فیاض جمال بٹ
قارئین کرام آداب۔ہم وقتاً فوقتاً مختلف ادبی شخصیات سے آپ کو متعارف کراتے رہتے ہیں۔ آج ہم آپ کی ملاقات وادی کے نامور ادیب، قلمکار ، افسانہ اور ناول نگار جناب نور شاہ صاحب سے کروا رہے ہیں۔نور شاہ کسی تعارف کے محتاج نہیںہیں۔نور شاہ صاحب کی زندگی اب تک کیسے گزری ،آیئے اُن سے ہی جانتے ہیں۔
سوال:- اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیے کہ آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے اور آپ کی ابتدائی تعلیم کہاں ہوئی ؟۔
جواب:- جنابِ ِ والا میں کشمیر کی سب سے خوبصورت بستی ،جو کوہِ زبرون کے دامن اور جھیل ڈل کے قریب آباد ہے اور سیاحوں کے لئے بھی بڑی دلچسپ جگہ ہے، میری مراد ڈلگیٹ سے ہے، میں 1938 میں پیدا ہوا۔اور جہاں تک ابتدائی تعلیم کا سوال ہے تومیں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کی۔ اس کے بعد ایس پی ہائی سکول اور پھر امر سنگھ کالج سے تعلیم حاصل کی۔ یہ میری تعلیم کے بارے میں ہے۔ میں کسی یونیورسٹی میں نہیں پڑھا ہوں ۔
سوال:- ادب کے ساتھ کیسے وابستگی ہوئی؟۔
جواب :- ادب کے ساتھ ابتدا سے ہی بڑا شغف تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہم دو تین دوست چار چار آنے نکال کر کتاب خریدتے تھے اور باری باری کتاب پڑھتے تھے اور آخر پر میری باری ہوتی تھی۔ وہ اس لئے کیونکہ پھر کتاب میرے پاس رہتی تھی۔ اس وجہ سے میرے پاس بہت ساری کتابیں جمع تھیں۔ہمارے گھر میں بھی علمی ماحول تھا۔ میری والدہ پڑھی لکھی تھیں۔ اگر چہ کم ہی پڑھا تھا لیکن وہ اردو پڑھ بھی لیتی تھی لکھ بھی لیتی تھی۔اسی چیز کا اثر ہے کہ ہم چاروں بھائی پڑھے لکھے ہیں اور اچھے عہدوں پر بھی رہے ہیں۔ ہماری دو بہنیں بھی پڑھی لکھی ہیں ۔جہاں تک ادب کے ساتھ وابستگی کا سوال ہے۔شروع شروع میں، میں نے کشمیری زبان میں ایک مختصر ڈرامہ لکھا اور والدہ کے کہنے پر اُسے محلے کے ایک معزز اور پڑھے لکھے انسان کو دکھایا۔انہوں کہا کہ اب یہی کہانی تم اردو میں لکھو۔ میں نے وہی ڈرامہ اردو میں لکھا اور ان کودوبارہ دکھایا۔ انہوں نے وہ ڈرامہ پڑھ کر کہا کہ ایک تو تم اردو کی کتابیں پڑھا کرو اور دوسری بات یہ ہے کہ تم اردو میں ہی لکھو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں اردو میں لکھنے لگا۔ اگر وہ نہ کہتے تو شاید میں کشمیری زبان میں ہی لکھتا۔
سوال:- آپ کی پہلی تحریر کب شائع ہوئی؟۔
