کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا

شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ عاشق کی سواری ہے بڑی دھوم سے نکلے۔مگر ملک کشمیر مقیم  وردی پوشوں نے جب بیروہبڈگام کوانسان ڈھال بنا کر فاروق ڈار کی سواری دھوم سے نکالی تو ایسے نکالی کہ کہیں وہ کشمیر کو بھارت سے الگ نہ کرپائے اور اگر ایسا ہوا تو اٹوٹ انگ کے راگ میں سر تال بکھر جائیں گے، یعنی سیاسی سا،رے،گا، ما ،پا کو پھر جوڑنے میں فیوکال کیا ناگپوری پرچارک کا بھاشن کیا، دلی دربار کی سرجیکل اسٹرائک بھی کم پڑ جائے گی۔یوں میڈ ان انڈیا رسی کا استعمال کر بھارت کو کشمیر سے کس کر باندھا گیا تاکہ کوئی گانٹھ کمزور نہ پڑے۔بھلے کشمیر کے ساڑھے تین ڈسٹرکٹ سر درد پیدا کئے ہوئے ہیں اور دیوانہ وار لاٹھی پتھر لے کر سڑک پر نکلتے ہیں اور سات لاکھ فوجا اور نیم فوجی دستوں کو  للکارتے ہیں، زور سے آواز لگاتے ہیں   ع
 تو تیز آزما ہم جگر آزمائیں 
ایسے میں نہ جانے کتنے جگر چھلنی ہوگئے مگر اہل کشمیر ہیں کہ کھڑے ہیں ،اپنی بات پر اڑے ہیں۔اور وہ جو بے چارہ تین میں تھا نہ تیرہ میں ،  حد تو یہ کہ بھارتی سم وِدھان میں پکا یقین رکھ کر ووٹ بھی ڈال آیا تھا ،کو اپنی سواری کے بانٹ پر رسیوں سے باندھ دیا گیا کہ بھائی عیش کرو بھلے عاشقی معشوقی کا اس وقت ٹایم نہیں، سر پر باندھنے کے لئے سبز دستار نہیں کہ خواتین ونہ وُن گاتی ،سبز دستارس خدا چھُی راضی پاکستانک غازی آو۔تاریخ گواہ ہے ہم نے یہی کچھ قائد اعظم کے لئے گایا اور پھر دروغ بر گردن راوی جس نے اطلاع دی کہ مرار جی ڈیسائی کے لئے بھی گایا کیونکہ ہم جب اَڑتے ہیں تو سینہ سپر کرجاتے ہیں۔جب گاتے ہیں تو دل کھول کر گاتے ہیں۔جب ناچتے ہیں تو تھرک تھرک کر ناچتے ہیں ،بھلے عمر کے آخری پڑائو پر پہنچے ہوں مگر جوان سال ایکٹرس کو چیلنج دیتے ہیں، ناچ میری بلبل کہ پیسہ ملے گا۔ بھلے ہمارے لئے ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا ثابت ہو لیکن ہل والے قائد ثانی نے یہ ذمہ داری اپنے اوپر لی ہے یہ اور بات ایک فاروق ناچ میں اپنے جوہر دکھائے لیکن دوسرا  فاروق اپنادھندہ کرتا ہے، عام خام بندہ ہے اس کے لئے بنت کشمیر کیوں نہ گاتیں لیکن میجر گوگوئی سبز دستار کا انتظام نہ کرسکا۔اس کے لئے اس کی سر زنش نہیں کی گئی بلکہ منوں ٹنوں مبارکباد دی گئی کہ فوجی ہو تو ایسا ۔آسام میں اسے مغلوں کے خلاف جنگ لڑوایا گیا، سپہ سالار نے نت نئے طور طریقوں کا موجد بتایا، فاضل وکیل سرکار نے اعلان کیا عدالتوں میں وہ خود اس کا دفاع کرے گا تاکہ کوئی عدالتی پتھر اس کے سر نہ لگے اور ادھر جامبو لوچن کی رسد گاہ میں صدر وکیلان نے ایجی ٹیشن کی دھمکی دی اگر میجر کے خلاف ایف آئی آر واپس نہ لیا گیایعنی بھارت ورش کے کونے کونے سے خبر ہے کہ فوجی ساڑھا شیرا ہے باقی ہیرا پھیرا ہے ۔ ملک کشمیر میرا ہے اور فاروق ڈار بیچارہ ہے اور بیچاروں کے بشری حقوق نہیں ہوتے ۔