کورونا بحران اور سرکار و عوام

ایک ایسے وقت جب کورونا کا بحران جموںوکشمیر خاص کر وادیٔ کشمیر میں شدید تر ہوتا چلا جارہا ہے اور لگاتار کورونا متاثرین اور کورونا اموات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہے، حکومت اور ڈاکٹروں کی جانب سے مسلسل اس کا ملبہ عام لوگوں پر گرانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔اس بات سے قطعی انکار نہیں کہ موجود ہ صورتحال کیلئے لوگ بھی ذمہ دار ہیں لیکن حکام اور طبی شعبہ سے جڑے ہمارے ڈاکٹر اور طبی منتظمین بھی اپنی ذمہ داریوں سے پلو جھاڑ نہیں سکتے ہیں۔مانا کہ لوگوں کی جانب سے غفلت برتی گئی اور کووڈ پروٹوکول کا لحاظ کافی حد تک نہیں رکھاگیا، جس کی وجہ سے کورونا بے قابو ہوچکا ہے لیکن اگر حکومتی عدم توجہی اور نااہلی کے معاملات بھی گنے جائیںتو فہرست کافی طویل ہوجائے گی۔آج بھی جب معاملات قابو سے باہر ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں ،ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت ابھی بھی خواب غفلت میں ہے اور وہ کسی خدائی مدد کی منتظر ہے ۔بے شک موجودہ صورتحال سے نکالنے والی خدا کی ہی ذات ہے لیکن کووڈ کے حوالے سے جو ضابطہ کار عالمی ادارہ صحت سے لیکر ملکی متعلقہ اداروں کی جانب سے مقرر کیا گیا ہے ،اُس کی خود حکومتی سطح پر دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔اگر سرکاری شفاخانوںکی بات کی جائے تو تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سرکاری ہسپتال بھی کورونا انفیکشن کے گڑھ بن چکے ہیں۔ایسی بیسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں جہاں اچھے بھلے لوگ ہسپتالوں میں کورونا کا شکار ہوگئے کیونکہ ہسپتالوں میں اُن ضوابط پر عمل نہیں ہورہا تھا جو انہوںنے ہی دوسروں کیلئے وضع کئے تھے ۔ہسپتالوں میں جسمانی دوریوں کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھاجارہا ہے ۔اوپی ڈی میں ڈاکٹروںکے کمروں سے لیکر وارڈوں اور لیبارٹری تک ہر جگہ بھیڑ رہتی ہے ۔کچھ ایک جگہوںسے ایسی بھی اطلاعات آرہی ہیں کہ مریض بھی گڑ مڑ ہوچکے ہیں اور زمرہ بندی کا کوئی تصور نہیں ہے ۔جب ایسی صورتحال ہو تو عام آدمی کیا کہے ۔یہ ویسی ہی بات ہوئی کہ دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت ۔اگر مان لیا جائے کہ باہر سڑکوں اور بازاوں میں بھیڑ بھاڑ پر کوئی کنٹرول نہیں ہے حالانکہ ہونا چاہئے تھا کیونکہ پولیس اسی کیلئے ہے لیکن ہسپتالوںمیں حکام کو ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنانے سے کس نے روکا ہے ۔دراصل حکام یہ بات تسلیم نہیں کرینگے کہ وہ معاملات کو کنٹرول کرنے میں سنجیدہ ہی نہیںہیں۔یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہسپتالوں میں طبی و نیم طبی عملہ کی قلت ہے اور تیمارداروں کو مجبوراً مریضوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے کیونکہ جب نرسیں اور دیگر نیم طبی عملہ معقول تعداد میں دستیاب ہی نہیں ہے تو اُن کا کام تیمارداروںکو خود کرنا پڑر ہا ہے ۔ گزشتہ چار ماہ سے ہم چِلا تے آرہے ہیں کہ طبی ڈھانچہ کو اپ گریڈ کریں لیکن افسوس کے ساتھ کہناپڑرہا ہے کہ یہاں صرف کاغذی گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں اور عملی طور پرکچھ ہوتا نہیں ہے ۔اگر ایسا ہوتا تو ان چار ماہ میں نہ صرف عارضی بنیادوں پر طبی و نیم طبی عملہ کی بھرتی عمل میں لاکر افرادی قوت کو مطلوبہ سطح تک پہنچایاگیا ہوتا بلکہ انتہائی نامکتفی ڈھانچہ کو بھی اَپ گریڈ کرکے موجودہ دشوار صورتحال سے نمٹنے کے اہل بنایا گیا ہوتا لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔اب اگر قرنطینہ مراکز کی کریں تو اُن کا بھی خدا ہی حافظ ہے ۔ویسے تو اب بہت سے قرنطینہ مراکز میں باضابطہ قیام و طعام کیلئے اخراجات طلب کرتے ہیں لیکن ان میں بھی معیاری سہولیات کا فقدان ہے ۔قرنطینہ مراکز میں مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ہے۔ غیر معیاری کھانے کی شکایات عام ہیں ۔مریضوںکے درمیان جسمانی دوریوں کا کوئی تصور نہیں ہے اور حد تو یہ ہے کہ یہ قرنطینہ مراکز کم تفریحی مراکز زیادہ لگ رہے ہیں کیونکہ ان میں صبح اور شام ملاقاتیوںکی بھیڑ لگی رہتی ہے۔قرنطین کئے گئے لوگوںکی سنیں تو ایک افسوسناک منظر ابھر کر سامنے آتا ہے کیونکہ اُنکا مانناہے کہ انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ان مراکز میں ٹھونسا جاتا ہے جس کے بعد ان کی کوئی خبر تک نہیں لیتا ۔بے شک بغیر علامات مریضوں کو قرنطینہ مراکز میں ہی داخل کرنا دانشمندی ہے کیونکہ اس سے ہسپتال غیر ضروری بوجھ سے بچ سکتے ہیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ مڑ کر ان مراکز کی طرف دیکھیں بھی نہیں۔صفائی کا فقدان کئی مراکز میں کھانا باہر ہوٹلوں سے منگوایا جارہا ہے جو کھانے کے لائق بھی نہیںہوتا ہے ۔اس کے بعد بھی اگر یہ کہا جائے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے تو بات ہضم ہونے والی نہیں ہے ۔اگر قرنطینہ مراکز انفیکشن کے پھیلائو کو روکنے کیلئے ہیں تو کیا اُن سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ان مراکز کو عملی طور تفریحی مراکز میں کیوں کر تبدیل کیاگیا ہے اور وہاں نگرانی کا کوئی نظام میسر کیوں نہیںہے ؟۔ذمہ داریوں سے پلو جھاڑنا آسان ہے لیکن ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا انتہائی ہی مشکل ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی نااہلی کا نزلہ عوام پر گرانے کی بجائے ارباب اقتدار اپنی کوتاہیوں کوتسلیم کریں اور بنا کسی مزید تاخیر کے اُن کوتاہیوں کو دور کرنے کی سعی کریں کیونکہ جتنی جلدی اصلاح احوال ہوگی، اتنا ہی ہمارا ردعمل بہتر ہوسکتا ہے اور جتنا وقت ہم الزام اور جوابی الزامات کے کھیل میں ضائع کرتے رہیںگے ،اُتنا ہی ہم اصل ہدف سے دور جاتے رہیں گے، جس کے تباہ کن نتائج نکل سکتے ہیں۔اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ موجودہ تباہی کیلئے عوام کو مسلسل ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے حکام عوام سے تعاون طلب کرتے ہوئے موجودہ بحران سے نمٹنے کا ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرکے اس پر صد فیصد عمل درآمد بھی یقینی بنائیں گے تاکہ کورونا کی وباء کا کوئی تدارک کیا جاسکے۔