کم ظرفی مرض ہی نہیں ہے بلکہ ایک مہلک مرض ہے ،جسے یہ بیماری لگ جاتی ہے وہ کہیں کا نہیں رہتا۔ظرف دراصل برتن یا کشکول کو کہتے ہیں ،ایسا برتن جس میں انسان اپنا وقار، عزت، شہرت، حوصلہ افزائی ،اقتدار یہاں تک کہ دولت سنبھال لیتا ہے۔ کم ظرف انسان کے پاس یہ سب سنبھانے کے لیے برتن ہی نہیں ہوتا ہے، ایسے انسان کو اگر ذرا سی بھی عزت مل جاتی ہے، اقتدار مل جاتا ہے، شہرت مل جاتی ہے تو وہ فوراَ چھلک پڑتا ہے اور اپنا آپا کھو دیتا ہے۔ کم ظرف انسان دوراندیشی سے کوسوں دور ہوتا ہے، اس کی نظر اس کے پاؤں سے آگے نہیں بڑھتی ۔وہ اپنے چہرے پر انکساری اور عاجزی بھی سجا لیتا ہے لیکن یہ سب عارضی بلکہ دکھاوا ہوتا ہے ۔اس کے دل و دماغ میں کچھ اور ہی چل رہا ہوتا ہے، وہ ہمیشہ حسد کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے، اس سے دوسرے کی ترقی یا عزت دیکھی نہیں جاتی ہے اور کم ظرف کو جب کبھی موقع ملتا ہے، وہ پنجہ مار لیتا ہے ،وہ دوسروں کو ستانے تنگ کرنے یا نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ۔ ایسا کرنے کے بعد اسے تکلیف، دکھ یا ندامت نہیں ہوتی بلکہ یہ سب کرنے کو وہ اپنی کامیابی گردانتا ہے۔ دراصل اس کے دل و دماغ کو کم ظرفی کی مہلک بیماری لگ گئی ہوتی ہے۔ایسا شخص اگر کبھی کسی پر احسان کرتا بھی ہے، وہ اس احسان کو جتاتا رہتا ہے اور تب تک ڈھنڈورا پیٹتا رہتا ہے جب تک اگلا بندہ بدنام اور رُسوا نہ ہو جائے۔ اس شخص سے کوئی مدد بھی لینا پسند نہیں کرتا ہے نہ ہی کوئی اس کا احسان لینا پسند کرتا ہے۔کم ظرف انسان جہاں بھی بات کرتا ہے، اپنی بڑھائی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش میں رہتا ہے۔ ایسا شخص اپنے بارے میں کم اور دوسروں کے بارے میں زیادہ سوچتا ہے۔ایسے شخص کو کبھی اطمنان اور سکون نصیب نہیں ہوتا ، بلکہ دوسروں کے بارے میں سوچ سوچ کر یہ شخص اپنا سکون گنوا دیتا ہے۔مصیبت یہ ہے کہ ایسا شخص ہر ایک میں اپنے آپ کو ہی تلاش کرتا ہے، اُسے لگتا ہے کہ ہر شخص اس جیسا ہی ہے۔کم ظرف انسان مثبت سوچ سے کوسوں دور ہوتا ہے بلکہ وہ ہر بات میں منفی پہلو نکال لیتا ہے ،کسی شخص میں لاکھ اچھائیوں کے باوجود وہ صرف اس کی کسی معمولی کمی یا خامی کا رونا روتا ہے۔کم ظرف انسان معاف نہیں کرتا کیونکہ وہ ویسے ہی احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے اور معاف کرنے اور درگزر کرنے کو وہ اپنی کمزوری بلکہ ہار مانتا ہے۔ معاف اور درگزر کرنا ویسے بھی بہادر اور اعلیٰ ظرف انسان کے اوصاف ہوتے ہیں ۔کم ظرف سے اگر غلطی ہو جائے تو وہ معافی نہیں مانگتا ہے بلکہ ضد پر اَڑ جاتا ہے۔ دراصل معافی مانگنے کے لیے بھی ظرف چاہئے جو کم ظرف کے پاس نہیں ہوتا۔ کم ظرف کو بھولنے کی بیماری بھی ہوتی ہے ایسے شخص کو اگر دولت اور عہدہ مل جاتا ہے تو یہ اپنے ماضی کو فوراً بھول جاتا ہے اور اپنی دولت اور عہدے کو دائمی سمجھنے لگتا ہے۔ایسے شخص کو جب اقتدار مل جائے تو رعایا کی شامت آجاتی ہے یہ کسی کی نہیں سنتا ہے بلکہ جو من میں آئے کر لیتا ہے اور ایسا کرنے پر اُسے ندامت بھی نہیں ہوتی کیونکہ اسے لگتا ہے کہ جو کر رہا ہے اچھا کر رہا ہے۔ایک کہاوت ہے خدا گنجے کو ناخن نہ دے اور یہ کہاوت کم ظرف انسان پر صادق آجاتی ہے۔ کم ظرف انسان احساس سے خالی ہوتا ہے۔ایسے شخص کو اگر سلام بھی کی جاتی ہے تو اسے اس میں بھی اپنی بڑھائی نظر آتی ہے نہ کہ سامنے والے کی۔ایسے شخص کو اگر ذرا بھی عزت دی جائے تو وہ اپنے آپ کو تیس مار خان سمجھنے لگتا ہے۔ دراصل اس میں یہ سب سنبھالنے کی ہمت نہیں ہوتی ہے ۔اس میں ظرف ہی نہیں ہوتا ہے اس کی باتوں سے حوصلہ افزائی نہیں بلکہ حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔کم ظرف انسان کسی کو اگر مبارکبادی دیتا بھی ہے تو وہ محض دکھاوا ہوتا ہے، اندر سے وہ جل رہا ہوتا ہے کہ یہ سب کیسے ہوا، کیوں ہوا، کب ہواوغیرہ وغیرہ۔ کم ظرف انسان کی ایک اور نشانی یہ بھی ہے کہ یہ رازدار نہیں ہوسکتا۔اس کے ساتھ ذرا سی تلخ کلامی بھی اگر ہوجائے تو وہ آپ کے سارے راز فاش کر دے گا کیونکہ اس کا ظرف اتنا ہی ہے، ذرا سی بات پر چھلک پڑتا ہے ۔دراصل اس کی اوقات ہی یہی ہوتی ہے ۔کم ظرفی کی ضد اعلیٰ ظرفی ہے، ایسا شخص جس میں عزت وقار،حوصلہ شہرت ،اقتدار سنبھالنے کی ہمت ہو ۔اعلیٰ ظرف انسان کے آگے یہ سب چیزیں کوئی معنی نہیں رکھتی وہ جانتا ہے کہ یہ سب عارضی ہے اور ان میں سے کوئی بھی چیز رہنے والی نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ دوسروں کی بھلائی کرتا ہے اور اجر بس اپنے رب سے مانگتا ہے ،وہ دوسروں پر احسان کرتا ہے اور احسان جتانا بہت بڑا گناہ سمجھتا ہے۔ ایسے شخص میں بھی انکساری اور عاجزی ہوتی ہے لیکن عارضی نہیں بلکہ دائمی ۔اعلی ظرف انسان دور اندیش ہوتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتی ۔یہ اقتدار اور یہ جاہ و حشمت رہنے والی نہیں ہے۔ اعلیٰ ظرف انسان کا دل و دماغ وسیع ہوتا ہے، اس کے مقاصد جلیل ہوتے ہیں ،وہ دوسروں کے کام آنا ہی زندگی کا مقصد مانتا ہے، بلکہ اعلیٰ ظرف انسان اپنے لیے کم اور دوسروں کے لیے زیادہ جیتا ہے۔ایسا شخص بدلہ لینے میں یقین نہیں رکھتا ہےبلکہ معاف اور درگزر کرنا ایسے شخص کے اوصاف میں شامل ہوتا ہے ۔ایسا انسان دشمن کے راز بھی اپنے سینے میں دفن کرتا ہے اور اعلیٰ ظرف انسان سے دشمن بھی پیار کرتے ہیں۔ اعلیٰ ظرف انسان کی مثال شمعِ کی ماند ہوتی ہے جو خود جلتا رہتا ہے اور دوسروں کو روشنی فراہم کرتا ہے ۔دیکھا جائے تو کم ظرف دوست سے اعلیٰ ظرف دشمن ہی بہتر ہے ۔ہمارے معاشرے میں بھی کم ظرف لوگ پائے جاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے کوئی ہو یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ میرا واسطہ کم ظرف سے پڑا ہو، جس نے مجھے یہ مضمون لکھنے کے لیے اُکسایا ہے ۔خیر یہ ایک ایسا مرض ہے جس کا علاج اگر خود نہ ڈھونڈا جائے تو کسی دوسرے کے پاس نہیں ملے گا۔کوئی انسان اگر اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی کوشش کرے ،منفی کے بجائے مثبت سوچنے کی کوشش کرے ،اپنے اندر صبر و برداشت پیدا کرے ۔دوسروں پر احسان کر کے بھولنے کی عادت ڈالے۔تو اس کی کم ظرفی کا علاج ہوسکتا ہے۔ایک سروے کے مطابق دنیا میں بیس فیصد لوگ کم ظرف ہیں۔سوشل میڈیا کی وجہ سے بھی کم ظرفی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ابھی کوئی نیکی کی نہیں ہوتی ہے ،ابھی کوئی احسان کیا بھی نہیں ہوتا کہ فوراَ فیس بک اور دوسری عوامی رابطہ سائٹوں پر ڈالا جاتا ہے۔ کم ظرف لوگوں سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔ کم ظرف انسان کی صحبت انسان کا چین و سکون چھین لیتی ہے جبکہ اعلی ظرف کی صحبت سکون اور اطمنان بخشتی ہے۔کم ظرف کی صحبت زحمت ہے اور اعلی ظرف کی صحبت رحمت ۔کم ظرف انسان سے دوری بنائے رکھنے میں ہی عافیت ہے۔کیونکہ ایسا شخص ہمیشہ شر اور نقصان کی طاق میں رہتا ہے۔ لہٰذا اس سے خیر اور بھلائی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ بہتر ہے کی اعلیٰ ظرف اور وسیع دل رکھنے والے لوگوں کی صحبت میں رہا جائے ۔خود بھلائی کرتے ہیں، لوگوں کی چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں کو معاف کرتے ہیں اور اپنی صحبت میں رہنے والوں کو بھی اسی طرح کی ترغیب دیتے ہیں۔دیکھا جائے تو دونوں خصلتوں کے انسان آئینہ لے کر گھومتے ہیں۔کم ظرف کو ہر شخص کم ظرف نظر آتا ہے اور اعلیٰ ظرف کو ہر شخص اعلیٰ ظرف دکھائی دیتا ہے۔
کم ظرفی ایک مرض ہے!
