کشمیر میں منشیات کی وبائی لہر | نشےباز تمام عیبوں کے مرتکب ہوجاتے ہیں

’’اے ایمان والو !شراب،جوا،استھان،پانسے کےتیر بالکل نجس شیطانی کام ہیں ۔ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔شیطان تو چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈالے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے ، پھر کیا تم ان چیزوں سے باز آ جاؤ گے‘‘ ۔(المائدہ 90-91)
مذکورہ دو آیتوں میں ’’خمر‘‘اور اسکے قبیل کی تمام ایشاء کو ناپاک اور شیطانی عمل سے تعبیر کیا گیا،اس سے اجتناب اور دوری کو موجبِ فلاح اور کامرانی قرار دےدیاگیا۔خمر(شراب) کے استعمال سے انسانوں کو دو طرح کے نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں:۔انفرادی،2۔اجتماعی۔
انفرادی نقصان یہ ہے کہ اولاً انسان اپنی صحت، جو کہ اللہ کی عظیم نعمت ہے ،کو کھو بیٹھتا ہے ،عقل و حواس ، زہد و تقویٰ اور روحانی ارتقاء سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔
   اجتماعی نقصان یہ ہے کہ نشہ آور اشیاء اور منشیات سے انسان جسمانی ،مالی،اخلاقی اور معاشی طور پر گر جاتا ہے۔اس سے انسان کی عبادیات میں پہلے نماز متاثر ہوتی ہے۔نماز کی رخصت کے بعد یہ فرد معاشرت اور سماجیات سے کٹ کر رہ جاتا ہےپھر شیطان اس کا ہمراہ اور ساتھی بن جاتا ہے۔ایسے افعال کا ارتکاب کرتا ہے ،جن کی وجہ سے اسفل السافلین میں شمار ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے تمام تر مخلوقات میں انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا جسکی بہترین ساخت اور حسن تقدیم کی قرآن گواہی دیتا ہے۔ پھر بعض انسان مشرف اور مفضل ہونے کے باوجود اس مقام و رتبہ کا لحاظ نہ رکھ سکے اور اشرفیت اور افضلیت کا مقام کھو بیٹھے۔ اپنے مقام کو بھول کر خود ساختہ اور شیطانی صفت انسانوں کی عطا کردہ چیزیں، غیر اصولی اور غیر فطری اشیاء کو زندگی کی ضرورت سمجھنے لگے،نتیجتاً بد سے بد تر اور بل ھم اضل کے مصداق ٹھہرے۔
منشیات کی حرمت اور مقدار: ’’ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہےاور میں ہر نشہ آور چیز سے منع کرتا ہوں نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا :جس شئے کی زیادہ مقدار نشہ کا باعث ہو، اسکی کم مقدار بھی حرا م ہے‘‘۔(ترمذی 1865) 
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ مائدہ کی آیت 90,91کے نزول کے بعد ارشاد فرمایا: الله تعالیٰ نے شراب حرام کردی۔ لہٰذا جس شخص تک یہ حکم پہنچ جائے، اسکے پاس شراب موجود ہوتووہ اسے نہ پیئے اور نہ اسے فروخت کرے۔ (صحیح مسلم) 
نشہ آور چیزوں کی حرمت کی پہلی وجہ یہ ہے کہ اس کو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا۔مگر انسانی فطرت ایسی ہے کہ حرمت کے ساتھ ساتھ اس کو سبب علت بھی معلوم ہو، تب جاکے اطمینان ملتا ہے۔علماء کرام نےکئی ساری علتیں قرآن اور حدیث کی روشنی میں معلوم کیں، مثلاً عقل پر پردہ،بے حس ،قوتِ مدرکہ،قوتِ ممیّزہ اور قوتِ فیصلہ متاثر ہوناجیسی علتیں منشیات سے اجتناب کے لئے کافی ہیں لیکن اسکے نقصانات یہی نہیں بلکہ وقت کا ضیاع،صحت کا فقدان اور اللہ کا عطا کردہ مال شیطانی راستوں پر خرچ کرنا بھی بڑے نقصانات میں سے ہیں ۔