انہیں زندگی اسی لئے عطا ہوئی ہے کہ وہ ارباب اختیار کے دم چھلے بنے رہیں، اور جب ان کی ضرورت ہو تو صاحبان اقتدار و اختیار کے لئے سامان عیش، میڈل، پروموشن کا ذریعہ بن پائیں۔میڈلوں کے لئے یہاں کتنے فاروق  سولی چڑھائے گئے گنتی کریں تو سولہ سوموار چاہیں ۔رحمان پڈر کیا، ظہور دلال کیا، وامق فاروق کیا، طفیل متو کیا ،جمعہ خان کیا اور ہر پل کوئی نہ کوئی نئی کہانی تحریر ہوتی ہے جس میں ایک مرکزی کردار کوشر بچور(غریب کشمیری) ہے اور دوسرا صاحب اقتدار یعنی کل جو رعب دار تھے، ساہوکار تھے، تھانیدار تھے تب کسی نے چوں و چرا نہ کی اب کی بار جو آر پار مودی سرکار ہے اس میں کس لئے چیخ و پکار کا کھیل کھیلا جائے۔اور سپہ سالار جو ہے وہ سونے سے پہلے جاگنے کے بعد، چلنے سے پہلے رکنے کے بعد ، کھانے سے پہلے پینے کے بعد بس میجر گوگوئی کی تعریف میں نئی نئی کہانیاں جوڑ رہا ہے۔ان کہانیوں میں مونچھوں پر تائو ہے، طاقت کا جمائو ہے، الفاظ کا رعب ہے، دھمکیوں کا خوف ہے کہ ہمت ہے تو پتھروں کے بدلے ہتھیار لیکر آئو۔شاید اس لئے  ؎
 جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھی دھڑکنیں 
ان کو زبان ملی تو ہم پر برس پڑیں
کسے نہیں معلوم سپہ سالار کے پاس بڑے ہتھیار ہیں وہ تو ہم پچیس سال سے چھاتی پر ، ٹانگوں پر ، سر پر، کھوپڑی پر یعنی پورے جسم پر لیتے رہے ہیں لیکن سالار کو بھی علم ہے کہ اس کا دل و دماغ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔شاید یہی سمجھ کر سالار نے اعلان کیا کہ فوج سے ڈرنا ضروری ہے البتہ یہ ملک کشمیر والے اب ڈر کو دھوئیں کی مانند اڑا چکے ہیں۔ مطلب ہم جب صاحب اختیار لوگوں کے چنگل میں پھنس کر ہڈیاں تڑواتے ہیں تو درد سہنے کے لئے دوائی نہیں بلکہ حقے کے چند کش لیتے ہیں۔ہم جب کریک ڈائون میں زندگی دائو پر دیکھتے ہیں تو چپکے سے سگریٹ کے دو چار کش لگا کر پریشانی سے چھٹکارہ پاتے ہیں۔جب سرکاری دفتر یا منسٹر صاحب سے ملنے جاتے ہیں تو سگریٹ ماچس جمع کرتے ہیں اور واپسی پر فائل یا درخواست کو نہیں دیکھتے بلکہ سکورٹی اہلکار وں سے سگریٹ ماچس واپس مانگتے ہیںکیونکہ یہی دھوئیں کا منبع ہماری ہر پریشانی کا علاج بنتا ہے۔ہم نے صدیوں سے فکر و پریشانی کا علاج خود ہی دریافت کیا اور اس علاج کا Patent یعنی جملہ حقوق ہمارے پاس محفوظ ہیں،موجود ہیں۔ہم ہی تو ہیں جو ہر فکر دھویں میں اڑاتے ہیںاور اسی دھویں کے دوران شام کو ٹیلی وژن پر گالی گلوچ سنتے ہیں ۔شور شرابہ سنتے ہیں کہ کان پڑی آواز نہیں سمجھائی دیتی،کیونکہ اب کی بار مودی سرکار نے پہلے ہی  ٹی وی دنگل کا سارا منگل اپنے نا م کروایا ہے پھر بھی  اے سی کمروں میں بیٹھے مودی کے درندر صحافی فوجی ساڑھا شیرا ہے کی ڈھولک بجاتے ہیں ،ان کے لئے مالائیں سجاتے ہیں، نیشنلزم کا بھونپو بجاتے ہیں ، خود ہی وکیل ،منصف اور تارا مسیح بن کر جس کا جی چاہے شمشان اور قبرستان سجاتے ہیں  ؎
