روز اول سے یہ فطرت کا قانون اور ایک ابدی اصول ہے ،جس کے تحت کوئی بھی فرد اور قوم یکساں حالات میں نہیں رہتے بلکہ نشیب و فراز، اتار چڑھائو اور عروج و زوال فطرت کے ضابطے ہیں، جس سے فرار اور انکار ممکن نہیں۔چنانچہ مجموعی طور پر انیسویں صدی عیسوی اسلام اور ملت اسلامیہ کیلئے تاریک، مایوس کن اور آزمائش کا دور تھا۔ جموںوکشمیر میں یہ دور نا امیدی اور بیچارگی کا دور تھا۔ عام لوگ ان پڑھ اور نادان تھے۔ غربت کے مارے تھے اور بدترین استحصال کی چکی میں پس رہے تھے۔ بنیادی ضرورتوں اور سہولتوں سے محروم تھے اورغلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ ڈوگرہ حکمرانوں کے شخصی راج نے کشمیر کو ظلمت کدہ بنا رکھا تھا اور لوگوں سے بیگار لیا جاتا تھا۔ اُدھر سامراجی قوتیں عالم اسلام پر یورش کر رہی تھیں اور افریقہ، مشرق وسطیٰ، برِاعظم ہند اور جنوب مشرقی ملکوں کو زیر نگین کرچکی تھیں۔ انہوں نے ملت اسلامیہ کے معاشی ، اقتصادی ، فکری ،ذہنی اور سماجی قوتوں کومضحمل کردیا تھا۔ تعلیمی ڈھانچے کوبھی بدل کر سامراجی طاقتوں نےنظام تعلیم کو اپنی من پسند شکل دی اور لوگوں کی سوچ و فکر ، شعور اور کردار کو بدلنا شروع کیااور ثقافتی جارحیت تحت مشنری اداروں کے جال بچھانے شروع کئے۔عوام کی غربت اور لاچاری کا ناجائز فایدہ اٹھاکر اِ ن مشینری اداروں کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں پر چھاپے مارے جانے لگے ۔
اس سلسلہ میں انہوں نے سرینگر شہر میں۱۸۹۳ عیسوی میں بسکو سکول کا قیام عمل میںلایااوراس طرح سے مفلس اور نادار عوام کو عیسائیت کی طرف مایل کرنا شروع کیا۔ یہ بہت ہی مایوس کن حالت تھی اور قانون قدرت حرکت میں آگئی کہ ملت کے کچھ مخلص، دور اندیش اور باشعور طبقے کو اس خطرناک صورتحال کا احساس ہوا اور اس جارحیت کی مدافعت کرنے کیلئے اسباب اور وسائل پر فکر کرنے لگے، اگرچہ انکے پاس وسائل کی کمی تھی مگر جذبہ صادق اور دل کی لگن اور اخلاص سے مالا مال تھے۔ انہوں نے اس کا مقابلہ کرنے اور قوم کی ابتر حالت بدلنے کیلئے عزم صمیم کرلیا۔ چنانچہ ایک مرد حق اور مرد مومن میرواعظ کشمیر مولانا غلام رسول شاہ صاحبؒ ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مصمم ارادہ کے ساتھ میدان عمل میں کود پڑےجو ایک دور اندیش، حق شناس ، دور بین نظر ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔
