سرینگر/سابق وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ نے سوموار کو کہا کہ مرکز نے کشمیر کی صورتحال کو لیکر جوایڈہاک اور تجرباتی اپروچ اپنایا ہے اُس نے ریاست کو کئی سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔
عمر عبد اللہ کا ماننا ہے کہ بھاجپا کو اب کئی سوالوں کے جواب دینے ہیں۔''اُس نے کیوں پی ڈی پی کے ساتھ گڑھ جوڑ کیا اور بعد میں اچانک کیوں اس سے ناطہ توڑ دیا؟''
انہوں نے کہا کہ ایک سوال جس کا جواب ریاستی عوام چاہتے ہیں یہ ہے کہ کیوں بھاجپا ، جس کے پاس25ممبران سمبلی تھے، نے دو ممبران رکھنے والی پارٹی، جس کی قیادت سجاد لون کررہے ہیں، کو حمایت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
عمر نے کشمیر کی موجودہ سیاسی صورتحال کی ذمہ داری بھاجپا پر ڈالتے ہوئے کہا''2019کے انتخابات پر نظر رکھتے ہوئے، بھاجپا گول پوسٹ تبدیل کررہی ہے اور یوں لوگ کنفیوژن کا شکار ہورہے ہیں۔بھاجپا نے جموں کشمیر کے عوام کو کئی سال پیچھے دھکیل دیا ہے''۔
عمر نے خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کو بتایا ''بھاجپا اور پی ڈی پی الائنس کو قطبین کا اتحاد قرار دیکر ایجنڈا آف الائنس تیار کیا گیا۔کیا کوئی وعدہ پورا ہوا؟ اب دیکھئے کہ جموں کشمیر کا کیا حال ہے۔ریاست کے موجودہ سیاسی بحران کو دیکھئے۔''
''پاکستان کے ساتھ بات چیت کو چھوڑو، وہ تو حریت کے ساتھ بھی بات کرنے پر راضی نہیں ہیں''۔
افسپا کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمر نے کہا کہ2011-12میں افسپا کے خاتمے سے متعلق باتیں ہورہی تھیں۔ لیکن کیا آج ایسا سوچا جاسکتا ہے؟2014سے فورسز کی موجودگی مزید بڑھ گئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ کشمیر کے بارے میں ایڈہاک اور تجرباتی اپروچ اپنایا گیا جو ناکام رہا۔
حالیہ اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کاتذکرہ کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس نائب صدر نے کہا'' کچھ دن پہلے تک گورنر ستیہ پال ملک اسمبلی کو برقرار رکھنے کے حق میں تھے لیکن جونہی پی ڈی پی نے ہماری اور کانگریس کی حمایت سے سرکار بنانے کا دعویٰ پیش کیا تو گورنر نے اسمبلی تحلیل کردی''۔
انہوں نے مزیدکہا'' پھر ہماری الائنس پر پاکستان کی ہدایت پر بننے کا الزام عاید کیا گیا۔ کوئی اُن سے یہ پوچھے کہ محبوبہ جی کس طرح اچانک پاکستانی بن گئیں تھیں جو کچھ ماہ قبل اُن کی حمایت والی سرکار چلارہی تھیں''۔
عمر نے دعویٰ کیا کہ جس جموں میں گذشتہ انتخابات کے دوران بھاجپا نے سویپ کیا وہاں آج یہ پارٹی عوام کے سامنے ننگی ہوگئی ہے۔
انہوں نے پوچھا''کیا اسمبلی کو سجاد لون کیلئے معطل رکھا گیا تھا تاکہ وہ روپے کے ذریعے یا این آئی اے اور سی بی آئی کیسوں کی دھمکیوں سے ممبران کو چراسکیں؟''