ایک حمام میں تبدیل ہوئی ہے دنیا
سب ہی ننگے ہیں کسے دیکھ کے شرمائوں میں
مٹتی ہوئی دنیا کا سماں دیکھ رہا ہوں
بیگانہ وش و نوحہ کناں دیکھ رہا ہوں
(سلیمان اریب)
ایسے میں ایمنسٹی ،حریت تو بپھر گئے کہ یہ تو سراسر بشری حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔مانا کہ وہ سچ بول رہے ہیں لیکن بیچ میں قلم دوات والے بھی اپنی بات کہہ بیٹھے کہ ہم ایسی ایکشن کو پسند نہیں کرتے ۔ہماری تو گدگدی ہوئی ،ہم تو کھلکھلا کر ہنس پڑے ۔ ہم تو سوچنے لگے کہ اچھا قلم دوات والوں کی پسند نا پسند بھی کہیں خاطر میں لائی جاتی ہے ، بھائی ہمیں تو آج تک پتہ نہیں تھا ۔آپ نے جانکاری دی اس کے لئے شکریہ۔اپنے اسلاف نے کیا بات کہی تھی کہ گُرن لاگان نال خر دوران پڈَر ہتھ(گھوڑوں کے ٹاپوں پر نال لگائے جاتے ہیں اور گدھے اپنی ٹانگیں آگے کرتے ہیں)۔ایسے میں بابو بھائی بھی میدان عمل میں کود پڑا کہ دے مائلا ارون دھتی رائے کو رسیوں سے باندھ کر بانٹ پر بٹھائو ۔واہ مائلا کیا طریقہ نکالا ہے!!!
ہم تو کچھ اور سمجھے تھے کہ یہ بچے سکول کیوں نہیں جاتے ۔دروغ بر گردن راوی جس نے یہ بتایا کہ سکولی بچے سکول جانے کے ڈر سے اپنی عیدی میں سے پیسے بچا کر ادھر ادھر خرچ کرتے ہیں ۔کیا پتہ وہی سنگ بازوںکی بھی مالی امداد کرتے ہوں کہ بھائی صاحب پتھر مارتے چلو ہم اسکول سے بچ جائیں گے۔بھاری اسکولی بیگ سے نجات ملے گی کہ یہ دنیا کا سب سے بھاری بوجھ ہے۔یہاں جو الزام ہے کہ مملکت خداداد سے پیسہ سنگبازی کے لئے آتا ہے ،وہ تو کہتے ہیں کہ آزادی کے متوالے ہیں اسی لئے  ؎ 
جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے 
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
جب ہم اسکول میں تھے تو گائے کو پالتو جانور کہا جاتا تھا لیکن اب کی بار راجستھان ہائی کورٹ کے جج صاحب نے سبکدوشی کے روز اس بات کا حکم صادر کردیا کہ گائے کو قومی جانور بنایا جائے۔اس لئے کہ اس میں ۳۳کروڑ دیوی دیوتا موجود ہیں۔اکیلا جانور ہے جو آکسیجن پیتا اور چھوڑتا ہے اور اس کے گوبر سے کالرا کے جراثیم مر جاتے ہیں۔اس کے سینگ کا  سمک شعاعیں جذب کرکے انسانیت کی بہت خدمت کرتے ہیں۔ بات سکولی بچوں کی چل رہی تھی وہ بیچارے بھی کیا کریں کتنا یاد رکھیں اور کس قدر بھول جائیں۔سال بھر انہیں سمجھایا گیا کہ گائے ایک پالتو جانور ہے لیکن اب سال ختم ہونے کے وقت انہیں مخمصے میں ڈالا گیا کہ یہ قومی جانور ہے۔سال بھر وہ یاد کرتے رہے اور سیکھتے رہے کہ اس کی چار ٹانگیں ہیں جن کے سہارے وہ چلتی ہے لیکن اب پتہ چلا کہ ملک بھر میں اس کے کروڑوں بھکت ہیں جو اسے چلنے پھرنے نہیں دیتے بلکہ اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں ۔یہ بھکت اپنی ماں کی کوئی قدر کریں نہ کریں یا اسے بڑھاپے میں آشرم چھوڑ آئیں لیکن گئو ماتا جان کر اس کی بلائیں لیتے ہیں ،اس کی تعریف میں بھجن گاتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں۔