انہوں نے اپنے مواعظ حسنہ کے ذریعے عوام کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرنے کےساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی طور پر بیدار ہونے کا پیغام دینا جاری رکھااور توہمات، شرکیات ، بدعات ، خرافات اور رسوم کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے اپنےکام میں مزید سرعت لائی۔ انہوں نے محسوس کیا تھا کہ ملت اسلامیہ کو ذہنی فکری ، سماجی اور سیاسی غلامی سے نجات دلانے کیلئے تعلیم کو عام کرنا بڑی اہمیت کا حامل معاملہ ہے ،اس لئے ناخواندگی اور جہالت کے اندھیروں سے عوام کو نکال کر علم کی روشنی سے منور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔چنانچہ انہوں نے ملت کے باشعور، مخلص اور ہمدرد شخصیات کے ساتھ ملکر حالات کو بدلنے کیلئے باہمی مشاورت کے تحت ایک منظم تعلیمی انجمن نصرۃ الاسلام کی بنیاد ڈالی، جسکے آپ بانی صدر بن گئے۔ اس پر خلوص تحریک کی نمائندگی کرتے ہوئے انہوں نے محسوس کرلیا کہ تعلیم جدید کے ساتھ ساتھ اگر مسلمانوں کو اپنے ماضی کے ساتھ وابستہ نہ رکھا جاے تو مستقبل قریب میں کشمیر میں بھی طاغوتی قوتوں اور ارتداد کا دور دور ہ شروع ہونے کا احتمال ر ہے گا۔ لہٰذا انجمن نصرۃ الاسلام کے زیر اہتمام ۱۸۹۹ء مطابق ۱۳۱۷ھ ربیع الاول میں راجوری کدل میں اسلامیہ اسکول کی بنیاد ڈالی۔۔ پہلے یہ مڈل سکول تھا پھر رفتہ رفتہ یہ ہائی اسکول بن گیا۔ وادی کشمیر کے طول وعرض میں اس کی شاخیں پھیلائی گئیں اور یہ تعلیمی مہم وادی گیر سطح پر جاری رکھی۔علاوہ ازیں اسلامیات ، اخلاقیات اور دینیات کی تکمیل کیلئے ’’ اسلامیہ اورینٹل کالج کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ۔ اس طرح انہوں نے علم کی ایک ایسی مشعل روشن کی، جس سے قوم کے اندر سیاسی، سماجی اور اقتصادی بیداری پیدا ہوگئی اور ملت کو اپنی منزل مقصود نظر آنے لگی۔
میرواعظ مولانا رسول شاہ صاحبؒ علوم عربیہ دینیہ کے مبلغ اور پرچارک ہونے کے علاوہ اہل کشمیر اور بالخصوص یہاں کے مسلمانوں کیلئے جدید اور مروجہ انگریزی علوم کے بھی نقیب اور دائی تھے ۔ اس لئے قدیم تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کی بھی انہوں نے بھر پور وکالت کی جو یقینا وقت کی پکار تھی، اگرچہ اس موقف کو فروغ دینے پر انہیں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کہ انگریزی پڑھنا گویا عیسائی اور غیر مسلم بن جانا ہے۔ بہر کیف انہوں نے سرینگر میں اپنے محدود وسائل کے ذریعے ادارہ انجمن نصرۃ الاسلام کی بنیاد ڈال دی تھی، جس کا مقصد سیاسی اور سماجی بیداری کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو زیادہ تر سرکاری ملازمتوں میں حصہ دلانا بھی تھا تاکہ ملکی معاملات اور انتظامات میں انکا بھر پور حصہ ہو اور جس میں وہ محیر العقول طور پر کامیاب ہوئے۔
