کورونا وائرس اور ویرینٹ ! | گلوبائزیشن سے بیماریاںپھیلنے کی صلاحیت کئی گنا بڑھ گئی

کورونا وائرس کا تعلق وائرس کی فیملی Corona Viridae سے ہے ،اس کی ظاہری شکل الیکٹران مائیکرو اسکوپ کے نیچے تاج جیسی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اسے کورونا یعنی Crown Like وائرس کہا جاتا ہے۔ یہ تاج نما شکل دراصل اس کی سطح پر موجود Spikeنامی پروٹین کی موجودگی وجہ سے ہوتی ہے۔ کورونا وائرس کو مزید 4اقسام یعنی Generaمیں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں الفا (Alpha)، بیٹا (Beta)، گاما (Gama) اور ڈیلٹا (Delta) کورونا وائرس شامل ہیں۔
کورونا وائرس کا جینیاتی مادّہ بھی RNAپر مشتمل ہوتا ہے۔ کورونا جانوروں اور انسانوں دونوں کو متاثر کرسکتا ہے۔ اس وائرس کا جنیوم بھی کئی طرح کی ساختی اور غیرساختی پروٹین بناتی ہیں۔ جوکہ وائرس کی ساخت بنانے سے لے کر اس کی اپنی میزبان خلیہ کے اندر نشوونما کرنے اور بیماری پھیلانے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کورونا وائرس کا جنیوم 4طرح کی ساختی پروٹین بناتا ہے، جس میں Spike(s)، Envelop(E)، Membrane(M) اور Nucleocapsid(N) شامل ہیں۔ اس ساختی پروٹین میں اسپائیک (Spike) نامی پروٹین جوکہ وائرس کی بیرونی سطح پر تاج کی طرح لگی ہوئی ہوتی ہیں۔ یہ پروٹین وائرس کے اپنے میزبان جاندار کے اندر داخل ہونے اور نفیکشن پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔الفا کورونا وائرس زیادہ تر عام نزلہ، زکام اور سانس کی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں جسے موسمی فلو بھی کہا جاسکتا ہے۔ جب کہ وہ وائرس جن کا تعلق بیٹا کورونا وائرس کی قسم سے ہے انسانوں میں شدید قسم کا نمونیا پیدا کرسکتے ہیں۔ 
جنہیں سارس کوو) SARs COV) SARs COV2 MERS-COV جو کہ حالیہ کووڈ 19 نامی عالمی وبا ءکی وجہ بنا ہوا ہے ۔سارس کوو وائرس کے فلو کی ابتدا 2003ء میں چین کے ایک صوبہ گوانگ ڈونگ سے ہوئی جب کہ سائنسی شواہد سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ یہ وائرس ابتدائی طور پر صرف چمگادڑوں میں فلو کا انفیکشن پھیلاتا تھا۔ یعنی چمگادڑ ہی دراصل اس وائرس کے اصل میزبان تھے۔ 
جب کہ جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ وائرس چمگادڑوں سے مونگ (Palm civets) نامی جانور میں درمیانی میزبان (Intermediate) سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ گویا اس وائرس میں ایسی تبدیلیاں ہوئیں، جس سے اس نے چمگادڑوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی اپنا ہدف بنالیا۔SARS-COV وائرس کی ابتدائی Emergence کے 10سال بعد MERS-COV نامی وائرس سعودی عرب کے شہر جدہ میں پہلی بار رونما ہوئے۔ اور اس بار بھی MERS-COV کی ابتدا ممکنہ طور پر چمگادڑوں سے اونٹوں اور پھر انسانوں میں ہوئی یعنی وائرس کے اندر ہونے والی مثبت جینیاتی تبدیلیوں نے اس وائرس کو چمگادڑ سے اونٹوں اور پھر انسانوں کو اپنا ہدف بنانے میں مدد کی۔ گوکہ اس وائرس نے انسانوں میں بہت زیادہ تباہی نہیں پھیلائی ،مگر وائرس میں ہونے والی مسلسل ارتقائی جینیاتی تبدیلیوں نے ایک بار پھر 2019ء میں کورونا وائرس کی عالمی وباء COVID-19 کو جنم دیا،جس کے اثرات سے اب تک دنیا باہر نہیں نکل سکی۔
سارس -کوو SARS-Cov2)    2   )
دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسرے وائرس کی طرحSARS-COV2وائرس بھی اصل میں چمکادڑوں میں فلو پھیلانے والا وائرس تھا۔مطلب اس کے میزبان چمکادڑ تھے اور جو کہ ارتقائی جینیاتی تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہوئے پینگولن یعنی درمیانی میزبان جانوراور پھر انسانوں میں منتقل ہوگئے۔ گویا SARS-COV2بھی دراصل Cross Species Transmission کے نتیجے میں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئے۔ اس عمل کوViral Zoonosisبھی کہا جاتا ہے۔ اس وائرس کا جینیاتی مادّہ بھی RNAپر ہی مشتمل ہوتا ہے جیسا کہ شروع میں بتایا گیا کہ وہ وائرس جن کا جینیاتی مادّہRNAپر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں ارتقائی عمل دیگر دوسرے وائرس کے مقابلے میں کافی تیز ہوتا ہے، کیوں کہ RNAوائرس میں دوران نشونما جینیاتی تبدیلی جسے Mutation کہا جاتا ہے۔یہ زیادہ تیزی سے ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسانوں میں اپنے پھیلاؤ کے دوران اس وائرس کے جینیاتی مادّے میں ہزاروں قسم کی چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں جنہیں سائنسی زبان میں Mutationکہتے ہیں رونما ہوتی چلی گئیں اور ان تبدیلیوں میں سے کچھ تبدیلیاں ایسی تھی جنہوں نےSARS-COV2 وائرس کو پہلے سے زیادہ طاقتور بناد،جس سے اس وائرس میں نہ صرف انسانوں میں مزید تیزی سے پھیلنے ،بیماری کی شدت میں اضافہ کرنے اور خود کو انسانوں کے مدافعتی نظام سے بچا کراپنی نشونما میں اضافہ کرنے جیسی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا۔
سائنسدانوں نے2019ءسےلے کر اب تک پھیلنے والےSARS-COV2وائرس کے جینیاتی مادّے کے مسلسل مطالعے کے دوران وائرس میں ہونے والی مختلف جینیاتی تبدیلیوں کا انسانوں پر اثر دیکھنے کے بعد وائرس کے ان ویرینٹ کو مختلف نام دئیے۔جب کہ صحت کی عالمی تنظیم WHO نے SARS-COV2 وائرس کےویرینٹ کو آسان لاطینی ناموں میں تبدیل کردیا۔ اور پھر سائنسدانوں نے مزید آسانی کے لئے ان تیزی سے اُبھرتے ہوئے نئے اور زیادہ خطرناک ویرینٹ کودوجماعتوں میں تقسیم کردیا۔ جنہیں Variant of concern(VOCs) اور VOIs(variation of interest ) کہتے ہیں ۔VOCمیںSARS-COV2کے ویرینٹ شامل کئے گئے ہیں، جن کی انسانوں میں نہ صرف خود کو تیزی سے پھیلانےکی صلاحیت میں اضافہ ہوا بلکہ بیماری کی شدت میں اضافہ ،بیمار کی علامات میں تبدیلی مثلاً نئی قسم کی علامات کا ظاہر ہونا، صحت وسماجی اقدامات تشخیص موجودہ علاج یا ویکسین کی تاثیر میں کمی ہونا شامل ہے۔ نیز یہ کہ وائرس کا پھیلاؤپوری دنیا میں ہوچکا ہے۔WHOنے وائرس کے ویرینٹ کی جینیاتی مطالعے اور ان کی خصوصیات یا نئی صلاحیتوں کی جانچ کے بعد SARS-COV2 وائرس کے5ویرینٹ کوVOCکی فہرست میں شامل کیا ہے۔ جن کے نام درج ذیل ہیں۔ 
الفا ویرنیٹ(Alpha Variant) جس کا سائنسی نامB.1.1.7ہے۔ اس ویرینٹ کا آغاز دسمبر 2020میں برطانیہ سے ہوا۔ الفا ویرینٹ کے جینوم کے مطالعے کے دوران اس وائرس کے جنیوم میں17تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا گیا جن میں سے آٹھ تبدیلیاں اس وائرس کے جنیوم کے اس حصے میں تھیں جو کہ وائرس کی اسپائیک روٹین بناتی ہیں۔ جب کہ اسپائیکپروٹین ہی وہ پروٹین ہے جو کہ وائرس کو اپنے میزبان خلیہ سے چپکنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ جو کہ انفیکشن پھیلانے کا سب سے پہلا اور انتہائی اہم مرحلہ ہے۔
