سرینگر//متحدہ مجلس علما جموں وکشمیرنے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے وفات پانے والے کلمہ گو مسلمان مردو عورت، بزرگ ، جوان اور بچے شہید حکمی کے درجے میں ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق مرحومین کی تجہیز و تکفین میں رکاوٹیں ڈالناحد درجہ افسوسناک اور قابل تشویش ہے ۔متحدہ مجلس علما جموںوکشمیر (جس کی سربراہی نظر بند رکھے گئے میرواعظ عمر فاروق کررہے ہیں) میں شامل تمام اہم اکائیوں دارالعلوم رحیمیہ ، مسلم پرسنل لاء بورڈ،انجمن شرعی شیعان، جمعیت اہلحدیث، جماعت اسلامی،کاروان اسلامی، اتحاد المسلمین، انجمن حمایت الاسلام،انجمن تبلیغ الاسلام،جمعیت ہمدانیہ،انجمن علمائے احناف،دارالعلوم قاسمیہ،دارالعلوم بلالیہ ، انجمن نصرۃ الاسلام، انجمن مظہر الحق، انجمن ائمہ و مشائخ کشمیر،مسلم وقف بورڈ، دارالعلوم نقشبندیہ ، دارالعلوم رشیدیہ ،اہلبیت فائونڈیشن، مدرسہ کنز العلوم ،پیروان ولایت، انجمن اوقاف جامع مسجد،اوقاف اسلامیہ کھرم سرہامہ ، انجمن تنظیم المکاتب ، محمدی ٹرسٹ اور دیگر جملہ معاصر دینی، ملی ، سماجی اور تعلیمی انجمنوں نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں اس امر پر گہری فکر و تشویش کا اظہار کیا ہے کہ موجودہ مہلک اور سنگین وبا کووڈ ۔19سے متاثرہ افراد جن کی ہسپتالوں میں وفات ہو جاتی ہے ،انہیں بعض مقامی مسلمان اپنے قبرستانوں میں تدفین کی اجازت نہیں دیتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کی تجہیز و تکفین میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں جو حد درجہ افسوسناک اور قابل تشویش ہے ۔بیان کے مطابق مجلس علماء نے واضح کیا ہے کہ جب کہ قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں بین الاقوامی سطح کے سرکردہ علماء ، مفتیان کرام اور ماہرین شریعت اسلامی نے یہ فتویٰ پہلے ہی جاری کردیا ہے کہ کورونا وائرس سے وفات پانے والے کلمہ گو مسلمان مردو عورت، بزرگ ، جوان اور بچے شہید حکمی کے درجے میں ہیں اور موجودہ وائرس کی وبا طاعون ہی کی ایک صورت ہے اور اس طرح کے وبائی امراض سے وفات پانے والے مسلمان بلا شبہ شہید کے زمرے میں آتے ہیں۔بیان کے مطابق لہٰذا جو مسلما ن موجودہ وبا سے جاں بحق ہوتا ہے اُسے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے پورے ادب و احترا م اور اکرام و اعزاز کے ساتھ باقاعدہ نماز جنازہ پڑھ کر تدفین اور تکفین عمل میں لایا جائے تاہم اس سلسلے میں ماہرین شریعت اور مستند طبی ماہرین کے مطابق کووڈ ۱۹ کی وجہ سے شہید ہوئے افراد کو اگر غسل دینا ممکن نہ ہو تو پائپ کے ذریعہ ہلکے سے پانی کا چھڑکائو کیا جائے یا دستانے لگاکرمیت کو مسح کیا جائے یا میت کو تیمم کرایا جائے۔کفن کی جگہ مرحوم کو جو لباس کا کِٹ پہنایا جاتا ہے اُسے ہی کفن تصور کیا جائے البتہ اگر وارثین بطور احتیاط کوئی چادر وغیرہ مہیا کرسکیں تو مناسب ہے ورنہ ضروری نہیں ہے۔ مرحوم کے گھر والوں کے بغیر جو اکثر کورنٹین میں رکھے جاتے ہیں ،محلہ کمیٹی کے افراد جنازے کی نماز کا اہتمام سماجی فاصلہ برقرار رکھ کر انجام دیا جائے۔بیان کے مطابق اگر تابوت سمیت دفن کرنا ہے تو وہ ہلکے گتیّ یا پلائی ووڈ وغیرہ کا ہو ،جو جلد سے جلد مٹی میں تحلیل ہو سکے ۔ اگرچہ ماہرین کی یہ بھی رائے ہے کہ مرنے کے بعد میت میں وائرس تین گھنٹے تک یا زیادہ سے زیادہ بارہ گھنٹے تک رہنے کا امکان ہے۔بیان میں مزید کہا گیا کہ اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ کووڈ۔19 مرنے والے افراد کو اپنے اپنے مذہبی عقائد اور احکام کے مطابق سپرد خاک کیا جانا چاہئے۔مجلس علماء نے بعض حلقوں اور علاقوںکی جانب سے اس طرح کی شکایات آنے پر تمام متعلقین ، علماء ، ائمہ ، دانشوروں اور معزز شہریوںکو سختی سے تلقین کی ہے کہ وہ اس حوالے سے اسلامی اور دینی موقف کی وضاحت اور تشہیر کرتے ہوئے عوام میں بیداری کی مہم چلائیں۔
کورونا سے مرنے والے کلمہ گو شہید حکمی: متحدہ مجلس علماء
