کشمیر: اپریل کے مہینے میں 2 لاکھ 60 ہزار سیاح وارد وادی

یو این آئی
سری نگر// اپنے منفرد قدرتی حسن و جمال کے لئے دنیا بھر میں مشہور وادی کشمیر میں سال رواں کے ابتدائی مہینوں کے دوران سیاحوں کی ریکارڈ ساز آمد درج کی جا رہی ہے۔

 

سرکاری ذرائع کے مطابق ماہ ا پریل میں قریب دو لاکھ 60 ہزار سیاح وادی کے حسین نظاروں سے محظوظ ہوئے ہیں جو گذشتہ ایک دہائی کے دوران ایک ریکارڈ ہے۔

 

سیاحوں کی تعداد میں درج ہو رہے غیر معمولی اضافے کے پیش نظر سری نگر ہوائی اڈے پر روزانہ قریب ایک سو پروازیں آپریٹ کر رہی ہیں۔

 

ادھر سری نگر اور وادی کے سیاحتی مقامات جیسے گلمرگ، پہلگام وغیرہ میں ہوٹلوں کے تمام کمروں کی بکنگ ہوئی ہے جبکہ دیگر گیسٹ ہاوسز اور ہاوس بوٹس بھی گنجائش کے مطابق بھرے ہوئے ہیں۔

 

وادی کشمیر میں سیاحتی سیزن اس وقت پورے شباب پر ہے اور آئے روز سینکڑوں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح وارد کشمیر ہو رہے ہیں ۔

 

محکمہ سیاحت کے ایک سینئر آفیسر نے کہا کہ گذشتہ دس برسوں میں پہلی بار امسال سیاحوں کی اتنی بڑی تعداد وارد وادی ہوئی ہے۔

 

ان کا کہنا تھا کہ ماہ اپریل کے دوران ہی دو لاکھ ساٹھ ہزار سیاحوں نے کشمیر کی سیر کی جو گزشتہ دس برسوں کے دوران ایک ریکارڈ ہے۔

 

انہوں نے بتایا کہ رواں سال کے جنوری مہینے میں 61 ہزار سیاحوں نے وادی کشمیر کے قدرتی نظاروں کا لطف اُٹھایا۔

 

انہوں نے بتایا کہ فروری میں 1 لاکھ پانچ ہزار ، مارچ میں 1لاکھ 80 ہزار جبکہ اپریل کے مہینے میں سب سے زیادہ 2 لاکھ 60 ہزار سیاح وارد کشمیر ہوئے ۔

 

اُن کے مطابق رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں بھی ہزاروں کی تعداد میں ملکی سیاح وادی کشمیر کی سیر وتفریح پر آئے ہیں اور اس وقت سیاحتی مقام سیاحوں سے بھرے پڑے ہوئے ہیں۔

 

انہوں نے مزید بتایا کہ وادی کشمیر میں نئے سیاحتی مقامات کو نقشے پر لانے کی خاطر بھی اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں۔

 

موصوف آفیسر نے بتایا کہ حکومت نے لگ بھگ 75 نئے سیاحتی مقامات کی نشاندہی کی ہے ۔

 

دریں اثنا ہوٹل مالکان کا کہنا ہے کہ رواں سال سیاحوں کی ریکارڈ تعداد وادی کشمیر آئے ہیں۔

 

علاوہ ازیں وادی میں سیاحوں کی ریکارڈ ساز آمد سے سیاحت سے جڑے لوگ انتہائی خوش دکھائی دے رہے ہیں۔

 

ان کا کہنا ہے کہ امسال کئی برسوں کے بعد ہمارا کاروبار پٹری پر آکر ایک بار پھر رفتار پکڑنے لگا ہے۔

 

قابل ذکر ہے کہ شعبہ سیاحت کشمیر کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڑی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے ساتھ یہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی روزی روٹی جڑی ہوئی ہے۔

 

اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس شعبے کا استحکام وادی میں بے روزگاری کے مسئلے کو کافی حد تک دور کرنے کی گنجائش ہے۔