کشمیر کا مڈل کلاس

دلّی  میں کل جماعتی کانفرنس میں شرکت سے واپسی پر نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے جموں میں پارٹی کارکنوں سے ملاقات کے بعد بٹھنڈی میں مکہ مسجد میں کشمیری پناہ گزینوں سے خطاب کیا جس میں انہوں نے جموں شہر میں روایتی بھائی چارہ بنائے رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے امن کی کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔اس میں شک نہیں کہ اُن کے مکہ مسجد جانے سے وہاں ہزاروں پناہ گزینوں کی ڈھارس بندھ گئی حالانکہ امن کی اپیل انہیں جموں کے فرقہ پرستوں سے کرنی چاہئے تھی ۔فی الوقت بٹھنڈی کی مکہ مسجد اور تالاب کھٹیکاں مسجد میں قریباً دس ہزار کشمیری مسلمان پناہ لئے ہوئے ہیں ۔یہ وہ ریاست ہے جو مبینہ طور اپنی ریاست ہے اور یہاں پر مسلمان مسجدوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوا ہے ۔اس کے علاوہ سکھ برادری نے ایک عظیم تاریخی کارنامہ کرکے اپنے گردواروں کے لنگر کشمیریوں کیلئے کھول دئے جو15فروری کے جموں بندھ اور تشدد سے قبل ہی راستہ بند پڑنے کی وجہ سے وہاں درماندہ تھے۔سرکار کا مدد کے حوالے سے کوئی نام و نشان نہیں ہے جیسے کشمیری نہ ریاست کے باشندے ہیں ،نہ اس ملک کے شہری اور نہ انسان ہیں۔انہیں پہلے بس اڈے سے ہانکا گیا اور بعد میں تشدد کے شہر میں بلوائیوں کی موجودگی میں بے یار و مدد گار چھوڑا گیا۔ہر سال چند لاکھ یاتریوں کی سہولیات کیلئے سرکار کے سولہ محکمے یک جٹ رہ کر اُن پر کروڑوں روپے صرف کرتے ہیں جن میں کشمیری عوام کا ٹیکس کا پیسہ بھی ہوتا ہے لیکن جموں شہر میں وہ ایسے لگ رہے ہیں جیسے شام کے پناہ گزین ہوں جو بحیرہ روم پار کرکے یورپ (وادی کشمیر)پہنچنا چاہتے ہیں ۔اگر ایک مسجد کی کمیٹی کشمیریوں کے کھانے پینے کیلئے لاکھوں روپے خرچ کرسکتی ہے تو ریاستی سرکار کا رویہ برما والا کیوں ہوا جبکہ کشمیری نہ صرف اس ریاست کے شہری ہیں بلکہ وہ اربوں روپے ٹیکس بھی دیتے ہیں ۔انہیں مشکل وقت میں بلوائیوں اور حالات کے رحم و کرم پرچھوڑ کر کیوں گردواروں اور مساجد میں پناہ گزین ہونا پڑاہے ۔یہ ایک تاریخی المیہ ہے ۔اگر چہ میں یہاں پر پُر تشدد حالات و واقعات کی تفصیل دہرانا نہیں چاہتا ہوں بلکہ ایک اہم تاریخی اور سیاسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا چاہتاہوں۔
آج جو حالات بن چکے ہیں ،اس سے ستر سال بعد سارے کشمیریوں پر یہ واضح ہورہا ہے کہ وہ ہندوستان میں محفوظ نہیں ہیں۔یا یہ کہ ہندوستان وہ ملک نہیں ہے جس کے ساتھ وہ وابستہ رہے ہیں۔اس وقت جموں میں ہزاروں سرکاری ملازمین بھی تشدد کا شکار بن چکے ہیں۔ان کے رہائشی کوارٹروں پر حملے ہوئے ہیں ،گاڑیاں جلا دی گئی ہیں ۔ان کے اہل خانہ نہایت ہی خوف و ہراس کا شکار ہیںاور سبھی یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ انہیں کشمیر واپس جانے کیلئے راہداری ملے جس کسی جنگی خطے میں غیر ملکی آبادی ،افواج کو راہداری کا سامنا ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ پتے کی بات یہ ہے کہ گزشتہ تیس برسوں میں کشمیر کے بھارت نواز طبقہ ، سرمایہ داروں ،افسروں اور اس ایک بڑے طبقے نے بھی جموں کے مختلف علاقوں میں اپنے گھر تعمیر کئے تھے جو کشمیر کی تحریکی صورتحال میں یا تو اعلانیہ بھارت نواز رہے ہیں جیسے سیاسی طبقہ یا پھر جو عمومی نوعیت کی غیر جانبدارانہ روش پر قائم تھے جو اندر ہی اندر حالات کی بہتری کا طویل انتظار کررہے تھے اور جوں کی توں صورتحال کے حق میں تھے ،جس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ وہ اگر چہ اس سیاسی اور تحریکی جنگ میں کوئی فریقانہ کردار ادا کرنے کیلئے تیار نہیں تھے لیکن وہ حالات پر سمجھوتہ کئے ہوئے تھے جو مجموعی طور پر ایک بھارت نواز روش ہی قرار دی جاسکتی ہے ۔