جواب:- میری پہلی کہانی ” بیسوی صدی ” نامی رسالہ میں1960 میںشائع ہوئی جہاں چھپنا بہت مشکل تھا ان دنوں۔ اس کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے۔ میں نے ایک کہانی بیسویں صدی کو بھیج دی۔ چند دن بعد مجھے خط آیا کہ ہم یہ کہانی نہیں چھاپ سکتے۔ بعد میں ،میں نے وہی کہانی نام بدل کر اور عنوان بدل کر شاہدہ شیر کے نام سے بھیج دی اور وہ کہانی چھپ گئی ۔یوں کشمیر سے ایک نیا نام سامنے آیا۔ بعد میں دھیرے دھیرے وہ راز بھی کھل گیا۔ ایک دن شکیل الرحمن اور حامدی کشمیری میرے گھر آئے۔ حامدی کشمیری مجھے جانتے تھے۔ انہوں نے شکیل الرحمن سے کہا کہ آپ تو مجھے شاہدہ شیر سے ملانے والے تھے ،یہ تو نور شاہ ہے۔ شکیل الرحمن نے کہا کہ یہی شاہدہ شیر کے نام سے لکھتے ہیں جناب۔ پھر میری ایک کہانی کا ہندی ترجمہ کر کے شائع کیا گیااور نیچے لکھا گیا کہ نور شاہ شاہدہ شیر کا اصلی روپ۔ اس طرح سب کو پتہ چلا کہ نور شاہ ہی شاہدہ شیر ہیں۔
سوال:- ہر شخص کا کوئی نہ کوئی آئیڈیل یا رہنما ہوتا ہے۔ ادب میں آپ کس سے زیادہ متاثر ہوئے اور افسانوی ادب کی طرف کیونکر راغب ہوئے؟
جواب:- نہیں کسی مخصوص شخص کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔ ہاں افسانوںمیںبچپن سے ہی دلچسپی تھی ۔میں ان دنوں کرشن چندر کو پڑھتا تھا۔ میں عصمت چغتائی کو پڑھتا تھا۔اساتذہ بھی بہت اچھے نصیب ہوئے جو بہت اچھے سے اردو پڑھاتے تھے ۔یہ بھی ایک وجہ ہے کہ میں اردو افسانوی ادب کی طرف راغب ہوا۔
سوال :- آپ نے متعدد افسانوی مجموعے لکھے ہیں ۔ہر ایک افسانے پر بات کرنا ممکن نہیں ہوگی لیکن آپ کا ایک افسانہ ” آسمان پھول اور لہو” میں نے دسویں جماعت میں پڑھا ہے۔ وہ افسانہ آپ نے کب لکھا ہے اور اس کے بارے میں کچھ بتانا چاہیں گے۔
جواب:- تاریخ مجھے یاد نہیں ہے ہاں یہ افسانہ میرے افسانوی مجموعے ” بے ثمر سچ” میں شامل ہے۔ ان دنوں کشمیر میں حالات کچھ ٹھیک نہیں تھے اور اس افسانے کو نصاب میں شامل کرنے سے پہلے ایک میٹنگ بلائی گئی جس میں شعیب رضوی صاحب تھے، مجید مضمر تھے، غلام نبی حلیم تھے۔ اس افسانے پر ایک طویل بحث ہوئی اور اس کے بعد یہ طے ہوا کہ یہ افسانہ نصاب میں شامل کرنے کے قابل ہے اور اس طرح یہ افسانہ نصاب کا حصہ بنا۔
سوال:- اگر جموں وکشمیر کی بات کریں گے تو اردو افسانوی ادب کو آپ کہاں دیکھتے ہیں ؟
جواب:- میں افسانوی ادب سے مطمئن ہوں۔ بہت اچھا کام ہو رہا ہے۔ہمارے کشمیر میں بہت اچھے لکھنے والے موجود ہیں اور اچھی خاصی ترقی ہو رہی ہے۔ ناول بھی لوگ لکھتے ہیں۔ نئے قلمکار بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔
سوال :- ابھی تک آپ نے جتنے افسانے لکھے ہیں۔ ان میں سے کون سا ناول یا افسانہ ایسا ہے جو آپ کو سب سے زیادہ پسند ہو اور جس پر آپ کو ناز ہو۔
