لاادریّت کے صحرامیںبھٹکنے والے پاکستانی شاعرجون ایلیاؔ نے وطن عزیزکے بارے میںلکھاہے کہ ’’کشمیرکانام بھی عجیب ہے۔یہ نام شایدعالم غیب خداوندہی نے رکھاہوگامگرہم اس کوغلط اداکرتے ہیں۔ہم کشمیر کے ’کاف‘ کو’زبر‘کے ساتھ اداکرتے ہیں جب کہ اس کے ’کاف‘ کو’پیش ‘کے ساتھ پڑھنااوراداکرناچاہیے یعنی ’کُش میر‘مطلب ’مارڈال‘ مرجا۔‘‘بیسویں صدی کے وسط میں میراوطن سیاست کے دلالوں کے بھینٹ چڑا اور المیہ کی علامت بن کر ابھرا۔کسی زمانے میں اس جگہ کو ’جنتِ ارضی‘ کہا جاتا تھا لیکن اب کئی دہائیوں سے وہ دوزخ میں سموئی ہوئی ہے۔آہوں،آنسئوں،سسکیوں اور گولیوںکی گن گرج،لٹتی عصمتوں اورآباد قبرستانوں والی اس بے اماں ریاست کو’کشمیر‘ کہتے ہیں۔خون آشام اور درد و الم کا پیکر میرا کشمیر۔جہاں کے شہر و دیہات میں کبھی مشامِ جاں کو معطر کرنے والے خوشبودار باغ اور لہلہاتے گلستان تھے۔جہاں نرگس اور ریحان کے پھلوں کی مہک رقصاں ہواکرتی تھی،جہاں کے پتھروں نے بھی پیاسوں کے لبوں کو تر کیا۔وہاں آج جابجا قبرستان آباد ہیں،خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے،ہوائیں مقید ہیں۔یہاں اب کوئل نہیں کوکتی،پپہیے نہیں چہکتے،بھونرے نہیں گنگناتے ۔ہر طرف کالے کوے کائیں کائیں کرتے ہیں۔نوآبادکار نے پھول جیسے بچے،جوان، عورتیں،عمر رسیدہ بزرگ حتی کہ جسمانی طور پر ناکارہ کشمیریوں کو قبروںمیں آباد کیا اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔کشمیری قوم صدیوںسے مختلف النّوع دبائوں اورمحرومیوںکی شکار رہی ہے اور عذابوںو آزمائشوں کے نہ ختم ہونے والے پُل صراط پر چلتے رہنا ان کا مقدر بن چکا ہے۔ قانون کے رکھوالے ہی ڈنکے کی چوٹ پر قانون شکنی کرتے نظر آتے ہیں ۔ قانون کے ’محافظ‘ کہیں قریب سے گزررہے ہوں تو قبر میں جاکر لیٹنے کو دل کرتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اذیت ناک لمحوں کو کشمیریوں کی تقدیر بنادئے ہیں۔ کشمیر میں پھول ، پتے، شجر، حجر غم کی ردائیں اوڑھے ہچکیاں لے رہے ہیں۔ نجانے کب تک دوزخ میں سموئی یہ بستی گھٹی گھٹی اور اکھڑی اکھڑی سانسیں لینے کا عذاب جھیلتی رہے گی۔ ہزاروں کا خون رات کی سیاہی میں جذب ہوا لیکن سحر ہوئی نہ اذاں۔ کشمیر میں ایسی ’جمہوریت‘ ہے کہ روشنی ، آواز ، حرکت ، ہوا اور پانی پابہ زنجیر ہیں۔سیاہی جیسے منجمد ہوکر رہ گئی ہے۔ کہرآلود لیل و نہار میں بھی یہاں زندگی اس قدر مجمد نہیں ہوتی۔ بازُو یوں شل نہیں ہوتے ۔ جسم اور ذہن اتنے مفلوج نہیں ہوتے، بلکہ ہلکی سی آنچ لگنے پر برف پگھلنے لگتی ہے۔ یخ بستہ ندی نالوں میں روانی آتی ہے۔ جھرنے آبشار جھر جھر بہنے لگتے ہیں۔ سانسوں میں گرمی، بوسوں میں تپش اوردھڑکنوں میں تیزی آجاتی ہے۔ لیکن اس سال بہار کا موسم ایسا کہرا ساتھ لایا کہ جھیلیں ، ندیاں ، دریا، آبشاروں کے ساتھ ساتھ یہاں کی ذی عقل و ذی حِس مخلوق ’انسان‘ کو بھی یخ بستہ کر گئی۔ سانسوں میں وہ گرمی باقی نہیں رہی۔ سلے سلے ہونٹ ، سرد برفآب بوسے، حرارت سے عاری بدن، نہ جنبش ، نہ حرکت۔ ہر شے برف ہوچکی ہے ۔ ہر طرف ہُو کا عالم ، یمین و یسار خاک و خون کے سمندر میں ہاتھ پیر مارہے ہیں۔ نہ جانے کتنی صورتیں خاک میں پنہاں ہوگئیں۔ غالبؔ نے ۱۸۵۷ء میں غدر کے بعد پیدا شدہ سنگینی صورت حال کو اپنے خطوط میں مبرہن کیا ہے ،لکھتے ہیں:
