سرینگر//کشمیر یونیورسٹی میں اردو صحافیوں اور طلاب کی صلاحیت سازی کیلئے جاری5 روزہ ورکشاپ کے دوران کشمیر میں بنیادی صحافت کا سہرا اردو کے سر باندھتے ہوئے سینئر صحافیوں نے اردو اخبارات میں پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے فقدان کا اعتراف کیاہے۔ ورکشاپ کے تیسرے روز سینئر صحافی ریاض مسرور نے واضح کیا کہ اُردو اقلیتوں کی زبان نہیں ہے۔انہوں نے ورکشاپ کے دوران’’کالم نویسی اور اداریہ‘‘ میں فرق کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جہاںاردو زبان نے برصغیر میں ایک اہم رول ادا کیا وہی جموں کشمیر میں اُردو نے اتحاد کا کام کیاہے۔ انہوںنے کہا کہ روزانہ کی بنیادوں پر کشمیر میں قریب120اخبارات شائع ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وادی کے قارئین کو ہمیشہ یہ معاملہ درپیش رہا ہے کہ انکی مادری زبان کشمیری ہے اور انگریزی میں وہ پروان چڑے ہیں جبکہ محبت انہیں اردو سے ہیں۔سینئر صحافی اور روزنامہ چٹان کے مدیر طاہر محی الدین نے’’ شہ سرخیوں‘‘ کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی صحافت ابتداء میں اردو میں تھی اور یہ صحافت کی بنیاد بھی ہے ۔انہوں نے تاہم کہا کہ اخبارات کو حالات کے عین مطابق کام بھی کرنا پڑتاہے اور بیشتر قارئین اس بات سے واقف بھی نہیں ہوتے۔ انہوں نے اس بات کا بھی گلہ کیا کہ سرکار کی جانب سے اردو صحافت کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں۔ طاہر محی الدین نے کہا کہ وادی میں اخبارات کی بھر مار ہوگئی ہے اور نیم خواندہ لوگ اس میں شامل ہوئے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ اگرچہ جموں کشمیر کی سرکاری زبان اردو ہے تاہم اس کے ساتھ ہمیشہ سوتیلا برتائو کیا گیا۔