فیاض بخاری
سرحدی سیاحت کو فروغ دینے کے سلسلے میں مرکز کے زیر انتظام جموںو کشمیر میں ضلع بارہمولہ کے خوبصورت سرحدی قصبہ اوڑی میں سیاحت کو فروغ دینے کی کوششوں کے بعد سیاحت اور اقتصادی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ۔لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ، فوج اور ضلع انتظامیہ کی ٹھوس کوششوں نے چھپے ہوئے سیاحتی جواہرات کا پتہ لگایا اور ایک زمانے کے ناقابل رسائی علاقوں کو ترقی پزیر مقامات میں تبدیل کر دیا، جس سے مقامی لوگوں کے چہروں پر خوشی پھیل گئی۔ 2018 میں بند ہونے کے بعد امن کا پُل کہلانے والی کمان پوسٹ کا حال ہی میں دوبارہ کھلنا سیاحوں کو راغب کرنے میں ایک اہم قدم رہا ہے۔جبکہ چند برس قبل جہاں آر پار گولہ باری بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی آج کل فوج اُ ن دیہات میں تقریبات منعقد کررہی ہے ۔
سری نگر-مظفر آباد سڑک کو پہلی بار سال 2005 میں کھولا گیا تھا اور اسے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اعتماد سازی کے سب سے بڑے اقدامات (سی بی ایم) کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ اس راستے کو اپریل 2019 میں مبینہ طور پر مرمت کے کام کیلئے غیر فعال کر دیا گیا تھا لیکن اسی سال اگست میں دفعہ 370 کی منسوخی اور جموں و کشمیر کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب ہونے کے بعد اسے دوبارہ نہیں کھولا جا سکا۔ پہلے سرحدی قصبہ اوڑی کے حد متارکہ علاقوں تک جانے کیلئے اعلیٰ عہدے داروں اور فوج تک ہی محدود تھا، اب یہ علاقے اجازت کیلئے صرف آدھار کارڈ کے ساتھ قابل رسائی ہیں۔ صرف تین مہینوں میں، مختلف ریاستوں سے ہزراوں سیاحوں نے کمان پوسٹ کا دورہ کیا، جس سے لوگوں کی آمدورفت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس اقدام کے بعد جہاں قصبہ اوڑی میں کئی رستوران بھی کھل گئے ہیں وہی کئی ایک دیہات میں لوگوں نے اب اپنے رہائشی مکانات کوگیسٹ ہاوس کے طور پر استعمال کرنے کیلئے تیاری شروع کردی ہے ۔ جبکہ فوج کی جانب سے رستم اور قصبہ اوڑی کے دیگر حد متارکہ علاقوں میں تقریبات بھی منعقد کی جارہی ہیں ۔گزشتہ دنوں فوج نے رستم پوسٹ پر جشن رستم نامی ایک تقریب منعقد کی جس میں بھاری تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ۔ حکام کا کہنا ہے جون ، جولائی اور اگست کے مہینوں کے دوران ہر روز تین ہزار مقامی و غیر مقامی لوگوں کی تعداد آرہی ہے ۔ حکومت کی جانب سے ہوم اسٹے کی مختص اور مقامی ثقافت کی حمایت نے اسے ہمالیہ کے درمیان پرسکون ماحول اور دلکش مناظر کی تلاش میں آنے والے سیاحوں کیلئے ایک اہم مقام بنا دیا ہے۔
ادھر پیر پنچال ایڈونچر کے شوقین اور ٹریکرز نے ایک گرپ بنایا ہے جو سیاحتی مقامات جیسے کمان پوسٹ ، بابا فرید، کانڈی، رستم نمبلہ (ٹی وی ٹاور)، دانا نمبلہ، نمبلہ آبشار، بوسیا، کوپرا پارک، دودران، دانا ددران، چوٹالی، ذوالفقار ویو پوائنٹ، بلال آباد گارکوٹ، مچیچورنڈ، لاچی پورہ وائلڈ لائف سینچری، لمبر وائلڈ لائف سنچری علاقوں میں آنے والے سیاحوں کو ٹریکنگ پر بھی لے جارہے ہیں۔ سرحدی سیاحت میں اضافے سے نہ صرف لوگوں کی آمدورفت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اس نے خطے میں روزگار اور اقتصادی ترقی کی راہیں بھی کھول دی ہیںاوریہ سیاحتی اقدامات معاشی مواقع فراہم کرنے اور ان علاقوں میں امن کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں جہاں ماضی میں تشدد ہوا ہے۔
فروغ پزیر گھریلو قیام، بہتر انفراسٹرکچر، اور ایڈونچر ٹورازم، باڈر ٹورازم پر توجہ کے ساتھ بارہمولہ ضلع میں معاشی سرگرمیوں میں بحالی اور مقامی نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ بارہمولہ میں سرحدی سیاحت امید اور خوشی کی کرن بن کر ابھری ہے، جس نے خطے میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں کو بدل دیا ہے۔ ضلع انتظامیہ کی کاوشوں اور حکومت کے تعاون سے ضلع کی سیاحتی صنعت کے روشن اور خوشحال مستقبل کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ فوج کے اس اقدام سے اوڑی کے مقامی لوگوں کی توقعات بڑھ گئی ہیں کہ اس اقدام سے اوڑی سیکٹر کے دیگر ملحقہ علاقوں کی تلاش کے ذریعے سرحدی سیاحت کے فروغ کی راہ ہموار ہوگی۔ ظاہر ہے، کمان پوسٹ کا فروغ پورے اوڑی سیکٹر کو سیاحت کے نقشے پر لے آئے گا اور سرحدی سیاحت کے امکانات والے تمام علاقوں کو ترقی دی جائے گی جس سے علاقہ کا ترقیاتی منظرنامہ یکسر تبدیل ہوجائے گا۔
(مضمون نگار کشمیر عظمیٰ کے نامہ نگار برائے ضلع بارہمولہ ہیں )
موبائل نمبر۔ 9858900055
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)