ـ’’میں زندہ ہوں لیکن نیم مردہ۔ہر روز مرگِ نَو کا مزہ چکھتا ہوں۔حیران ہوں کہ کوئی صورت زیست کی نہیں۔پھر میں کیوں جیتا ہوں؟ روح میری اب جسم میںاس طرح گھبراتی ہے،جس طرح طائر قفس میں۔کوئی شغل،کوئی اختلاط،کوئی جلسہ،کوئی مجمع پسند نہیں۔کتاب سے نفرت،شعر سے نفرت،جسم سے نفرت،روح سے نفرت۔یہ جو کچھ لکھا بے مبالغہ اور بیانِ واقع ہے۔‘‘
کشمیر میں متذکرہ صورتحال کئی صدیوں سے قائم ہے۔یہاں روز مرگِ نو کا مزہ چکھنا پڑتا ہے۔صدیوں سے عزیزواقارب اور شہری قتل ہوتے رہے۔ہر دور میں گھر بے چراغ کردئے گئے،کارواں لٹتے رہے،خون کے دریا بہتے رہے ۔استعماری طاقتون نے اس جنت ارضی کو شاہراہ، ستم پر لاکھڑا کیاہے۔ ایک ایسی شاہراہ ، جس پر خواجہ سگ پرست کی حکمرانی ہے اس لئے آدمی قید میں ہیں اور کُتے آزاد۔!شاہراہ ستم کے ہر نُکڑ پر آہنی پنجرے ہیں جس میں پیر و جوان قید ہیں۔ قیدیوں میں معمر و علیل بزرگ حضرات بھی ہیں۔ جو کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئے ہیں اور معصوم کم عمر بچے بھی جن کی اٹھتی جوانیاں ، پنجروں کی نظر ہورہی ہیں۔
گزشتہ ستّرسالوں سے کشمیر محصور ہے ۔ آئے روز حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ اقتدار کے نشے میں چُور حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی ان کی لاچاری اور عاقبت نا اندیشی کی واضح مثال ہے ۔حکمرانوں کو کشمیری بچوں کے ہاتھ میں پتھر تو نظر آتے ہیں لیکن پولیس کے ہاتھوں میںان معصوم سینوں کوچھلنی کرنے والی بندوق نظر نہیں آتی۔مارکسسٹ لیڈرو ممبر پارلیمنٹ ہند،سیتا رام یچوری ؔکے بقول ’جس چھرے والی بندوق سے دنیا کی سفاک ترین اسرائیلی فوج تک گریز کرتی ہے، وہ کشمیر کی اندر دھڑلے سے استعمال ہورہی ہے‘۔ ہندوستان کا کشمیریوں کے ساتھ’’ محبت‘‘ کے اظہار کا یہ طریقہ بہت نرالا ہے۔ پیلٹ گنوںسے معصوم بچوں اور بچیوں کی بینائی چھین کر ’جمہوریت ،کشمیریت وا نسانیت‘ کا فقیدالمثال عملی مظاہرہ پیش کیا جارہا ہے۔آٹھ سالہ معصوم آصفہ جوکہ کھلتی کلی تھی نفس کے بندوںاورہوس کے پجاریوںنے مندرمیںلے جاکے اُسے مسل دیا ۔ انسانیت شرمسارہے، وہ لوگ جن کوترقی یافتہ ہونے کازعم ہے،تہذیب کے بھیس میں ان بھیڑیوںنے شیطان کوبھی احساس کمتری کاشکارکیا۔شیطان بھی اللہ سے گلہ کررہا کہ مولیٰ یہ تومیرے کام ہیں،’انسان‘ مجھ سے میرامنصب کیوںکرچھین سکتاہے؟باضمیرافرادفیصلہ نہیں کرپارہے کہ مہذب اورقول و عمل کاپکاایسے’ انسان‘ہیںیامردودشیطان!
کشمیر میں یہ کوئی نئی چیز تو نہیں کب سے یہاں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ ہر موسم میں یہاں انسانی سروں کی فصل کاٹی جاتی ہے۔ یہاں کے دریا، کہسار، اشجار ، چرند، پرند اور انسان و حیوان سبھی خون اُگلتے ہیں ۔یہاںآبِِِ دست کے لئے بھی خون ہی استعمال ہوتا ہے۔ یہاں تو عرصہ ہوا کہ سب کچھ جل کر راکھ ہو چکا ہے۔ سرورِ چمن ہو یا قرار خاطر، جسم و جاں ہو یا عزت و ناموس ، مکان ہو یا مکین ۔ یہاں تو ہر طرف سناٹا ہے، کاخ و کوپر سناٹا ، در وبام پر سناٹا ، جدھر دیکھو سناٹا ، زبان، ضمیر پر سناٹا، ہر طرف سکوتِ مرگ طاری ہے۔ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے۔ بہار کب آئے کون جانے، کون بتائے۔ ہر ایک سر بہ زانو چپ سادہ لئے ’’ تماشہء لیڈر‘‘ دیکھ رہا ہے۔ نہ جانے کیا حال ہو جب تک بہار آئے!
