کشمیر امن وقانون کا مسئلہ نہیں!

  ریاستی پولیس کے سر براہ نے عسکریت پسندوں کو واضح الفاظ میں متنبہ کیا ہے کہ وہ پولیس اہل کاروں اور افسروں کے اہل خانہ کو شورش کے بیچ میں نہ لائیں اور لڑائی کو اپنے اور وردی پوشوں تک محدو د رکھیں ۔ اس حد تک ان کی بات میں دم بھی ہے اور وزن بھی ہے لیکن اپنے بیان کے دوسرے جملے میں ا ن کا جنگجوؤں سے براہِ راست مخاطب ہو کر یہ پوچھنا کہ اگر پولیس نے آپ کا جیسا معاندانہ رویہ آپ کے افراد ِ خانہ کے ساتھ رکھا تو ان کا کیا ہوگا ؟ یہ نکتہ متعلقین کے لئے غور طلب ہے۔ڈائرکٹر جنرل پو لیس کا یہ انتباہ اس خبر کے بعد سامنے آیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھاکہ جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان میں ملی ٹینٹوں نے ایک پولیس آفسر کے گھر میں گھس کر ان کے افراد ِ خانہ کو ڈرا یادھمکایا۔ اس کڑی وارننگ کا عسکری حلقوں میںکیا اثر ہو تا ہے اور وہ اس پر کیا ردعمل ظاہر کر تے ہیں ، اس سے صرف نظر کر تے ہوئے یہ ایک حقیقت ہے کہ پولیس چیف کے اس اندازکلام سے عسکریت پسندوں کے اہل خانہ اور ان کے عزیز واقارب میں سرا سیمگی پھیل گئی ہے جن کا قصور سوائے اس کے کچھ نہیں کہ عسکریت پسند ان سے خونی رشتہ رکھتے ہیں ۔ اس رشتے کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں ہوسکتا لیکن جو نوجوان عسکریت کی راہ اپنالیتے ہیں،خال خال بھی اُ ن کے اہل خانہ کی ا س میں کوئی رضامندی شامل نہیںہو تی ،اکثرو بیشتر تر یہ نوجوان خود ہی اپنی مرضی سے عسکریت کا را ستہ اختیار کرلیتے ہیں ۔ عسکریت کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی جنگجو نوجوان کے بھائی بند کا کام تمام کرنے یا اس کے اہل خانہ کو بری طرح ستانے کا آج تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ خالد مظفر وانی کو محض برہان وانی کا بڑا بھائی ہو نے پر فورسز نے جان بحق کیا، شاید اس خام خیالی میں بہک کر کہ اس سے برہان عسکریت کی دنیا سے واپس لوٹیں گے مگر اس قتل ناحق سے برہان کے عزم وارادے میں کوئی تزلزل پیدا نہ ہوا، ہاں ،اُن کے والدین کو فورسز کے عتاب سے بچنے کے لئے بے گھر ہونا پڑا اور دیگر تکالیف کا سامنا کر نا پڑا۔ یہ بھی ایک کھلا راز ہے کہ عسکری نوجوان کے گھروالوں کے لئے سارا معاملہ دودھاری تلوار کے مانند بنا رہتاہے ، انہیں بلاوجہ انتقام کی بھینٹ چڑھنا پڑتاہے ،ا ن کا سکون وآرام برباد کیا جاتا ہے ، پولیس اور فورسز کے ہاتھوں توڑ پھوڑ ان کے گھروں کا مقدر بنا رہتا ہے، قید وبند اور ڈراؤ دھمکاؤ سے بھی اُنہیں پالا پڑتا ہے ۔ ا س ساری رام کہانی کے باوجود عسکری جوان نہ اپنی اختیار کردہ راہ چھوڑتے ہیں ، نہ ان کے اعزہ واقارب ان کو عسکری کارروائیوں سے روکنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ا فسوس کہ یہ نہتے لوگ ہمیشہ دو متحارب  طاقتوںکے بیچ بری طرح پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ بنا بریں عقل اور عدل کا تقاضا یہی ہے کہ پولیس عساکر سے کہے جنگ حربی فریقوںکے درمیان رہے نہ کہ غیر حربی رشتہ داروں تک پھیلائی جائے۔ عسکریت پسندوں کو بھی یہ امر واقع ذہن نشین کر نا چاہیے کہ جو لوگ پولیس کی صفوں میں بہ حیثیت ایک سرکاری ملازم کے اپنی مفوضہ ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہیں ، ان کے اہل خانہ کا ان کی ڈیوٹی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ، مزید برآں یہ بات ان کی دسترس سے قطعی باہر ہو تی ہے کہ وہ متعلقہ فرد کو پولیس کا رروائیوں اور احکامات سے سر تابی کر نے پر آمادہ کرسکیں۔اس وجہ سے پولیس والوں کے کنبوں کی تنگ طلبی کر نا یا اُنہیں دھمکیاں دینا قطعی قرین عقل وانصاف نہیں ۔ اس طرح کی حرکات یا بیانات کا عوامی ذہنوں پر منفی اثر پڑ نا یقینی ہے ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ جب سے وادی کشمیر میں عسکریت کی ہوا چلی، پولیس نے فورسز کے شانہ بشانہ عسکریت مخالفانہ کردار اپنے اُتار چڑھاؤ کے ساتھاداکیا ۔ ا س بیچ پولیس کی معتد بہ نفری جھڑپوں، مڈبھیڑوں اور اہدافی قتل کے واقعات میں کام آتی رہی۔ ایک زمانے میں جب وادی بھرمیں منحر فین کا سیلاب اُمڈآیا تو پولیس ایس او جی نے عسکریت کی کمر توڑنے کے لئے جنگ جوؤں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ اس فورس نے فی الحقیقت اپنی جنگ بندوق برداروں تک محدود نہ رکھی بلکہ عسکریوں کے اہل خانہ ، حتیٰ کہ عام لوگوں کے ساتھ اتنی ڈھیر ساری زیادتیاں کیں کہ انہیں تحریر کرنے سے قلم بھی تھر تھر کانپ اُٹھتا ہے۔ اس فورس کی اندھا دُھند کارروائیوں سے بے شک عسکریت کو وقتی طور دھچکا لگا مگر یہ کارروائیاں ساتھ ہی ساتھ انتقام کی بھٹیاں بھی سلگاتی رہیں ۔ نتیجہ یہ کہ ان سے عسکریت ختم نہ ہو سکی بلکہ اس نے احتیاط اور اخفاء کے پردے میں جاری رہنے کے گُر سیکھ لئے ۔ لہٰذا یہ ایک زبردست مغالطہ ہو گا اگر کوئی یہ سمجھے کہ منحرفین اور ٹاسک فورس کی کارروائیوں سے کشمیر میں امن وآشتی کی ہوائیں چلیں، ہر گز نہیں، زیادہ سے زیاد ہ ان سے یہاں خوف، عدم ا عتماد اور غیر یقینیت کی زہر یلی فضا کو تقویت ملتی رہی ، انسانی حقوق کی مٹی مزید پلید ہوتی رہی ، عصمتیں داؤ پر لگتی رہیں ، ماردھاڑ کے شرم ناک قصے بنتے رہے ، فرضی جھڑپوں اور بے نام قبروں کی ایک لمبی سیاہ تاریخ رقم ہو تی رہی اور بس۔ انہی گھنگور گھٹاؤں سے اہل کشمیر کو نکال باہر کر نے کے لئے پی ڈی پی نے باعزت امن ، گولی نہیں بولی اور ایس اوجی کو کالعدم کر نے کے نعر ے بلند کر کے اپنے لئے ایک سیاسی اسپیس معرض وجود میں لایا۔ ان نعروں میں عام آدمی کے لئے اس وجہ سے بہت کشش تھی کیونکہ وہ ظلم وجبر کے ہتھکنڈوں سے باہر آکر راحت کی سانس لینا چاہتا تھا اوراُسے اپنی چادراور چا ر دیواری میں سرکاری بندوق کی دخل اندازی سے خلاصی چاہیے تھی۔انہی خواہشات یا مجبوریوںنے عام آدمی کو اپناقرعہ ٔ فال پی ڈی پی کے حق میں نکالنے کی ترغیب دلائی۔ کشمیر میں اس منظم و مضبوط سوچ کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ نیشنل کانفرنس جو ایس ا و جی کی جنم داتا ہے، کو عوامی ووٹ نے اقتدار سے برطرف کیا اور پی ڈی پی کی حکومت مفتی محمد سعید کی سربراہی میں قائم ہوئی ۔ مفتی حکومت نے ایس او جی اور منحرفین کے تئیں حکومتی پالیسیوں میں مطلوبہ حد تک نرمی لاکر زمینی سطح پر ایک خوشگوار تبدیلی ضرور لائی ،ا گرچہ ا س دوران عسکریت پسندوں کے خلاف ایکشن میں کوئی رُو رعایت نہ بر تی گئی۔ حق یہ ہے اسی حکومت کے زیر سایہ وہ سارے ممتاز عسکری چہرے یکے بعد دیگرے جان بحق کئے گئے جو پہلی بار حکومت ہند کے داخلہ سیکر ٹری کے ساتھ سری نگر میںبراہ ِ راست گفت وشنید کی میز پر آگئے تھے ۔ا لبتہ عام لوگوں یا عسکری جوانوں کے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ کو ئی چھیڑ چھاڑ نہ کی گئی۔ اس پالیسی کے علی الرغم اگر آج کی تاریخ میں پی ڈی پی پھر سے ایس اوجی کے اسلوب کار اور اس ذہنیت کو بروئے کار لائے تو اس کا اُلٹاا ثر ہونا لامحالہ ہے ، وہ بھی اس منظرنامے میںجب عسکریت یہاں پھر سے اپنے قدم جمارہی ہے ۔ ا س گھمبیرصورت حال میں موزوں یہی ہے کہ پولیس اپنی شبیہ عوام دوستانہ بنیادوں پر استوار کر نے پر اپنی توجہ مرکوز کرے ۔ نیز ارباب ِ حل وعقد یہ سمجھنے کی بھی زحمت گوارہ کریں کہ کشمیر امن وقانون کا مسئلہ نہیں بلکہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے جس کا منصفانہ سیاسی حل ہی تمام بیماریوں کا واحد علاج ہے۔