقیقت میں وباء ہے ڈراما نہیں

۔2019کے اواخر میں ملک ِ چین کے علاقے 'وہان' میں پیدا شدہ عالمی وباء جیسے کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لا کھڑا کیا ہے۔ جہاں اس چھوٹے سے وائرس کے مدمقابل سبھی انسان بے یارومددگار ہے وہیں اس کے مخالف ابھی تک دنیا سو فیصد کوئی موثر ادویات تیار کرنے میں قاصر رہی ہے۔ عالمی سطح پہ اس وقت ہر تین اشخاص میں سے ایک کی موت اس وباء کی بدولت ہو رہی ہے جو ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ 
ہندوستان میں اس عالمی وباء کا پہلا کیس 30جنوری 2020کو پایا گیا ہے جس کے بعد یہ رفتہ رفتہ ملک کے طول و عرض میں اپنا زور پکڑتا چلا گیا اور یہ سلسلہ ابھی بدستور جاری ہے۔ اس عالمی وبائی بیماری نے امسال ہندوستان کو بْری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اسی طرح اگر جموں و کشمیر کی بات کریں گے تو اعداد و شمار ملکی سطح سے مختلف نہیں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ صورتحال قابو میں ہے لیکن جموںوکشمیر کے20اضلاع میں اس وباء نے اپنا وجود دکھایا ہے ۔اعداد و شمار کے مطابق اس وباء کی حقیقت ہمارے سامنے عیاں ہے لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے جو اس وباء کو صرف ایک ڈراما سمجھتے ہیں ۔ایسے لوگوں کے لئے کورونا کے مخالف انتظامیہ کی طرف سے دی گئی احتیاطی تدابیر کوئی معنی نہیں رکھتی ہے جب کہ ہمارے سماج کے کئی نامور شخصیات جن میں سرکردہ علماء، محکمہ طب کے مشہور معروف ڈاکٹر، شعبہ تعلیم کے ماہر اور سینئر ممبران، دیگر محکمہ جات کے اعلیٰ عہدیدار اس وبا کے شکار ہو کر داغ مفارت دے گئے ہیں۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ انتظامی سطح پہ کئی دفعہ لاپرواہی ہوئی ہے۔ وبائی صورتحال کے باوجود بھی اندرا گاندھی ٹولپ گارڑن، زبرون، سرینگر کو سیّاحوں اور مقامی لوگوں کے لئے کھلا رکھنا، غیر ریاستی مزدوروں کا جانچ کئے بغیر وادیٔ کشمیر میں وارد ہونا جیسے غیر تسلی بخش واقعات قابل ذکر ہیں جس سے لوگوں کے اندر اس وباء کے ابتدائی ایام میں ہی متعلق اعتماد ختم ہوا ۔
قرآن و حدیث سے راہ نمائی لیں
دین ِ اسلام کی طرف رْخ کر کے اس وباء کی رہ نمائی حاصل کریں تو بے سود نہیں ہوگا حالانکہ موجودہ دور میں طبعی میدان کافی وسیع اور بصیرت افروز ہو چکا ہے ۔ جدید ٹیکنالوجی کے بدولت اس وقت کسی بھی قسم کی نئی بیماری کادوا تیار کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ طاعون ایک نہایت موذی بیماری ہے جو کسی عذاب الٰہی سے کم نہیں۔ اسلام نے قبل از وقت ان مہلک وبائی بیماریوں یا طاعون جیسے عذاب الٰہی سے آگاہ کر دیا ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ"پس ان ظالموں نے اس قول کو دوسرے قول سے بدل دیا، پھر اتاری ہم نے ان ظالموں پر آفت الٰہی (طاعون، وباء یا مہلک بیماری) باوجود ان کے اس نافرمانی کے۔" (القرآن؛ 2:59) 
سورۃ البقرۃ کی اس آیت مبارکہ میں لفظ "رجز" آیا ہے یعنی بصورت طاعون، وباء یا مہلک بیماری والا عذاب بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر نازل کیا گیا ہے جنہوں نے اللہ کے حکم (حطتہ یعنی اللہ بخش دے) کو اپنی من مانی قول (حنطتہ یعنی گندم ) سے بدل دیا جو سراسر ایک مذاق، مسخراپن اور تکبر و گھمنڈ کی علامت ثابت ہوئی ۔اس نافرمانی پر انہیں آفت سماوی نے بری طرح سے گھیر لیا۔
مفسرین ِ قرآن کے مطابق "رجز کے معنی ہیں وہ چیز جس سے لوگ نفرت کریں اور طبیعت اس سے متنفر ہو جائے۔" اس مہلک وباء سے قوم بنی اسرائیل کے کم و بیش ستر ہزار لوگ مر گئے تھے"۔(التفسۃر المظہری ج/1، ص/74) ان کو یہ سزا دی گئی ہے کہ آسمان سے عذاب الٰہی نازل ہوا جس سے 'رجز' کہا گیا ہے۔ "یہ عذاب طاعون تھا جو ان کے گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے سبب ان پر نازل ہوا تھا۔" (تفسیر المنیری ج/1، ص/183)
