ہندوستان کے پانچ صوبوں میں اسمبلی انتخابات کی گہما گہمی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے مابین آپسی بحث و مباحثہ، الزامات و اعتراضات، طنز و تکرار کی گھمسان جاری ہے۔ ان مباحثوں کے دوران جن مسائل و موضوعات پر گفتگو ہو رہی ہے، وہ بیش تر جذباتی رنگ لئےہوئے ہیں۔ حقیقی مسائل سے قصداً پہلو تہی کی جا رہی ہے۔ روزگار اور مہنگائی جیسے معاشی مسائل پر خال خال ہی بات کی جارہی ہے۔ اسکی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ معاشیات کے خشک و پیچیدہ مسائل لوگوں کو زیادہ نہیں لبھاتے۔ قومی شماریات کے دفتر (این ایس او) نے گزشتہ پیر کو افراطِ زر یا مہنگائی کے تازہ ترین اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔رواں سال جنوری کے مہینے میں خردہ افراطِ زر کی شرح پچھلے دسمبر کے مقابلے بڑھ کر چھ اعشاریہ ایک (6.1) فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یہ گزشتہ سات مہینوں کی بلند ترین سطح ہے۔ واضح رہے کہ ریزرو بینک 6 فیصد کی افراط زر کو مہنگائی کی آخری حد گردانتا ہے۔ مذکورہ فیصد سے زیادہ افراط زر خطرے کی گھنٹی ہے۔
کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کی بنیاد پر مہنگائی کی شرح دسمبر 2021 میں 5.66 فیصد اور جنوری 2021 میں 4.06 فیصد رہی۔ این ایس او کے ان اعداد و شمار کو اگر الگ الگ کر کے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جنوری میں مہنگائی کی بڑی وجہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ ان اشیا کی افراط زر جنوری میں 10.33 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ دسمبر 2021 میں یہ 9.56 فیصد تھی۔ گزشتہ دو مہینے سے سبزیوں کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جنوری میں سبزیوں کی قیمت میں 35 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا جب کہ دسمبر میں یہ اضافہ 31.5 فیصد تھا۔ ساتھ ہی اناج، اور دالیں بھی مہنگی ہو گئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روزمرہ استعمال میں آنے والی ضروری اشیاء کی قیمتیں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔
عالمی منظر نامے پر بھی مہنگائی کی صورتحال پریشان کن ہے۔ ان دنوں دنیا کے تمام ممالک میں قیمتوں کا اشاریہ چڑھا ہوا ہے۔افراطِ زر میں گزشتہ کئی ہفتوں سے مسلسل اضافہ درج کیا جا رہا ہے۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، یو ایس کنزیومر پرائس انڈیکس 7.5 فیصد پر ہے، جو ماہرین اقتصادیات کی توقعات سے زیادہ ہے۔دوسری جانب برطانیہ میں مہنگائی کی شرح بھی 5.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ برطانیہ میں افراط زر کی یہ شرح گزشتہ 30 برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ یوروپی ممالک کی صورت حال بھی دگرگوں ہے۔ یورو زون کے 19 ممالک (جہاں کی کرنسی یورو ہے ) میں بھی افراط زر کی شرح 5.1 فیصد کے ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ظاہر ہے مہنگائی کا یہ مسئلہ امریکہ اور برطانیہ سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے لیے اعصاب شکن ثابت ہو رہا ہے۔ حقیقی آمدنی میں کمی اور اخراجات میں اضافے نے عوام کو پریشانیوں میں ڈال دیا ہے۔ بڑھتی مہنگائی کی یہ تیز رفتاری، عوام کی ترقی کی رفتار کو سست تر کررہی ہے۔
موجودہ عالمی تناظر میں، مہنگائی سے جلد راحت کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی ہے۔ عوام میں بھی یہ تاثر ہے کہ انتخابات کے بعد مہنگائی میں ضرور اضافہ ہوگا۔ ملک کے 18 بڑے شہروں میں 2 سے 12 جنوری 2022 کے دوران آر بی آئی کے ذریعے کرائے گئے سروےانفلیشن ایکسپکٹیشن سروے آف ہاؤس ہولڈز (گھرانوں کے افراط زر کی توقعات کا سروے) کے مطابق مہنگائی کی توقعات 9.7 فیصد درج کی گئی ہے۔ افراطِ زر کے توقعات کی یہ شرح گزشتہ سال جنوری کے سروے سے 70 بیسس پوائنٹ زیادہ ہے۔صوبائی قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات کا آخری مرحلہ 7 مارچ کو ختم ہو جائے گا۔ اس کے بعد تمام وجوہات کی بنا پر قیمتوں میں اضافے کے امکانات ہیں۔ ویسے بھی ہر عام انتخاب کے بعد مہنگائی کی شرح میں اضافہ ایک انمٹ سچائی ہے،افراط زر کی سطح بڑھتی رہی ہے۔
یوکرین ۔روس کے مابین جنگ کی وجہ سے عالمی ویلیو چینز اور لاجسٹک کا نظام کافی حد تک متاثر ہوا ہے۔ بہ ایں سبب بین الاقوامی سطح پر بھی، لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نتیجتاً اشیا کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں اور مہنگائی کا مسئلہ مزید سنگین رخ اختیار کرتا نظر آ رہا ہے۔ماہرین اقتصادیات اکثر 'درآمد شدہ افراط زر (امپورٹڈ انفلیشن) کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں – یعنی افراط زر کا ملکی سرحدوں سے باہر نکل جانا۔ آج کے عالمگیریت یا گلوبلائزیشن کے دور میں کوئی بھی ملک عالمی سطح پر ہونے والے واقعات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کوئی بھی ملکی معیشت انفرادی سطح پر کام نہیں کرتی – تمام معیشتیں ایک عالمی ویلیو چین کے حصے کی شکل میں ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ لہٰذا، اگر ایک ملک میں قیمتیں بڑھتی ہیں، تو اس کا اثر دیگر ممالک پر بھی پڑتا ہے۔ یہی 'درآمدی افراط زر ہے۔ اس لیے جب عالمی سطح پر قیمتوں کے اشاریے اوپر چڑھتے ہیں تو ہمارے ملک کی مہنگائی کی شرح میں اضافے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