اس طرح انہوں نے جموں کو یا تو اپنا مستقل گھر بنایا تھا یا پھر کشمیر کے بعد جموں ان کا دوسر اگھر تھا۔ان لوگوں نے وہاں سرمایہ کاری کی ،گھر بنائے ،بچوں کی تعلیم کیلئے سکولوںمیں ایڈمشن کرایااور یہ1947کی ہولناک تاریخ سے یاتو بے خبر تھے یا پھر اس کی طرف ان کا زیادہ دھیان نہیں تھا۔اس طرح سے جموں کو اس طرح کے ہزاروں بلکہ ایک لاکھ کشمیری کنبے اپنے لئے محفوظ مقام سمجھتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ بھارت نواز سیاسی جماعتوں سے وابستگی ان کیلئے بھارتی ہونے کا پختہ ثبوت ہے ۔اسی طرح سے بہت سارے ملازمین خصوصاً محکمہ پولیس کے ایسے افسران ،جنہوںنے کشمیر میں اپنے اور سماج کی نظروں میں بھارت کیلئے کام کیا ،وہ جموں کو اپنے لئے محفوظ مقام سمجھتے تھے ۔اس کے علاوہ کشتواڑ ،ڈوڈہ ،بھدرواہ ،راجوری ،پونچھ اور ریاستی کے مسلمانوںنے بھی جموں کے مختلف علاقوں میں اپنے لئے مستقل گھر تعمیر کئے ہیں ۔ان سب کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن1947کی ہولناکیوں کے امکانات دہرائے جاسکتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ اس وقت جموں میں 1947کی طرح قتل عام اور نسلی صفائی کا عمل نہیں دہرایا گیا لیکن جو حالات بن گئے ،ان میں وہی اندازہے،وہی مزاج ہے ۔آج کے دور میں پس پشت سنگھ پریوار کا ایجنڈا شاید اس حد تک جانے کا نہیں ہے لیکن اگر وہ چاہیں تو1947سے یہ کہیں زیادہ آسان ہے کیونکہ1947میںجموں صوبہ میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی 61%فیصد سے زیادہ تھی جو اب محض38%ہے ۔اُس وقت صرف مہاراجہ کی فوج تھی جس کی مدد پٹیالہ فوج ،آر ایس ایس اور بھارتی افواج کے چند حصے کررہے تھے ،آج تو ساری فوج کی فوج ہی اپنی ہے ۔اب آر ایس ایس سرکار چلا رہی ہے ۔یہ وہ سرکار ہے جس کا اعلانیہ نظریہ ہی یہی ہے کہ مسلمانوں کو تن تنہا کیاجائے اور ہندوئوں کو متحد کیاجائے۔جموں میں اسی پالیسی پر عمل کیاجارہا ہے لیکن اس طر ح کی پالیسی پورے ملک میں اپنائی جارہی ہے ۔اندازہ کیجئے کہ ملک کا وزیراعظم آسام کے عوامی جلسے میں،جس کو تمام میڈیا براہ راست نشر کررہا تھا،عوام سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کے دلوں میں جو آگ ہے ،وہ میرے دل میں بھی ہے ۔نریندر مودی کے دل میں کونسی آگ ہے ؟ وہ خود اعلانیہ بتا رہے ہیں کہ یہ بدلہ لینے کی آگ ہے ؟ بدلہ کس سے لینا ہے ؟ ۔بدلہ اُن سے لینا ہے جو ہندوستان کے فوجی ماررہے ہیں ،جو اس کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ۔اس کا اشارہ واضح طور پر پاکستان کی طرف ہے ۔لیکن ’’میرے دل میں آگ ہے‘‘کا عوامی جلسہ میں کہنا صاف اشارہ ہے کہ ہندوستان کے عوام کشمیریوں کے خلاف کچھ گجرات2002طرز کے فسادات شروع کریں ۔جہاں ایک طرف پورے ملک میں کشمیریوں کے خلاف مختلف نوعیت کے حملے ہورہے ہیں ،وہاں ملک کا وزیراعظم کہہ رہا ہے کہ میرے دل میں بھی آگ ہے ،اس کا مطلب کیا ہے ،اس کیلئے زیادہ راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے ۔یہ ملکی فسادات کیلئے کھلی چھوٹ کا اشارہ ہے اور اس کیلئے سوموار 18فروری کا بھارت بندھ 2002کے گجرات بندھ کی یاد تازہ کرتا ہے ۔
 بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم ‘‘ سری نگر
����