جواب:- نہیں، میں یہ نہیں کہہ سکتا۔ہاں اللہ کا فضل و کرم ہے اور میری خوش نصیبی ہے کہ جو بھی کچھ لکھا ، اس کی لوگوں خاص کر ادبی دنیا میں کافی سراہنا ہوئی ۔یہاں تک کہ کرشن چندر سے پوچھا گیا تھا کہ آپ کشمیر کب گئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں کشمیر نہیں گیا ہوں لیکن میں نے کشمیر نور شاہ اور حامدی کشمیری کے افسانوں میں دیکھا ہے۔عصمت چغتائی سے پوچھا گیا کہ کشمیر کے افسانہ نگاروں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے تو انہوں نے مختصر جواب دیا کہ میں نور شاہ کو پڑھتی ہوں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میں مقامی اخبارات تک ہی محدود نہیں رہا۔میں نئے قلمکاروں سے بھی کہتا ہوں کہ آپ بھی اپنی تحریروں کوکشمیر تک محدود نہ رکھیںبلکہ باقی دنیا میں بھی کشمیر کی ترجمانی کریں۔
سوال:- آپ کا پسندیدہ افسانہ نگار کون ہے؟۔
جواب:- یہ رہنے دیجئے۔ میرے دشمن مت بنائیے۔ سبھی لوگ اچھا لکھتے ہیں۔
سوال:- ادب سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ کیا آپ سرکاری ملازم بھی رہ چکے ہیں ؟۔
جواب:- جی ہاں میں ڈائریکٹر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سبکدوش ہوا ہوں۔
سوال :- تو اس کا مطلب ہے کہ سرکاری ذمہ داری آپ کے ادب میں رکاوٹ نہیں بنی؟۔
جواب:- مجھے دراصل بہت اچھا ماحول ملا۔ میں کھادی بورڈ میں کام کرتا تھا اور وہاں ایک میگزین نکلتا تھا ” دیہات سدھار ” جس کا مجھے ایڈیٹر بنایا گیا۔ اس سے مجھے ادب میں مزید ترقی کرنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد میں مختلف عہدوں پر فائز رہالیکن سرکاری کام ادبی سفر میں حائل نہ ہوا۔
سوال :- اردو زبان کی موجودہ حالت کے بارے میں بتایئے ؟
جواب :- ٹھیک ہے لیکن انتظامیہ سے جس تعاون کی امید کی جاتی تھی، وہ نہیں مل رہا ہے۔ اس حوالے سے جو ادارے کام کر رہے ہیں وہ بھی کسی حد تک کمزور پڑ گئے ہیںاور اردو کی ترویج کے لئے زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں ۔تاہم اس کے باوجود میں یہی کہوں گا کہ کشمیر میں اردو زبان نہیں مر سکتی اور ہاں ہمیں اردو کے ساتھ ساتھ کشمیری زبان کے لئے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہماری مادری زبان ہے۔ اس کی حفاظت کرنا اور اس کی ترویج کرنا ہمارا فرض ہے۔
سوال:- نئی نسل کے لئے آپ کا کیا پیغام رہے گا خاص کر نئے قلمکاروں کے لئے؟۔
جواب :- بس اُنہیںمطالعہ جاری رکھنا چاہئے ۔جس کو وہ پسند کرتے ہیں یا جو پڑھنے کے قابل ہیں،اُنہیں مسلسل پڑھنا چاہئے کیونکہ پڑھنے سے ذہن کے دریچے کھل جاتے ہیں۔ پڑھنے سے ہی اردو ،کشمیری، گوجری، پہاڑی اور باقی زبانوں کی ترقی ہو گی۔پڑھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ مطالعہ نہایت ضروری ہے۔
سوال :- اس وقت آپ کی کیا مصروفیات ہیں ؟۔
جواب :- میں پڑھتا ہوں اور آج بھی ادب کی خدمت میں مشغول ہوں اگر چہ طبیعت بھی اب ناساز ہی رہتی ہے۔
(فیاض جمال بٹ صحافی، سماجی کارکن، قلمکارہیں)
رابطہ۔ چک ِ وٹو اہرہ بل، کولگام کشمیر
موبائل نمبرات۔7006805480 ، 9906825078
(مضمون میں ظاہر ک گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)