غور طلب بات ہے کہ ان کی اس ایک نافرمانی کے سبب انہیں اس طرح کا عذاب نے آگھیرا ہے تو آئے روز ہم سے کتنی نافرمانی ہو رہی ہے۔ ہم سے اللہ رب العالمین کے کئی احکامات کی نافرمانی شعوری و غیر شعوری طور پر ہوتی رہتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہ رب الزوجلال کا نہایت احسان، فضل و کرم ہے کہ اپنے حبیب پیغمبر آخر الزمان، امام الانبیاء ، ختم الرسل حضرت محمد مصطفٰیؐ کی امت پر ایسی آفت نازل نہیں فرماتا نہیں تو ہماری داستان بھی نہ ہوتی داستانوں میں ۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ "طاعون ایک بصورت عذاب ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر نازل ہوا تھا، لہٰذا جب تم کسی علاقے میں اس کے متعلق سنو تو وہاں مت جاؤ اور اگر کسی علاقے میں طاعون پھوٹ پڑے تو فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے نہ نکلو"- (سنن ابو داؤد، باب الخروج من الطاعون؛ 3103 اور صحیح مسلم، باب الطاعون: 2218) 
اس حدیث مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو ایسے علاقوں سے باہر یا اندر جانے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ ہم اس وباء کو دوسروں تک پہنچانے کا سبب نہ بن سکیں۔ عوام الناس کو اس قانون پر عمل پیرا کرنے کے لئے وقت کی حکومت تمام آنے اور جانے والے راستوں کو بند کر سکتی ہے ۔اسی طرح بیماری کے لگنے اور نہ لگنے کے متعلق اللہ کے نبی ؐ نے فرمایا کہ "کوئی مرض ( اپنی ذات سے) مْتعدی نہیں ہوتا۔" (صحیح البخاری: 5773)
اس حدیث سے واضح ہوا کہ رب الزوجلال کا جس پہ منشا ہوگا اس سے بیماری لگ سکتی ہے اور جس سے اس کا منشا نہیں ہوگا وہ ایسی بیماری سے بچ سکتا ہے ۔جیسا کہ خارج زدہ اونٹ کے واقع سے ثابت ہے چہ جائیکہ اس شخص کو ایسے بیماروں کے ساتھ ہی کام کیوں نہ کرنا پڑتا ہو جیسے محکمہ طب و دیگر پائپ لائن محکمہ جات۔
صحابہ کرامؓ کا وباء کے خلاف طرزِ عمل
سن18ہجری کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانہ خلافت میں بیت المقدس کی فتح کے بعد فلسطین کے قصبے (سرغ نامی وادی میں جس سے طاعونِ عمواس سے بھی جانا جاتا ہے یا بلیک ڈیتھ) میں طاعون کی وبا پھیلی۔ یہ وبا کس قدر شدید تھی اس کا اندازہ آپ یوں لگا سکتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ شام کے دورے پر آئے، سرحد تک پہنچے تو طاعون کی وبا پھیل جانے کی اطلاع آگئی، آپؓ نے واپسی کا اعلان کر دیا، یہ خبر حمص پہنچی تو لشکر اسلام کے سپہ سالار ابو عبیدہ بن جراح ؓ گھوڑے پر بیٹھے اور سیدھے خلیفہ کے سامنے پیش ہو گئے، مسکرا کر خلیفہ کو دیکھا اور عرض فرمایا کہ اے عمرؓ تم اللہ کی رضا (تقدیر) سے بھاگ رہے ہو۔ حضرت عمرؓ نے ان کی طرف دیکھا، تھوڑی دیر سوچا اور پھر فرمایا، یہ بات اگر تمہاری جگہ کوئی اور کرتا تو مجھے قطعاً افسوس نہ ہوتا، وہ رکے اور پھر فرمایا: ہاں میں اللہ کی رضا (تقدیر) سے اللہ کی رضا (تقدیر) کی طرف بھاگ رہا ہوں، حضرت عمر فاروقؓ نے یہ بھی فرمایا، رسول اللہ ؓنے وبا کے علاقے میں داخل ہونے سے منع فرمایا تھا۔ 
امیر المومنین حضرت عمرؓنے ابو عبیدہ بن جراحؓ کو مدینہ چلے آنے کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ ایک مکتوب بھی لکھا وہ مکتوب صرف مکتوب نہیں تھا بلکہ حکم تھا اور اس حکم میں حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا تھا کہ یہ خط اگر تم رات کو پاؤ تو صبح سے پہلے روانہ ہو جاؤ اور اگر تمہیں یہ خط دن کو ملے تو شام سے پہلے مدینہ کی طرف روانہ ہو جاؤ۔ 