دراصل تعلیمی تحریک کو احسن طریقے اور کامرانی کے ساتھ انجمن نصرۃ الاسلام کا قیام اور اسے چلانے کے لئے کشمیر کے باشعور مخلص اور ہمدرد لوگوں کا انتخاب کیا گیا ،جنہوں نے نہایت جان فشانی اور اخلاص کے ساتھ انکا ساتھ دیا اور اس طرح انجمن نصرۃ الاسلام کی تاسیس عمل میں آئی ۔ تاسیس انجمن کے سلسلہ میں جو لوگ اس وقت معاملات میںمعاون و مددگار تھے اور جنہوں نے دامے، درمے، قدمے اور سخنے اس کا ر خیر میں معاونت کی تھی، اُن میں خواجہ حسن شاہ نقشبندی، خواجہ عزیز الدین کائوسہ، مفتی اعظم کشمیر محمد شریف الدین ، خواجہ عبدالصمد ککرو، مفتی ضیاء الدین ، مولانا سلام الدین فاروقی( امام درگاہ حضرت بل)، خواجہ ثناء اللہ شال کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں۔ ان کی قیادت میں یہ ادارہ خوب پھلا اور پھولا اور کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا گیا ۔
میرواعظ رسول شاہ صاحب نے جو مشعل ۱۸۹۹ء میں روشن کی، اسکی شعاعیں اور تابناکی کشمیر کے طول و عرض میں پھیل گئی، جہالت و ناخواندگی کی تاریکیاں روشن خیالی اور بیداری میں تبدیل ہو گئیں، عوام اپنے خیر و شر کو سمجھنے لگے ، اچھائی و برائی جہالت و دانائی ، غفلت و بیداری ، کم ہمتی و جرأتمندی ، محکومی و مختاری سستی و محنت کشی اور دوست و دشمن میں تمیز بھی سمجھنے لگے۔ چنانچہ وادی کا یہ پہلا ادارہ ہے جہاں سے یہاںکے عوام تعلیم سے آراستہ ہوئے اور آگے چل کر ریاست میں دور حاضر کے مشاہیر ثابت ہوئے اور ریاست کی انتظامیہ میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہوکر ریاست کی تعمیر و ترقی میں اہم رول ادا کرتے رہے.چنانچہ ہم عصر ادارے شہرت یافتہ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ، بین الاقوامی مرکز علوم اسلامیہ دارالعلوم دیوبند ، ندوۃ العلماء لکھنو اور تاریخی انجمن حمایت اسلام لاہور کی عظیم تحریکوں کے ساتھ ساتھ ارض کشمیر میں انجمن نصرۃ الاسلام کے قیام کی تحریک ایک جیسے حالات کے تقاضے، مطالبات کی پیداوار ہیں۔اس کے تحت انجمن نصرۃ الاسلام کے تین ادارے ہیں۔
(۱) شوریٰ عام ( جنرل کونسل)،
(۲) مجلس عاملہ (ورکنگ یا مجلس منتظمہ)
(۳)مجلس شوریٰ (ایڈوائزری بورڈ)
جو انجمن نصرۃ الاسلام کے صدر کے تحت کام کریں گے۔
انجمن کا ماٹو قرآن کریم کے سورہ محمد آیت ۴۷۔۷ سے اخذ ہے۔
ان تنصرو اللہ و ینصرکم یعنی اگر آپ اللہ کی اعانت کریں گے یعنی اسکے حکم اور پیغام کو پھیلانے میں کوشش کریںگے تو وہ (اللہ ) آپ کی مدد کریگا ور آپ کو مضبوطی اور ثابت قدمی عطا کریگا۔
(۱) کتاب و سنت کی تعلیم و ترویج۔
(۲) اسلامی تعلیم کے علاوہ مروجہ تعلیم سے نئی نسل کو آراستہ کرنا۔
(۳) مسلمانوں کے کردار کو اسلامی اقدار کا آئینہ دار بنانا۔
(۴) مذہبی، اخلاقی، اقتصادی ، تہذیبی اور سماجی امور میں عوام کی مثبت اور صحیح رہنمائی کرنا۔
(۵) جدید تعلیم اور مذہب میں توازن پیدا کرنا۔
(۶) اخلاقی اور روحانی اقدار کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی انسانیت کے کاز کو تقویت پہونچانا۔
(۷) مسلمانوں میں امت وسط کے تصور کو جاگزیں کرکے ان میں اتحاد پیدا کرنا ۔
