کوئی بھی آفت متاثرہ علاقے اور لوگوں کو ویسا نہیں چھوڑتی جیسے وہ اس آفت سے پہلے ہوتے ہیں اور کورونا آفت جیسی ناگہانی آفت نے یقینی طور پر کسی مخصوص علاقہ کو نہیں بلکہ ساری دنیا کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے ۔اس آفت سے جو گہرے گھائو لگے ہیں ،اُن کو بھرنے اور ایک نئی شروعات کرنے میں بہت زیادہ وقت اور کوششیں درکار ہیں تاہم وہ اتنا آسان نہیں ہوگا اور اس میں بہت سارا وقت لگے گا کیونکہ کووڈ وباء کی وجہ سے عالم انسانیت نفسیاتی ،مالی اور سماجی اعتبار سے بالکل ہل چکی ہے ۔ ہر سطح پر ٹوٹ پھوٹ کے اثرات جلد ختم ہونے والے نہیں ہیں۔ یقینا خود سے قطعی نہیں ہونگے۔ ہمیں بنی نوع انسان کو کورونا وباء کی وجہ سے پیدا ہونے ان شدید ترین بحرانوں سے نکالنے کے لئے ادارہ جاتی کوششوں کی ضرورت ہوگی ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک بار معیشت کے پہیے حرکت کرنا شروع کردیں گے تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اگرچہ یہ ایک طرح سے کافی حد تک صحیح ہے کیونکہ معیشت کی بحالی کے بغیر کچھ بھی خاص فرق نہیں ڈالنے والا ہے ، لیکن ٹھوس بحالی کی جانب سفر شروع کرنے کے لئے کچھ ساختی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس وباء سے ظاہر ہوچکا ہے کہ موجودہ سیاست کے سانچے میں کچھ داخلی خامیاں موجود ہیں۔ یہ بنی نوع انسان کو تقسیم کرتی ہے اور صرف اور صرف مفاد پرستی کے زاویے سے ہی مسائل کو دیکھتی ہے۔ بہتر دنیا کے لئے ہمیں اس ذہنیت کو بدلنے کی خاطر نئے سوچ اور اپروچ کی ضرورت ہوگی۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ عالمی وسائل کو کس طرح کی سرگرمیوں میں ضائع کیا جاتا ہے جس کا مقصد دوسروں کو تباہ کرنا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں صحت کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ تقریباً تمام ممالک اس قدر اہم عوامی خدمت پر بہت کم خرچ کررہے ہیں۔ پوری دنیا میں صحت کا نظام ایکسپوژ ہوگیا ،یہاں تک کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی کورونا وباء کے ساتھ صحت کا ڈھانچہ جواب دے گیا اور امریکہ سے لیکر سبھی مغربی و یورپی ممالک کو ہاتھ کھڑا کرنے پڑے۔جہاں تک ترقی پذیر یا تیسری دنیا کے ممالک کا تعلق ہے تو وہاں اس وباء کی وجہ سے لوگ کس طرح آکسیجن کے ایک ایک سیلنڈر کیلئے ترستے رہے اور آکسیجن کی عدم دستیابی میں جان دیتے رہے ،وہ رونگٹے کھڑے کردینے والے مناظر پوری دنیا نے دیکھ لئے ۔بلاشبہ اس آفت کی وجہ سے اصلاح احوال کی کوششیں شروع ہوئیں اور صحت کے اخراجات میں ہر جگہ اضافہ کیاگیا تاہم اس کے باوجود بھی وہ ناکافی ہے ۔ انسانیت بہتر ہوگی اگر مفکرین اور سیاسی رہنما اس سنگین جرم کو اجاگر کرتے رہیں گے اور حکومتوں کو اس شعبے پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے پر مجبور کریںگے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ عالمی امور اس میں شامل لوگوں پر پڑنے والے اثرات سے قطع نظرکس طرح حل کئے جاتے ہیں۔ سیاسی اور تذویراتی نظریے لوگوں کو مکمل طور پر بے خبر رکھتے ہوئے تیار کئے جاتے ہیں۔سامان حرب و ضرب پر پورے ملک کے وسائل صرف کئے جاتے ہیں اور کسی سے پوچھا تک نہیں جاتا ہے ۔مانا کہ سیاسی اور تذویراتی مسائل اہم ہیںاور ان سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی لیکن مہذب اور جمہوری دنیا میں یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بارے میں لوگوں کے ٹیکس کا پیسہ بم و بارود بنانے پر خرچ کریں اور لوگوںسے پوچھیں تک گے بھی نہیں۔اگر عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں تو عوام کو اعتماد میں لئے بغیر ان کی تقدیر کے فیصلے نہیں ہونے چاہئیں اور کوشش کی جانی چاہئے کہ لوگوں کے ٹیکس سے وصول ہونے والی زیادہ سے زیاد ہ رقم لوگوں کی بہبود پر ہی خرچ ہو۔ ایک آخری بات جواس وبائی مرض نے سکھائی ہے،وہ یہ ہے کہ اگر ہم ماحولیات کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوئے تو اس کے اثرات پوری دنیا کے لئے خطرناک ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا ہماری ذمہ داریاں ، بطور افراد ، بطور ادارہ ، اور عالمی رہنما کئی گنا ہیں اور ہمیں انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے جتن کرنے چاہئیں کیونکہ ہمیں ایک خاص مقصد کے تحت تخلیق کیاگیا ہے اور وہ مقصد انسانیت کی فلاح وبہود ہے ۔