گاما ویرینٹ(Gama Variant)سائنسی ناP.1ہے۔ اس کا آغاز برازیل سے ہوا جب کے اس کےاسپائیک روٹین میں دس طرح کی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا گیا، جس نے اس کو پھیلنے میں مزید تیز رفتار بنادیا۔ڈیلٹا ویرینٹ(Delta Variant)کا سائنسی نامB.1.6.172ہے، یہ ویرینٹ انڈیا سے اُبھرا اور تیزی سے پوری دنیا میں پھیل گیا ۔اس وائرس کیSPIkEپروٹین میں بھی دس طرح کی تبدیلیاں نظر آئیں۔اومی کرون ویرنیٹ(Omicron Variant) کا سائنسی نامB.1.1.529 ہے۔ یہ ویرینٹ۔نومبر2021میں پہلی بار ساؤتھ افریقامیں رپورٹ ہوا اور اب یہ پوری دنیا میں انتہائی تیزی سے پھیلنے والاSARS-Cov2کا ویرینٹ بن گیا ہے۔ اس وائرس کے جینوم میں30سےزیادہ (Mutation)تبدیلیوں کا مشاہدہ وائرس کی اسپائیک پروٹین میں کیا گیا۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں یہ وائرس ڈیلٹا ویرینٹ کے مقابلے میں13گنا زیادہ تیزی سے پھیلنے والا وائرس بن گیا۔VOIsجسے variant of interestبھی کہتے ہیں۔ SARS-COV2وائرس کے فی الحال دوویرینٹ اس جماعت میں شامل کئے گئے ہیں۔ VOTsمیں ایسے ویرنیٹ شامل کئے جاتے ہیں جن میں جینیاتی تبدیلی کی وجہ سے ایسی خصوصیات پیدا ہوجاتی ہیں، جس سے وہ وائرس نہ صرف زیادہ تیزی سے پھیلنے لگتا ہے بلکہ جس کی وجہ سے بیماری کی شدت ،تشخیص اور علاج میں مشکلات ویکسین اور مدافعتی نظام کے اثرات میں کمی آنے لگے اور وائرس ایک بڑے علاقے میں پھیل رہا ہو۔فی الحالSARs COV2وائرس کے دوویرینٹ اس میں شامل کئے گئے ہیں۔1۔ لمبڈا(Lambda)ویرینٹ، جس کا سائنسی نام C.37 ہے یہ وائرس جون2021میں پیرو نامی شہر سے اُبھرا۔2۔میو(MU)سائنسی نامیB.1.621, یہ وائرس اگست 2021سے امریکا کے شہر کو لمبا سے پھیلانا شروع ہوا۔وائرس کے ان ویرینٹ میں بھی زیادہ تر تبدیلیاں اس کے اسپائیک نامی پروٹین ہی میں پائی گئی، جس نے اس وائرس کی بیماری پھیلانے کی شدت اور دیگر خصوصیات میں اضافہ کردیا۔ SARs-COV2وائرس کے ان ویرینٹ کے علاوہ کئی اور ایسی ویرینٹ بھی ہیں۔ جنہیںWHOنے اپنی تحقیق میں شامل کیا ہے۔واضح رہے کہSARs-COV2وائرس کے یہ ویرینٹ جن کو ان کی جینیاتی تبدیلی کے مطالعے اور نتیجتاً ہونے والی صلاحیتوں میں اضافے کے باعث خاص طور سے مشاہدے میں رکھا گیا ہے ،مگر کیوں کہ ان جینیاتی تبدیلیوں جن سے وائرس کے اندر بیماری پھیلانے کی طاقت میں اضافہ نہ ہوا ہو یا شاید وائرس کی طاقت میں کمی واقع ہوگئی ہو،ان وائرسز کا مطالعہ مزید نہیں کیا گیا۔
آخر میں یہ کہنا درست ہوگا کہ مسلسل ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور ان کی سرگرمیوں نے وائرس کے ارتقا اور نتیجتاً ہونے والے پھیلاؤکی رفتار کو بہت زیادہ تیز کردیا ہے اور ضرورت اس بات کی ہےکہ عالمی سطح پرZoonosisیعنی جانوروں سے انسانوں میں پھیلنے والی بیماریوں سے ممکنہ طور پر بچنے کے لئے اسے ادارے تشکیل دئیے جائیں جو کہ نہ صرف ماحولیاتی تبدیلیوں کے جانوروں پر اثرات اور ان میں ہونے والی بیماریوں خصوصاً وائرس سے ہونے والی بیماریوں کی جانچ کرسکیں اور ان وائرس کے انسانوں میں پھیلنے کے امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی کی روک تھام کے لئے مناسب حکمت عملی تیار کی جائے، جس میں ویکسین کی تیاری بھی شامل ہے،تا کہ آنے والی وباءسے بچائو ممکن ہو ۔