نشہ آور اشیاء اور اس کے نقصانات:شراب،چرس،افین،ہیروئن ٹکیاں،انجکشن،رقیق دوائی (Corex) ،بوٹ پالش،چاکلیٹ،تمباکو ،سگریٹ اور اس کے قبیل کی ساری اشیاء منشیات میں شامل ہیں ۔ درجہ بالا اشیاء میں سے اکثر نشہ کی وجہ سے حرام میں اور بعض فضولیات میں اسراف کی بناپر، کسی بھی قسم کا نشہ کرنے سے جسم بہت بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ ذیل میں کچھ نقصانات مذکور ہیں ۔
1۔تمباکو،سگریٹ پینے اور دیگر قسم کی منشیات سے نبض کی رفتار سُست پڑجاتی ہے۔شریانوں (تڑپنی والی رگیں ) متورم ہو جاتی ہیں اور ان میں سوزش ہونے لگتی ہے،2۔جسم میں ریشہ اور لرزش پیدا ہو جاتی ہے،3۔آنکھوں میں چمک ختم ہو جاتی ہے،4۔شریانوں میں خون کے لوتھڑے کم جاتے ہیں جس سے دل کے دورے(Heart Attack) کا خطرہ بڑھ جاتا ہے،5۔پھیپھڑوں میں سوزش شروع ہو جاتی ہے،6۔جسم میں آکسیجن(Oxygen ) کی کمی ہو جاتی ہےجو بعض اوقات موت کا سبب بن جاتی ہے،7۔جگر سوزش اور ورم کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے،جس سے جگر کی کارگزاری اتنی متاثر ہو جاتی ہے کہ صرف تین سا کے اندر اندر موت کا سبب بن جاتی ہے،8۔معدہ اور آنتیں زخمی ہو جاتی ہے اور مرگی کا مسئلہ شروع ہو جاتا ہے۔
منشیات کا سد باب:منشیات(Drugs)کی وبا کشمیر میں تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے اور پھیلائی جا رہی ہے۔ اس کا سد باب کیسے کیا جائے۔سب سے پہلے اس کی روک تھام کی ذمہ داری انتظامیہ پہ عائد ہوتی ہےجو کہ منشیات کے سد باب کیلئے اقدامات کر سکتی ہے۔لیکن موجودہ نظام ،منتظمین اور مسلم کُش سسٹم سے ایسی امیدیں نہیں رکھی جا سکتی۔جمہوری نقاب کی آڑ میں یہاں ہمیشہ اپنی بقاءاور دوام کیلئے مسلم امہ بالخصوص مسلم نوجوان کو منشیات کا عادی بنانے کی کوشش کی گئی کیونکہ جو قوم اللہ ، اللہ کے رسولؐ اور اپنے دین کے ساتھ کبھی سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوئی، اُس قوم کے سرمایہ (نوجوان) کو میٹھا زہر (Sweet Poison) دیکر اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دور کیا گیا اورجا رہا ہے۔جبکہ یہ منصوبہ بند سازش کارگر بھی ہو رہی ہے۔بالفرض اگر انتظامیہ بھی اس کی روک کیلئے کوشاں ہوتی، تب بھی مکمل طور سے اس بلا کا سد باب اور خاتمہ ممکن نہیں ،جب تک نہ معاشرے کےدیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ذمہ داران اور سول سوسائیٹی کے ذمہ داران کھڑے ہوکر اسکے سدباب کے لئے اقدامات نہ کرے۔
سب سے پہلے علماء کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس پھیلتی وبا ، جس نے انسانی زندگی اور سوسائیٹی کو برباد کر دیا ہے،کے بارے میں سنجیدگی کا اظہار کرے۔عوام کو اس کی حرمت اور نقصانات سے با خبر کرے ۔دینی مجلسوں اور جمعہ کے خطبوں میں عوام کو اس پھیلتی لعنت کے نقصانات اور سوسائیٹی پر اس کے پڑے مضر اثرات سے باخبر کریں۔صرف اس بات سے کام نہیں چلے گا کہ آپ اپنے خطبہ اور تقریر کے آخر پر اسکے بارے میں ضمناً اور سرسری کچھ باتیں بتائیں بلکہ ضرورت اس چیز کی ہے کہ اس کو موضوع بحث اور تقریر کا عنوان بنایا جائے۔تاکہ اس کے تمام پہلؤں کو اُجا گر کیا جائے۔اور نجی محفلوں میں علماء وائمہ اپنے ہم اثر لوگوں میں ان چیزوں کی نشاندہی کریں۔