ان ہی اغراض و مقاصد کی آبیاری کیلئے انجمن نصرۃ الاسلام پچھلے سوا سو سال سے خلوص کے ساتھ کام کرتی آرہی ہے۔
انشاء اللہ انہیں خطوط پر مستقبل میں بھی ملت کی رہنمائی کرتی رہے گی اور اپنا دائرہ کار بڑھاتی رہے گی۔
بانی صدر انجمن نصرۃ الاسلام میرواعظ رسول صاحبؒ کی وفات کے بعدبمطابق ۱۱ رجب ۱۳۲۷ء جولائی ۱۹۰۹ء جن اصحاب باکمال نے انجمن کی صدارت سنبھالی ان کے اسماء گرامی یوں ہیں۔
(۱) میرواعظ مولوی احمد اللہ صاحبؒ
جولائی ۱۹۰۹ء سے اپریل ۱۹۳۱ء برادر رسول شاہ صاحبؒ۔
(۲) میرواعظ مولوی عتیق اللہ صاحبؒ
اپریل ۱۹۳۱ء سے ۱۹۶۲ء برادر رسول شاہ صاحب
(۳) میرواعظ مولوی محمد یوسف شاہ صاحبؒ
۱۹۳۱ء سے ۱۹۴۷ء مہاجر ملت جنرل سیکریٹری فرزند میرواعظ رسول شاہ صاحبؒ
(۴) مولوی محمد امین صاحبؒ
مئی ۱۹۶۲ء سے نومبر ۱۹۶۳ء
(۵) شہید ملت میرواعظ مولوی محمد فاروق صاحبؒ
نومبر ۱۹۶۳ء سے مئی ۱۹۹۰ء فرزند مولوی محمد امین صاحب
(۶) میرواعظ مولوی محمد عمر فاروق صاحب
مئی ۱۹۹۰ء سے لیکر تاحال فرزند شہید ملت میرواعظ مولوی محمد فاروق صاحب
اللہ تبارک و تعالیٰ حضرات میرواعظین کو اجر دارین عطا کریں۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ مدارس اسلامیہ ہائی سکولز کے ساتھ ساتھ اور ینٹل کالج کی وسعت کی طرف خاص دھیان دیا گیا ،جہاں مسلمان بچوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات حاصل کرنے کے ساتھ تحقیقی مطالعہ کا بھی موقع فراہم کیا جارہا ہے۔ جہاں منشی اول ، منشی عالم ، منشی فاضل کی سندیں دی جاتی ہیں۔ مگر اب کشمیر یونیورسٹی کے تحت مولوی، مولوی عالم اور مولوی فاضل کی اسناد دی جاتی ہیں اور ان طلباء کو مفت تعلیم ، کتابوں کے علاوہ قیام و طعام کا انجمن کی طرف سے مفت اہتمام کیا جاتا ہے۔
مولانا رسول شاہ صاحبؒ میانہ قد کے ایک وجیہ اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ چہرہ سے وقار اور سنجیدگی ٹپکتی تھی۔ لباس میں اچکن، شرعی پاجامہ اور سر پر سفید مگر گول دستار پہننا زیادہ پسند کرتے تھے ۔ محافل وعظ کے موقع پر کامدار مائل بہ سنہری چوغہ جسم پر ہوتا تھا۔ موسم سر ما میں پشمینہ کا دوشالہ اوڑھتے تھے ۔استغنا اور بے نیازی کی یہ کیفیت تھی کہ ایک موقع پر مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے سرکاری خزانہ عامرہ سے ایک معقول رقم بطور ہدیہ پیش کرنا چاہی لیکن آپ نے یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا کہ خدا پر انکا بھروسہ ناقابل متزلزل ہے اور وہی میرے لئے کافی ووافی ہے۔
مولوی رسول شاہ صاحبؒ نے جو رفاہی امور انجام دئے ان میں عالی مسجد عیدگاہ سرینگر کی تعمیر و ترمیم ہے، اسکے علاوہ جامع مسجد سرینگر اور دیگر مساجد کی تجدید و مرمت کا بھی آپ نے بیڑا اٹھایاتھا۔ سرینگر کشمیر کی متعدد خانقاہیں جن میں خانقاہ نقشبندیہ خاص طور پر قابل ذکر ہے ۔ آپ کی مساعی سے مرمت پذیر ہوئی۔
