کورونا وائرس آزمائش یا سزا؟ | عالمگیر وباء میں پنہاں پیغام کو جانیں

ربِ کائنات کی بیش قیمت نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا بلکہ ان نعمتوں کی صحیح تعداد بتانا بھی ہم ادنیٰ انسانوں کی عقل سے کوسوں دور ہے ۔انسان اگر اپنے آپ پر ہی نظر ڈالے تو انسان کے اعضاء کی بناوٹ ہی رب نے ایسے ترتیب دی ہے کہ ہم خدا کا شکر ادا کرنے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں ۔غرض خدا کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر چیز پر قدرت رکھتی ہے ۔اسی طرح رب کی نعمتوں کا شکریہ ادا نہ کر کے ہم طرح طرح کی آزمائشوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔کسی کے لئے یہ محض آزمائش ہوتی ہے تو کسی کیلئے یہ سزاہو تی ہے ۔اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم ان دو چیزوں میں فرق کیسے کریں یعنی ہمیں یہ کیسے پتہ چلے کہ کون سی مصیبت ہم پر سزا کے طور پر آئی اور کون ہمارے لئے محض آزمائش تھی ،یعنی جب کسی مصیبت کو پا کر ہم خدا سے دور ہو جائیں تو سمجھ لینا چاہیے یہ مصیبت خدا کی طرف سے ہمارے لئے ہمارے گناہوں کی سزاتھی اور جب بھی ہم کسی مصیبت کو پا کر خد ا کا قُرب حاصل کریں تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ خدا کی طرف سے محض آزمائش تھی۔
بے عیب ہے قدرت کا قانونِ مکافات 
 جو کچھ بھی ہوا اپنے گناہوں کی سزا ہے
انسان اپنے کرموں کی وجہ سے یا اپنے گناہوں کی وجہ سے خدا کی بنائی گئی زمین میں فتنہ و فساد پھیلا کر اس پاک ارض کو داغدار بنا رہا ہے۔کبھی جان بوجھ کر تو کبھی انجان رہ کر اپنے ارد گرد کے رہنے والوں کے لئے اذیت کا سامان تیار کرتا ہے ،غرض وقتاً فوقتاًاس دنیا میں موت کا رقص کروایا جاتا ہے ،کبھی کبھار ناداروں اور مفلسوں کا حق غصب کیا جاتا ہے ۔ان ہی کاموں کی سزا خدا ہمیں کئی طرح سے دیتا ہے کیوں کہ خدا یہ وعدہ کرتا ہے کہ جب بھی کہی پر ظلم حد سے زیادہ بڑھ جائے ،جب بھی ناداروں اور مفلسوں کا حق مار کر شہرت کی منزلیں طے کی جائیں گی تو ا س قوم کو میرے عذاب سے کوئی  بچا نہ سکے گا۔
اسی طرح کی آزمائشوں میں یاہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کئی لوگوں کے لئے سزا کے طور پر ایک سزا جس کے نام سے پوری دنیا لرز گئی ’’کورونا وائرس ‘‘ہے ۔اگر چہ پہلے پہل اس وائرس کا اثر صرف چین میں ہی دیکھنے کو ملا لیکن دھیرے دھیرے اس وبا نے پوری دنیا کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اس طرح خدا نے اپنے نافرمان بندوں کو اس بات کا ثبوت دے کر یہ بات باور کروائی کہ سوائے میری طاقت کے کو ئی بھی چیز نہیں ہل سکتی اور کوئی انسان کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو میری قدرت کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتا۔پہلے پہلے اگرچہ ہم اس بیماری کی علامات سے ناواقف تھے لیکن جوں ہی یہ بیماری مارچ کے مہینے میں شدو مد کے ساتھ زور پکڑنے لگی تو ہر ذی روح شخص کے دل میں اپنی جان گنوانے کا ڈر پیدا ہوا،اور اسی اثنا میں اس بیماری سے بچنے کے لیے کئی طرح کی تدابیر کی گئیں جن میں ہاتھوں کا بار بار دھونا ،بھیڑ بھاڑ والی جگہوں سے دور رہناشامل ہیں ۔
اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی یہ آزمائش یا یہ وائرس ،جس کے نام نے پوری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ،ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا یہ خُدا کی طرف سے کوئی وارننگ تو نہیں؟کیا  خُداہم بھولے ہوئے بندوں کویہ یاد تو نہیں دلانا چاہتے کہ سب کچھ انہی کے دست قدرت میں ہے ۔کیا یہ اُن اولادوں کے لئے اپنے والدین کے قریب ہونے کا موقع تو نہیں جو بمشکل کھانے کے اوقات میں اپنے والدین کے درشن کرتے ہیں ؟ کیا یہ اُن بگڑے ہوئے نوجوانوں کے لئے گناہ سے بچنے کی وارننگ تو نہیں جو اپنا وقت بد کاریوں میں صرف کرتے ہیں ،جو اپنے ہی ہاتھوں سے اس دنیا کو جہنم بنانے میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑتے تھے۔