اہل قلم حضرات کو چاہیے کہ وہ اس چیز کی طرف بھر پور دھیان دیں اور اپنی تحریروں ، کالموں اور کتابچوں کے ذریعے اس انسانی،اسلامی اور طبی مسئلہ کی طرف لوگوں کی توجّہ مبذول کرائیں ۔ اسکے محرکات،اسکے دینی،اخلاقی اور سماجی نقصانات سے عوام کو آگاہی دیں اور اسکے سدباب اور علاج کا طریقہ بتائیں ،تاکہ اس لعنت اور ناسور سے عوام اور سوسائیٹی کو محفوظ رکھا جائے۔ڈاکٹروں ،دانشوروں اور وکلاء کو چاہیے کہ اس کے طبی ، اخلاقی اور قانونی نقصانات کو بیان کرنے کے لئے عوامی بیداری مہم چلائیں ۔ دینی تنظیموں کے سربراہان سے گزارش ہے کہ وہ اس بارے میں باضابطہ پروگرام بنائیں ۔علماء ،وکلاء اور ڈاکٹروں کو دعوت دےکر عوامی اجتماعات منعقد کراکے بڑے پیمانے پر سٹیج پر Debate کریں۔تاکہ ڈاکٹر حضرات اس کے طبی،وکلاءقانونی،دانشور سماجی اور علماء کرام اخلااقی و دینی نقصانات بیان کریں۔ 
تعلیمی اداروں کے ذمہ داران اور اساتذہ ،جو قوم کے مستقبل کے معمار اور ذمہ دار ہوتے ہیں،اپنی ذمہ داری پوری طرح سے نبھائیں،اپنے مخصوص نساب کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم بھی دیا کریں ۔ کیونکہ طلباء کا کردار اور ان کا مستقبل ان اداروں اور اساتذہ کے پاس امانت ہوتا ہے۔ انھیں چاہیے کہ ان کی مکمل پاسبانی اور نگہبانی کریں یعنی کوئی ایسا چور دروازہ باقی نہ رہنے دیں، جہاں سے طلباء میں نشہ کی لت پڑ سکے یا اخلاقی بگاڑکا خطرہ رہ سکے۔ سب سے بڑھ کر والدین پر ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو نشہ کی لعنت سے دور رکھنے کی کوشش کریں ۔انکی عادات اور حرکات پر گہری نظر رکھیں۔بدقسمتی سے آج کل کے اکثر والدین پہلے تو اپنی اولاد کی عادات اور حرکات سے یا تو بالکل بےخبر ہوتے ہیں یا پھر جان بوجھ کر چشم پوشی اختیار کرتے ہیں۔جسکے نتیجے میں بچوں کے اندر بُری عادات پروان چڑھتی ہے۔پھر جب انکے بچے بُری،مہلک ،اخلاق و اسلام کُش عادات میں غرق ہو جاتے ہیں ۔جس سے ان کی دنیاوی و اخروی زندگی بھی بُرباد ہو چکی ہوتی ہے۔پھر والدین چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد کسی طرح واپس آجائیں لیکن بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تربیت کے حوالے سے اپنے منصب فرائض نبھائیں ۔غفلت سےکام نہ لیں۔ آپ کے بچوں کے میں اگر ذیل میں مذکورہ عادات پیدا ہونے لگیں تو سمجھنا چاہیے کہ آپکے بچے نشہ اور ادویات کی طرف یا تو مائل ہو رہے ہیں یا پھر پوری طرح عادی ہو چکی ہیں۔
1۔ جب آپکے بچوں کی عادات میں اچانک تبددیلی رونما ہو جائے۔2۔ بچہ عام عادات سے ہٹ کر غصّہ کرنا شروع کرے۔3۔اسکول جانے یا اسکول کاکام(Homework) سے جی چرانا شروع کرے۔4۔امتحانات کے نتائج آپکی امید کے برعکس ہونا شروع ہو جائیں۔5۔جسمانی ساخت میں تبدیلی شروع ہوجائے۔
6۔سونے کی عادت تبدیل ہوں مثلاًآپکا بچہ حد سے زیادہ سونا شروع کرے ، یا سونے کے اوقات میں جاگنا اور دن میں سونا پسند کرے۔7۔ عام عادت سے ہٹ کر پیسے طلب کرے۔8۔ تنہائی پسند کرے۔9۔ برداشت میں کمی۔10۔روز مختلف بیماریوں کی شکایت۔11۔آنکھوں کی چمک میں تبدیلی۔13۔جلد کی رنگت میں تغیر۔14۔سننے،دیکھنے اور یاداشت کی صلاحیت میں کمی۔15۔قوتِ فیصلہ تذبذب۔
  یہ سب نشانیاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ا یک بچہ نشہ کی طرف مائل ہو چکا ہے۔لہٰذا والدین ہوں یا اساتذہ، علماء ہوں یا وکلاء ، اطباء ہوں یا حکماء ،ہر شخص اپنے حصے کی ذمہ داری سمجھے اور اسے بھرپور نبھانے کی کوشش کرے تاکہ ایک صالح معاشرہ قائم ہو۔
ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص کو اپنی ذمہ داری کا جواب دہ ہونا ہے۔(الحدیث)
پتہ۔ (پلہالن)