اپنے وقت میں میرواعظ مولانا رسول شاہ صاحبؒ عربی اور فارسی کے جید عالم تھے۔ اس لئے شاگردوں اور تشنگان علوم کی بہت بڑی تعداد آپ سے فیض حاصل کرتے تھے۔ مولانا مرحوم کے تلامذہ اور شاگردوں میں قابل ذکر ہستیاں حسب ذیل ہیں۔
خواجہ حسن شاہ نقشبندی، خواجہ محمد شاہ نقشبندی، میر محمد شاہ قادری ، میر محمد یوسف کنٹھ صفاکدل، مولوی حسن شاہ واعظ، میر بہائو الدین قادری، میر محمد فاضل کنٹھ، مولوی ضیاء الدین (مفتی خانقاہ معلی، والد ماجد پروفیسر مفتی جلال الدین صدر مفتی) مولوی محمد حسن، مفتی محمد شاہ سعادت، مولوی احمد اللہ (مفتی حاجن)، مفتی محی الدین جامعی، مولوی غلام محمد لولابی ،حافظ محمد حسن، مرحوم امام مسجد گاڑیار زینہ کدل۔ان میں مفتی محمد شاہ سعادت مورخ کشمیر اورینٹل کالج انجمن نصرۃ الاسلام کے معلم بھی تھے۔
میرواعظ رسول شاہ صاحبؒ کے چار فرزند تھے۔ بڑے بیٹے کا نام مولوی محمد حسن تھا ۔ا ٓپ عالم باعمل اور قرآن و حدیث کے عالم تھے۔ شافعی مسلک سے تعلق رکھتے تھے ۔ ۵۴ برس کی عمر میں رحمت حق ہو گئے ۔ دوسرے فرزند کا نام گرامی مولانا محمد یوسف شاہ صاحبؒ تھا، مسلک حنفی سے تعلق تھے ۔ آپ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے مولوی فاضل (آنر ز عربک) ہونے کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل بھی تھے۔ نیک، صالح اور متقی تھے ۔ اپنے چچا مولوی احمد اللہ صاحب کی وفات پر مولانا عتیق اللہ کے ایماء پر منصب میرواعظ سنبھالا اور جولائی ۱۹۴۷ء تک یہ فریضہ بحسن خوبی انجام دیتے رہے۔ اگست ۱۹۴۷ء میںپاکستان کی طرف ہجرت کر گئے اور وہیں پر(اسلام آباد پاکستان) میں ۱۶ ماہ رمضان ۱۳۹۱ میں بروز جمعہ ۷۸ برس کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ آپ انجمن نصرۃ الاسلام کے جنرل سیکریٹری اور کارگزار صدر بھی رہے اور اورینٹل کالج کی توسیع و تجدید کا کام بھی انجام دیا۔ کشمیری زبان میں ’’بیان الفرقان‘‘ تفسیر آپ کی یادگار ہے۔ باقی دو فرزند مولوی محمد یحیٰ اور مولوی محمد شاہ صاحب تھے۔ دونوں یکے بعد دیگر انجمن نصرۃ الاسلام کے جنرل سیکریٹری کے عہدے پر رہ چکے ہیں۔
میرواعظ مولانا رسول شاہ صاحب چند روز کی مختصر علالت کے بعد جمعۃ المبارک ۱۱ رجب المرجب۱۳۲۷ھ (۳۰ جولائی ۱۹۰۹ء) کو خدا کے پیارے ہو گئے اس قت انکی عمر ۵۴ سال تھی۔ اس طرح سے روشنی کا یہ مینار، نیر اعظم ،کشمیر میں جہالت کے اندھیروں کو دور کرکے علم کی روشنی اور تابنا کی پھیلا کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا لیہ راجعون۔ اللہ ان جملہ مرحومین و مغفورین میرواعظین کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔آمین
