کورونا نے غریب کو خون کے آنسورُلادیئے | لاک ڈائون ٹھیک مگر پیٹ کی آگ کیسے بجھے ؟

ہمیں میڈیسن میں پڑھایا گیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی سماج میں 5 فیصد لوگ مجرم پیدا ہوتے ہیں، جو سماج کے اندر بدامنی اورنفرت پھیلاتے ہیں اور دنیا میں جتنے بھی جرائم ہیں،انہیں پھیلانے میں انہیں لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔دنیا میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان پانچ فیصد لوگوںمیں سے اگرکوئی بہت طاقتور ہو جائے اور وہ  اپنی بے انتہا صلاحیتوں کے بل پر کسی قوم کا لیڈر ہو جائے تو یہ لوگ سیاست میںگھس کراور زیادہ طاقتور ہو جاتے ہیںاور اپنے مجرمانہ ذہنیت کے بل بوتے پر اس سماج کو ہی متاثر نہیں کرتے بلکہ ان کا اثر پوری دنیا پر پڑتا ہے۔
بہت پیچھے نہ جاتے ہوئے ہم پچھلے70سے 80سال پہلے جرمنی میں ہٹلراور اٹلی میں مسولینی کی مثال پیش کر سکتے ہیں اور پچھلے 31سال میں ہمارے سامنے سابق امریکی صدر جارج بش دوم کی بھی مثال دی جاسکتی ہے،جس نے مغربی کولونیل پاور کے ساتھ مل کرعراق اور کئی دیگر ممالک کو تباہ وبرباد کر دیا۔مصر کا فوجی آمرالسیسی اور اسرائیل کا نتن یاہو اور امریکی صدر توآج سامنے کی مثالیںہیں۔اب تو حد ہی ہوگئی ہے، امریکی صدر نے توہمیں یعنی ہندوستان کو حکم دینا شروع کر دیاہے اور ہمارے داخلی امور میں پوری طرح دخل اندازی کی جارہی ہے۔ اس کی تازہ مثال ملیریا کے خلاف استعمال ہونے والی دوا کو دھمکی دے کرہندوستان سے منگوانے کا حکم دیا ہے، جسے مودی جی نے پورا بھی کر دیا ہے۔
یہاں تک تو ٹھیک تھا کہ اس نے ہندوستان میں تبلیغی جماعت سے متعلق ٹی وی چینلوں پرنفرت کی آگ بھڑکانے کے کام پرقدغن لگانے کا حکم دیاتھا، تبھی تو بی جے پی کے صدر جے پی نڈانے نفرت پھیلانے والوں کو ڈ انٹ پلائی تھی تاہم مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے میڈیاپر قدغن لگانے کے لئے حکومت آگے آتی تو کتنا اچھا ہوتا کیوں کہ یہ وقت نفرت پھیلانے کا نہیں بلکہ ملک کے تمام لوگوں کومل کر کورونا وائرس سے لڑنے کا ہے مگر کیا کیاجائے،ہمارے ملک کی ستم ظریفی یہی ہے۔
وزیراعظم نے ان لاکھوںلوگوں سے تو معافی مانگ لی، جو بھوک، غریبی اور نوکریوں سے نکالے گئے تھے،یا جو دہلی اور دوسری ریاستوں سے نکل کر یوپی بہار کی سرحدوں پر آگئے تھے۔مگر کیا اس معافی سے ان لوگوں کی زندگی واپس آجائے گی جو بھوکے پیاسے پیدل ہی گھرجاتے وقت راستے میں ہی دم توڑدیے یاجنھیںکئی سوکلومیٹرکاسفرپیدل ہی طے کرناپڑا!یہ منظرواقعی دل دوز تھے،اسے دیکھ کر دل بیٹھ جاتا ہے۔ پیدل سفر کرنے ارادہ یوں ہی نہیں کیاگیاہوگا۔حالات نے انھیں اس بات کے لیے مجبورکیاہوگا۔بھوکے مرنے پرلوگوں نے پیدل سفرکوترجیح دیا، کیوں کہ حکومت نے اچانک لاک ڈاؤن کاحکم صادر کردیااور یہ اعلان کردیا کہ جو جہاں ہے، وہیں رہے۔ نتیجتاً اس لوک ڈاؤن سے بے شمارلوگ متاثرہوگئے۔کیاحکومت نے اپنے اس فیصلے سے ملک کے عوام کوبڑی مشکلات میں نہیںڈال دیا ہے؟
حالانکہ ’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘ نے کورونا ’پنڈمک‘ کا اعلان فروری میںہی کر دیا تھا مگر ہندوستان میں 50دنوں بعد تالابندی کی گئی۔اتنی مہلت ملنے کے بعد بھی ہمارے یہاں نہ تومیڈیکل سہولتوں کوبڑھانے پردھیان دیاگیااور نہ ہی غریبوں کے بارے میں کوئی اسکیم بنائی گئی۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے کئی لوگوں کو توکھانے کے لالے پڑ رہے ہیں۔ جو لوگ دہاڑی پر مزدوری کرتے تھے ،روزکماکر اپنا اور اپنی فیملی کا پیٹ بھرتے تھے، ایسے لوگوں کے لیے حکومت نے کیااسکیم بنائی ہے؟رکشہ چلانے والے جوروز سواریاںڈھوکر پیسے کماتے تھے اور روزی روٹی چلاتے تھے، ان کے لیے کیاکیاگیا؟۔
ذرائع ابلاغ کے توسط سے ملنی والی اطلاعات کے مطابق لوگوں میں بے انتہابے چینی ہے۔ لوگ بھوکے مررہے ہیں۔ بعض مقامات پرپینے کے پانی اور کھانے کی ضروری اشیا بالکل ختم ہیں، وہ مدد کے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کاش کوئی انھیں پیٹ بھرنے کے لیے سامان دے جائے۔ایک ویڈیومیں دکھاگیاہے کہ ہندو بھائی کافی تعداد میںایک جگہ پھنسے ہوئے ہیں،ویڈیوکے مطابق وہ اترپردیش سے ہیں اور ذات کے پنڈت ہیں، عام دنوں میںمسلمانوں کے ہاتھ کاپانی پینا تک انھیں گوارا نہیں تھا، مگر ان حالات نے انھیں نہ صرف پانی بلکہ ان کے دیے ہوئے کھانے اورسامان کے ذریعہ زندگی بچانے پرمجبورکردیاہے۔
ٹی وی اور میڈیا میں چہرے چمکانے والے سیاست داں اور لیڈران صرف بیانات سے اپناکام چلارہے ہیں، انھیں ضرورت مندوں کا نہ توپہلے خیال تھا اور نہ اب ہے۔ یہ تو صرف دھرم اورمذہب کی سوداگری کرتے ہیں۔ یہ بات جتنا جلدی ملک کے عوام سمجھ لیں گے،اتناہی اچھاہوگا۔ مجھے لگتا ہے ان واقعات اور حالات سے ہمارے ہندوستان میں مثبت تبدیلی آئے گی اور لوگ غلط اورصحیح میں تمیز کرناضرورسیکھ لیں گے!۔اس وقت ہم ہندوستانی تن من دھن سے کورونا کی جنگ لڑ رہے ہیںاور جب تک ہم اس جنگ کو جیت نہیں لیتے تب تک اپنی جدّوجہد جاری رکھیں گے، چاہے ہمیں اس کے لیے اپنی جان تک کیوں نہ دینی پڑے۔ 
  رابطہ :  بٹلہ ہاؤس،جامعہ نگر،نئی دہلی25-
# : 9971730422