لشکرِ اسلام کے اس عظیم سپہ سالار نے حکم کی خلاف ورزی ہرگز نہیں فرمائی اور حضرت عمر فاروقؓ کو جواب میں ایک حدیث لکھ بھجوائی کہ رسول اللہ ؓنے فرمایا تھا، اگر کسی علاقے میں وبا پھوٹ پڑے تو وہاں سے ہر گز نہ نکلو، چنانچہ ان حالات میں اپنا لشکر نہیں چھوڑ سکتا، حضرت عمرؓ نے خط پڑھا تو آنسو آ گئے، دیکھنے والوں نے پوچھا: کیا ابوعبیدہؓانتقال فرما گئے ہیں، جواب دیا نہیں ابھی نہیں لیکن جلد فرما جائیں گے اور اس کے بعد حضرت عمرؓنے جوابی خط لکھا، اللہ کے بندے پھر مہربانی کرو اور کسی اونچی جگہ پر منتقل ہو جاؤ۔ ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے یہ حکم مان لیا اور حمص سے نکل کر جابیہ جو وادی اردن ( Jordan) اور گولڈن ہائیٹس کے درمیان واقع ہے، چلے گئے۔ صحت بخش مقام ہونے کے باوجود بھی موت ان کے تعاقب میں تھی چنانچہ کئی حضرات طاعون کی لپیٹ میں آئے، چند دن بیمار رہے اور بیماری کے عالم میں انتقال فرما گئے –
آپؓ کے بعد معاذ ابن جبلؓ نے فوج کی کمان سنبھال لی اور چند دن بعد وہ بھی طاعون کا شکار ہو گئے۔ اسلامی لشکر کے تقریباً پچیس ہزار اور بعض کے نزدیک تیس ہزار جانثاران اسلام اس وبا کا شکار ہوئے۔ ان میں بیشمار جید صحابہؓ بھی شامل تھے ۔اولوالعزم انسانوں کے اس درجہ بڑے انسانی نقصان کی وجہ سے اس سال کو " عام الرمادہ " (Pandemic Year) یعنی 'خاک والا برس یا ہلاکت کا سال' کا نام دیا گیا۔
 اس کے بعد لشکر اسلام کی کمان حضرت عمرو بن العاصؓ نے سنبھالی اور یہ وہ وقت تھا جب مصر اور شام کے تمام ماہرین، طبیب اس وبا سے عاجز آ گئے تھے۔ ان حالات میں حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت عمرو بن العاص ؓ کو خط لکھا کہ اس بلا سے چھٹکارے کی سبیل کیجیے، حضرت عمرو بن العاصؓکہتے ہیں کہ میں نے غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ لوگوں کے اجتماع (Crowding) سے پھیلتی ہے تو میں نے لوگوں کو پہاڑوں میں محصور (Isolate) کر دینے کا مشورہ دیا ، چنانچہ سرکاری سطح پر لوگوں کو گھروں میں پابند (Lockdown) کیا گیا تو تین دن میں ہی یہ وبا ختم ہو گئی۔ یہ تھا حضرات صحابہ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بصیرت افروز حکمت عملی و دانائی کا فیصلہ جس سے اس مہلک وبا کو شکست دینے کا طرز عمل وجود میں آگیا۔ 
کرونا وائرس جیسی وبا سے بچاؤ کی خاطر تنہائی یعنی آئیسولیشن اختیار کرنا ہی ملت اسلامیہ اور انسانیت کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ غیر ضروری طور پہ گھروں سے باہر نکلنا ہی آگ پہ تیل چھڑکنے کے مانند ہے ۔
حضرت نبی اکرمؓ کے فرمان پر اور حضرت عمر فاروقؓ کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی دوسرے شہر، علاقے، گاؤں، قبیلہ، کمیونٹی میں ہر گز مت جائیں اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے مقام کو مت چھوڑیں ۔جہاں پر بھی ہیں وہاں ہی سکونت اختیار کریں اور عمرو بن عاصؓ کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے اجتماع / مجمع (Crowding) سے بچیں، تنہائی یعنی آئیسولیشن اختیار کریں، اپنے گھروں میں محصور ہو جائیں۔ یاد رہے کہ حضرات صحابہ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضوراکرم ؐ کی اتباع اور پیروی میں ایسا کیا اور ہمارے لئے بھی نشان منزل کا تعین فرما دیا، آپؐ کے اسوہ زندگی میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
لہٰذا آپ سبھی حضرات سے یہی التجا ہے کہ حضرات صحابہ کبارؓ کے طریقہ کار کی پابندی کرتے ہوئے اپنی ترجیحات کا تعین کریں۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کا عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ موت بے شک اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن زندگی کی حفاظت کے لیے احتیاطی تدابیر انسان کے بس میں ہے، اللہ رب العالمین ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور اس مصیبت زدہ وباء سے نجات دے ۔آمین یا رب العالمین۔
پتہ۔ہاری پاری گام ترال
رابطہ ۔ 9858109109