خون کے پیاسوں نے نہتے نوجوانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھائی۔ سینکڑوں بینا لڑکوں کو نابینا بنایا ۔ پھر سے دور دور تک وادی میں قبرستان آباد ہوئے ،جن میں چنار کے سُوکھے زرد پتے خون کے دھبوں کی طرح بکھرے پڑے ہیں۔۔۔۔۔۔!!
ہماری وادی میں ہزاروں نئی قبریں ہیں۔ ۱۹۴۷ء سے اب تک کتنی مائوں کے لخت جگر و نورِ چشم زمین میں پنہا ہو گئے ۔ کتنے پھول تھے جو بِن کھلے مُر جھاگئے ۔۔۔۔۔ وہ کلیاں بھی تھیں جو کٹ کر خاک ہو گئیں ۔ یہاں ان قبروں میں وہ لوگ بھی مدفن ہیں جن کی کوئی شناخت بھی نہیں کی جا سکی ، جن کے نام اور پتہ بھی نہیں معلوم ۔ جو بغیر نہائے، کفنائے، رات کی تاریکی میں ان کے ناموں ، خوابوں اور آرزئوں کے ساتھ دفنائے گئے۔
سال ۲۰۱۸ء کا سورج بھی اہلیانِ کشمیر کے لیے تازہ مصیبتوں کی ’نوید‘ ساتھ لایاہے ۔تاریکی ہر سُو پھیلی ہوئی ہے ،ظلم وناانصافی ،قتل و غارتگری ،مفلسی و کسمپرسی اور معاشی بدحالی کی تاریکی ۔ماحول ایسا ہے کہ مانو تمام روشنیاں گل ہوچکی ہوں ۔فضا خاموش اور سوگوار ۔امن و انصاف کی قبا چاک ۔اک دھوپ تھی جوآفتاب کے ساتھ ہی رخصت ہوئی۔امید کی کوئی کرن دکھائی نہیںدے رہی تھی۔کھڑکیاں ،دریچے ،روشن دان سب بند ہوگئے ہیں ۔پرندے بھی گھونسلوں میں جا چھپے ہیں ۔ظلم کی کالی گھٹا چھا جانے سے اندھیرا کافی پھیل گیا ہے۔دُنیا کے ہر خطے میں نسیم ِصُبح مشامِ جاں کو معطّر کرتی ہے لیکن ایک خطہ ایسا بھی ہے جہاں کے مکین اس سے محروم ہیں ۔وہاں نسیمِ صبح فضا میں تحلیل شدہ اَشک آور گیس اور پاوا شل کی زہر آلود گیس، کھِلتی صبح کو مُرجھا دیتے ہیں ۔اس وادیِ بے اماں میں بیماریاں پیدا نہیں ہوتی بلکہ ایک منصوبے کے تحت بیماریاں لائی جاتی ہیں ۔بیساکھیوں پر چل رہے وہاں کے معاشی نظام کو رینگنے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ کمرِ ہمت جواب دے اور مزاحم سر ان طاقتوں کے سامنے جھک جائیں ۔۴۷ء سے اب تک کادورکشمیر کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے ۔گمنام قبرستان،گم شدہ لوگ،بے نشان قبریں،سر زمین ِبے آئین۔۔۔۔۔ !
اس عہد نے دنیا کے اس دعوے کو پھر سے غلط ثابت کیا کہ موجودہ دور ایک مہذب دور ہے ۔’مہذب لوگ ‘دنیا کے سپید و سیاہ کے مالک بن کر ان کو تہذیب سے آشنا کر رہے ہیں ۔آصفہ کے واقعے نے ثابت کردیا کہ کمزوروں ،لاچاروں ،بے کسوں ،بے گناہوں کو آزادی سے جینے کا کوئی حق نہیں ۔یہ بھی ثابت ہواکہ’ عزت‘ ،ذلّت کے کوٹھے کی لونڈی ہے۔اس کوحاصل کرنے کے لیے شریروں ،شرپسندوں کی کوٹھی سے تعلق لازمی ہے ۔انس عہدنے پھر سے ثابت کیا کہ امنِ عالم کے لیے بیٹھے ہوئے اقوام عالم کا متحد ہ کُو ر چشم وبے غیرت ٹولہ حقیقت میں کفن چوروں کی تنظیم ہے ،جو طاقتور اقوام کی رقاصائیں ہیں۔ اس نے ثابت کردیا کہ ترقی کے اس دور میں ابھی تک غلامی کا خاتمہ نہ ہوا۔یہ ’مہذب‘ تعلیم یافتہ لوگ ابھی بھی ذہنی پستی میں مبتلا ہیں ۔جہالت کا غلبہ ہے ۔ ’انسانوں‘ کی اس منڈی میں کشمیریوں کو ’انسانیت‘ کی تلاش ہے ۔ایک ایسی تلاش جس کی منزل کہیں گُم ہوچکی ہے۔۔۔۔
رابطہ :ریسرچ اسکالرکشمیریونیورسٹی،سرینگر