اس بیماری نے دنیا کے کے ترقی یافتہ ممالک کو چند لمحوں میں بے بس کر دیا ۔غرض قدرت کی پکڑ سے نہ کوئی بچ پایا ہے نہ کوئی بچ پائے گا اور انسان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہے کہ اس بیماری سے بچنے کے لیے کئی تدابیر کی جا رہی ہے لیکن کئی بے و قوف لوگ ان تدابیر کے آڑے آکر اپنی بے و قوفیوں سے پوری دنیا کو خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔میں نے ذاتی طورپرکئی افراد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’آپ لوگ زیادہ ڈرتے ہو کچھ نہیں ہوگا ‘‘۔یہ سچ ہے کہ سوائے خُداکے پتا بھی نہیں ہلتا،لیکن خُدایہ بھی فرماتے ہیں کہ اے لوگو اپنی جانو ں کو جان بوجھ کر ہلاکت میں مت ڈالو۔سو اگر ہم اپنے ساتھ کچھ اچھا نہیں کر سکتے تو ہمیں اپنے ساتھ کچھ برا کرنے کا بھی حق نہیں ۔
دراصل ہم ایسے دور میں رہ رہے ہیںجہاں اگر ہماری آسائش کے لئے کسی چیزکے استعمال کو بند کر دیا جائے تو ہم اپنی خود غرضی سے اسی دوران اس چیز سے نزدیکی کا ولولہ دکھائیں گے ۔یہ صحیح ہے کہ مسلمانوںکا مساجد میں نمازادا کرنا نہایت اہم ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ اگر ہمارے اجتماعی طور پر جمع ہو جانے سے ہمارے معاشرے کو نقصان پہنچے گا تو ہمارا رب ہمیں کبھی معاف نہیں فرمائے گا۔ چند نااہل لوگ اپنی جہالت اور معاشرے میں فتنہ و فساد بر پا کرنے کی خاطرحتی المقدور کوشش کرتے ہیں جو کہ سرا سراحمقانہ فعل ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ہم احتیاطی تدابیر اپنا کر سر کار کو بھر پور تعاون دیںاور سب سے اہم اور ضروری بات کہ ہم اپنے رب کے حضور میں سربسجود ہو کر اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں۔ساتھ ہی ساتھ ہمیں چاہیے کہ اس بیماری کو رب کی طرف سے بھیجی ہوئی آزمائش کے طور پر قبول کریں جس رب نے ہمیں ہماری بھولی ہوئی شناخت یاد دلائی یعنی ہم ایک آبلے کی سی وقعت رکھنے والے وقت کے خدا بن بیٹھے تھے ۔ہمیں چاہیے کہ اس رب کا شکر ادا کریںجس رب نے ہمیں اپنے اہل و عیال کے قریب رہنے کا موقع فراہم کیا،کیونکہ اگر اب نہیں تو پھر کب ہم اپنی آخرت کے لئے سوچیں گے جہاں نہ اس دنیا میںکی گئی چال بازیاں کام آئیں گی اور نا ہی یہاں کا کوئی مال و اسباب کام آئے گا۔
اس مشکل دور میں نہ صرف ہم مسلمانان کو بلکہ تمام مذاہب کے لوگوں کو یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔اگر ہم اس مشکل دور میں اپنے گردو پیش ایسے افراد کو پاتے ہیں جو غربت میں مبتلا ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ان کہ مدد کریں لیکن اپنے کیمرے گھر پر ہی چھوڑ دیں۔اگر چہ ہمارے نبیؐ کا فرمان ہے کہ جب کسی غریب کی مدد کی جائے تو دوسرے ہاتھ کو بھی پتہ نہیں لگنا چاہیے۔مطلب کسی کی مدد خفیہ طور پر کرنی چاہیے ،لیکن اگر آج کے دور میں کسی غریب کی مدد کی جاتی ہیں تو سب سے پہلے اس کا فوٹو لیا جاتا ہے اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب وہ غریب غربت کی وجہ سے نہیں، اس شرم کی وجہ سے مر جاتا ہے جو شاید سب سے بڑا قتل ہے۔
 باہر وبا کا خوف ہے گھر میں بلا کی بھوک 
 کس موت سے مروں میں ذرا رائے دیجئے
 
���������
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو ،سینٹرل یونیور سٹی آف کشمیر
ای میل:[email protected]