بچوں کو تو معلوم تھا کہ کسی بیماری کے وقت ڈاکٹر حکیم یا وید کے پاس جا کر اس سے دوائی لینے کی ضرورت ہے لیکن اب پتہ چلا کہ گائے کا پیشاب پینے سے ساری بیماریاں دور ہوتی ہیں ۔اس کے چلتے بابا رام دیو میدان عمل میں کود کر دس ہزار کروڑ کی پتنجلی بازار میں لے آیا اور جب بابا جی سے کہیں کہ تمہارے پتنجلی تجزیے میں فیل ہوتے ہیں تو وہ آنکھ ماردیتے ہیں۔ہم تو تب حیران ہوئے جب راجستھان ہائی کورٹ نے اعلان کردیا کہ گائے کے اندر ۳۳ کروڑ دیوی دیوتا موجود ہیں ۔ یہ تو عدالت عالیہ کا بیان ہے اور ہم اس کی مخالفت کرتے ہوئے حکم عدولی کے مرتکب نہیں ہو سکتے ۔ ہم نے لاکھ کے نوٹ بنڈل گنتے مشینوں کا استعمال بنکوں میں ہوتے دیکھا ۔خو دہم دس ہزار گنتے گنتے تھک جاتے ہیں لیکن دیوی دیوتا گننے کے لئے کون سا کمپیوٹر استعمال ہوا اس پر ہم انگشت بدندان ہیں، پریشان ہیں۔یہاں تو انسان گننے کے لئے مردم شماری بھی دس دس سال بعد کی جاتی ہے لیکن یہ دیوی دیوتائوں کی شماری کس طرح ترنت کر لی گئی؟اب سمجھا اصل میں اس کے اندر دیوی دیوتا دودھ بناتے اور نکالنے میں مدد کرتے ہیں۔سکول میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس کے دو سینگ ہوتے ہیں جو یہ اپنا دفاع کرنے میں استعمال کرتی ہے، اب پتہ چلا کہ دراصل مضر صحت کا  سمک ریز جذب کرنے میں ان کا استعمال ہوتا ہے ۔ جانداروں کے بارے میں آکسیجن پینا اور کاربن ڈائی آکسائڈ چھوڑنا سالہا سال سے سنتے چلے آر ہے ہیں لیکن گائے تو آکسیجن پینے کے ساتھ چھوڑتی بھی ہے ۔گائے کے گوبر سے کالرا کے جراثیم مرجاتے ہیں یہ بھی بڑی اہم سائنسی دریافت ہے یعنی اب کی بار مودی سرکار دو دو نوبل انعام جیتنے والی ہے اس کے لئے پیشگی مبارک باد۔
گائے تو پہلے سے ماتا تھی لیکن اب وہ قومی ماتا بن جانے کے قریب ہے ایسے میں ہمیں قومی پتا کی فکر لگی ہے یعنی فادر آف دی نیشن کا منصب بدل بھی سکتا ہے۔اتنا ہی نہیں شیر قومی جانور تھا لیکن اب اسے بھی اپنی پوزیشن سے نیچے دھکیلا جائے گا ۔شیر اور گائے کی آزادانہ جنگ میں کبھی گائے شیر کے سامنے ٹک نہیں پائی لیکن سیاسی لڑائی میں بھکتوں نے ووٹ دے کراور عدلیہ کے سبب شیر کی کرسی جاتی رہی ۔وہ بیچارہ اب دھاڑ کر کرے گا کیا ؟اپنے ملک کشمیر میں بھی سیاسی شیر ڈھائی سال سے دھاڑنے کی کوشش میں ہیں لیکن ان کی آوازیں حلق سے نہیں نکل پا رہی۔اسی لئے وہ گورنر راج کی دہائی دیتے رہے ہی لیکن کوئی سن نہیں پا رہا۔
یہ اسکولی بچے گائے پر مضمون کیا لکھیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ گائے کالرا، کاسمک ریز، لکڑی وغیرہ کچھ بچائے نہ بچائے، ان لوگوں کی کرسی بچا سکتی ہے جنہوں نے سب کا ساتھ سب کا وکاس ، بنک اکاوئنٹ میںپندرہ پندرہ لاکھ روپے ، نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا، ان کی سرکار ِ مضطر وبے خبر ضرور بچائے گی۔
(رابط[email protected]/9419009169  )  
