کرونا وائرس نے جہاں پوری دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے ۔اور دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جو کرونا کی اس وبائی صورتحال سے متاثر نہ ہوا ہو۔ ملک کے تعلیمی ادارئے پچھلے دو سالوں سے بند پڑے ہیں ۔ماہرین کا مانا ہے کہ ہر طرح کے نقصان کو وقت کے ساتھ ساتھ پورا کیا جا سکتا ہے۔اقتصادی حالت کو پھر سے بہتر کیا جا سکتا ہے ۔لیکن تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے کہ اس میں ہوئے نقصان کی برپائی ناممکن ہے۔طلبا کا جو وقت ضائع ہوا ہے اسے ہرگز واپس نہیں لایا جاسکتا یے ۔یوں سمجھ لیجئے کی تعلیمی نقصان قوم کے لیے سب سے بڑا خسارہ ہے ۔سال 2020 میں اگر چہ کرونا میں کمی واقع ہونے کے ساتھ ہی مارچ میں تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت دی گئی تھی ۔تمام تر تعلیمی اداروں میں شد و مد سے کام شروع ہوا تھا۔اور تعلیمی نظام پٹری پر آنے ہی والا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے کرونا کی دوسری لہر نے دنیا کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔اور اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تمام تر اقتصادی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔اس طرح سے پورے ملک کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر میں بھی لاک ڈاؤن نافظ کر دیا گیا ۔اس دوران حکام بالا نے مختلف طریقوں سے بچوں تک پہنچنے کی کوششیں کیں ۔کبھی زوم کلاسز شروع کئے گئے تو کبھی اساتذہ کو ایل ۔ایم ۔ایس پر کلاسز دینے کے لیے کہا گہا۔اتنا ہی نہیں ریڈیو اور ٹیلیوژن پر کلاسز دینے کا عمل بھی شروع کیا گیا جو ابھی جاری ہے۔ اساتذہ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ کووڑ 19 کے خلاف کمر بستہ ہو کر مختلف سطحوں پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ تعلیم کے حوالے سے اٹھائے گئے ان اقدامات سے اگر چہ طلباء کو فائدہ پہنچا تاہم بیشر طلبا کے پاس سمارٹ فون نہ ہونے کی وجہ سے طلبا کی کثیر تعداد ان اقدامات سے فائدہ اٹھانے سے قصر رہی ۔ایل ایم ایس پر اگر چہ اساتذہ کلاسز اپلوڈ کرتے ہیں تاہم یہ دیکھا گیا ہے کہ طلبا کی ایک قلیل تعداد اس عمل سے مستفید ہو پارہی ہے ۔حالیہ دنوں میں کرونا وائرس میں پھر ایک بار کمی واقع ہوئی ہے ۔کرونا وائرس میں اس کمی کے بعد انتظامیہ نے جہاں لاک ڈاؤن میں نرمی برتنے کا فیصلہ لیا ۔وہاں کمنٹی کلاسز کو پھر سے بحال کرنے کا بھی فیصلہ لیا گیا ہے ۔ تمام طلبا کو ایک دوسرے سے دو میٹر کی دوری رکھنے کے ساتھ ساتھ ماسک بھی لگانی ہو گی ۔ اس ضمن میں ولیج ایجوکیشن کمیٹی، والدین اور گاؤں کے معزز لوگوں سے صلح مشورہ کیا جا سکتا ہے ۔کمنٹی کلاسز کی بحالی ایک خوش آئند بات ہے ۔احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے کمنٹی کلاسس کی عمل آوری سود مند ثابت ہونے کی قوی امید ہے۔یہ حکمنامہ پڑھتے ہی نہ صرف طلبا میں بلکہ اساتذہ اور عوام الناس میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے ۔مختلف جگہوں پر یہ عمل شروع کر دیا گیا ہے۔گاؤں دیہات میں کمنٹی کلاسس زیادہ ہی سودمند ثابت ہونگے کیونکہ گاؤں دیہات میں کھلے میدان ہیں جہاں پر یہ کلاسز لیے جاسکتے ہیں اور طلبا کو علم کے نور سے آراستہ کیا جاسکتا یے۔اور درہم برہم ہوئے تعلیمی نظام کو پھر ایک بار پٹری پر لایا جاسکتا ہے۔میں اساتذہ سے بے حد احترام سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس حکمنامے سے فائدہ اٹھائیں اور محنت اور لگن سے طلبا کو علم کے نور سے روشناس کرائیں ۔تاکہ ہماری یہ نئی پود تعلیم کے نور سے آراستہ ہو۔اگر چہ تمام تر تعلیمی اداروں کو فی الحال بند رکھنے کا فیصلہ قائم ہے ۔لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ کرونا کی یہ وبا جلد از جلد ختم ہو ۔اور اسکولوں کے زنگ آلود تالے کھل جائیں اور ان تعلیمی اداروں کی بہاریں پھر سے لوٹ آئیں ۔پھر سے ہنسی خوشی پچے اسکولوں کی جانب رواں دواں ہوں اور پھر سے ہمارے کانوں کو گھنٹی اور معصوم بچوں کا شور و غل سنائی دے۔تاکہ اج کے یہی بچے کل اس ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے ۔
رابطہ۔ اویل نورآباد