۱۹۴۷ء کی سانحہ کے بعد اسلامیہ ہائی سکول کی حالت بگڑنی شروع ہوئی۔اِ دھر میرواعظ محمد یوسف شاہ صاحب مہاجر ملت کو پاکستان میں رہنا پڑا۔ اُدھر حکومت وقت کی عوام مخالف پالیسی خاص کر انجمن نصرۃ الاسلام کے تئیں غیر ہمدرانہ رویے کے تحت تعلیم و تربیت کے اس مرکز کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ حکومت کی طرف سے مل رہی گرانٹ بند ہوئی اور ہر قدم پر مخالفانہ حالات کا مقابلہ کرنا پڑا۔ نومبر ۱۹۵۵ء میں تاریخی اسلامیہ ہائی سکول کی بلڈنگ واقع راجوری کدل اور پھر دوبارہ جولائی ۲۰۰۴ء نذر آتش کی گئی۔ مگر زندہ دلان قوم اور بہی خواہان ملت کے امنگوں اور ولولوں میں کوئی فرق نہیں آیا اور اللہ کے فضل و کرم اور عوام کے سرگرم اشتراک سے دونوں مرتبہ اسلامیہ اسکول کی تعمیر نو کا کام شایان شایان طریقے پر مکمل کیا گیا۔
اپنے دور صدارت میں شہید ملت میرواعظ مولوی محمد فاروق صاحب نے پورے عزم کے ساتھ انجمن نصرۃ الاسلام کی مشعل کو فروزاں رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور اس کے تعلیمی مشن کو ہر ممکن طور پر آگے بڑھانے کی بھر پور کوشش کی۔ مگر قوم دشمن عناصر کے ہاتھوں انکی شہادت سے اس مشن کو پھر سے زک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ اللہ کے فضل و کرم سے مئی ۱۹۹۰ء شہید ملت کے جانشین اور فرزند مولوی محمد عمر فاروق صاحب نے منصب میرواعظ کشمیر کے ساتھ ساتھ صدر انجمن نصرۃ الاسلام کا عہدہ سنبھالااور اس مشن حق کو آگے بڑھانے کیلئے مصروف عمل رہے۔انہوں نے ذاتی دلچسپی لیکر تعلیمی نظام میں سدھار اور بہتری لائی ہے۔ طلباء ارو طالبات کی سہولیت کیلئے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے ۔ ہائی سکول کو ۲۰۰۲ء میں بڑھا وا دیکر ہائیر سیکنڈری سکول (برائے طالبات) بنایا گیاہے اور محکمہ تعلیم سے منظوری ملتے ہی اسے گریجویٹ سطح تک بڑھایا جائیگا۔ اسلامیہ اورینٹل کالج کی بہتری اور ترقی کیلئے بھی کئی سطح پر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں تاکہ طلباء کو قرآن و حدیث کی تعلیمات سے آراستہ کیا جاسکے۔
بہر حال اس وقت اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ قوم کے مخلص ہمدرد اور فرض شناس لوگ آگے آئیں اور اس نیک مشن میں انجمن کا ہاتھ بٹائیں تاکہ تعلیم کا معیار مزیدبڑھایا جائے ۔انجمن کے اغراض و مقاصد میں اس عزم کو اولیت حاصل ہے کہ قوم کے نوجوان نسل کی صحیح تربیت ہو، تاکہ وہ آگے چل کر ملت کی موثر رہبری کر سکیں اور اسلامی تعلیمات کے تحت ایک بہتر سوسائٹی قائم کریں۔
آیئے! ہم سب اسلاف اور بانی انجمن نصرۃ الاسلام ’’سرسید کشمیر‘‘ مرحوم میرواعظ کشمیر مولانا رسول شاہ صاحبؒ کا نیک مشن آگے بڑھانے میں جٹ جائیں۔ یہی اس مرد درویش اور محسن قوم کے تئیں ہمارا خراج عقیدت ہوگا اوریہی چیز اس ملت اورقوم کی ایک بڑی خدمت ہوگی۔
�����