ایکونامک سروے 2022-23 کے مطابق بھی ہمارے ملک کو 'درآمدی افراط زرکا خطرہ درپیش ہے۔ عالمی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ اس خطرے کا سبب بتایا گیا ہے۔ اگرچہ پٹرول اور ڈیزل کا ہیڈ لائن افراط زر میں 2.4 فیصد کا وزن رکھتے ہیں، تاہم قیمتوں میں اضافے کا پورا بار براہ راست صارفین کے کندھوں پر پڑتا ہے۔ بڑھے ہوئے اخراجات سے عام آدمی کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ تو رہا بڑھتی مہنگائی کا اثر عام آدمی کی جیب پر۔ دوسری طرف، خام تیل کی قیمتوں میں اضافے سے ملکی معیشت کو دوہرے خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مالیاتی خسارہ تو بڑھتا ہی ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ معیشت پر ان خساروں کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں- سرمایہ کاری اور کھپت میں کمی آتی ہے۔
حکومت ہند اس مہنگائی سے مقابلہ کرنے کے لیے صرف زری (مانیٹری) پالیسی کے لائحہء عمل پر اکتفاء کیے ہوئے ہے۔ شرح مہنگائی کو محض سود کی شرحوں کے ذریعے قابو میں رکھنے کی جگت کرنا ہی زری پالیسی کا کل جمع کام ہے۔ عیاں ہو کہ سہ ماہی مانیٹری پالیسی کی تشکیل اور اس کا نفاذ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے آر بی آئی کی جاری کردہ مانیٹری پالیسی میں ریپو ریٹ بغیر کسی تبدیلی کے 4 فیصد پر برقرار رکھا گیا ہے۔ ریورس ریپو ریٹ بھی بغیر کسی تبدیلی کے 3.35 فیصد رکھا گیا ہے۔ زَری پالیسی کمیٹی نے اپنے جائزے میں خام تیل کی قیمتوں پر نسبتاً نرم رویہ اختیار کیا ہے۔ خام تیل کی فی بیرل اوسط قیمت کا تخمینہ 70-75 ڈالر لگایا گیا تھا۔
لیکن خام تیل کی درآمدی قیمت تخمینے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ 16 فروری کو اس کی قیمت بڑھ کر 94.54 ڈالر فی بیرل ہو گئی۔ پیٹرولیم پلاننگ اینڈ اینالیسس سیل کے اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر 2014 سے یہ اب تک کی بلند ترین سطح ہے۔ ظاہر ہے کہ خام تیل کی بڑھی ہوئی قیمتوں کا براہِ راست اثر افراطِ زر کی شرح پر پڑےگا – اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ آربی آئی کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے آنے والے دنوں میں مہنگائی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ مالی سال 2022-23 کی پہلی سہ ماہی میں یہ 4.9 فیصد، دوسری سہ ماہی میں 5 فیصد، تیسری سہ ماہی میں 4 فیصد اور چوتھی سہ ماہی میں 4.2 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے۔ جب کہ آربی آئی کے تخمینے کے برخلاف، رواں مالی سال کے شروعاتی ایام میں ہی شرح مہنگائی چھ فیصد کی سطح پار کرنے کا اندیشہ ہے۔
طرفہ تماشا یہ کہ ایک طرف خام تیل کی پیدا کرده مہنگائی اور دوسری طرف لاگت میں اضافہ – یہ وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے قیمتوں میں بڑھوتری ہو رہی ہے۔ چنانچہ شرح مہنگائی یا افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں صرف زری پالیسی ہی کے ذریعے قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوگی۔
کورونا کے اومیکرون ویرینٹ کی وجہ سے آئی تیسری لہر نے ملک میں پھیلتی بے روزگاری کو مزید بے قابو کردیا ہے۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ بے روزگاری کی شرح 6.57 فیصد تھی۔ فروری کے پہلے اور دوسرے ہفتے میں روزگار کی شرح بالترتیب 36.4 اور 36.6 فیصد رہی ہے۔ یہ جنوری کے مہینے کی شرح 37.6 فیصد سے کم ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے آمدنی اور قوت خرید بھی کم ہو رہی ہے۔ایک طرف روزگار اور آمدنی میں کمی، دوسری طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام الناس کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ منہگائی بڑھنے کی واحد وجہ محض افراطِ زر نہیں بلکہ اونچی ہوتی لاگتیں بھی ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اسباب کا یہ تنوع اس بات کا متقاضی ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل بھی مختلف سطحوں پر مرتب کیا جائے۔ صرف زری پالیسی پر انحصار کرنے سے مطلوبہ نتائج نہیں نکلنے والے۔ مالیاتی پالیسی سمیت ایسے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس سے بڑھتی ہوئی لاگتوں پر نکیل کسی جا سکے۔ ساتھ ہی روزگار اور آمدنی کے مواقع بڑھائے جا سکیں۔
(اسسٹنٹ پروفیسر (اقتصادیات)موبائل9470425851)
ای میل[email protected]