سرینگر//وادی میں’’فرن‘‘ نے اچانک تنازعہ کی شکل اختیار کر لی ہے،جبکہ سیول سیکریٹریٹ اور محکمہ تعلیم کے زونل دفاتر میں اس کے پہننے پر پابندی عائد کرنے کے بعد سیاسی حرارت میں بھی تیزی آئی ہے۔عمر عبداللہ نے پھرن پر پابندی ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے افسوسناک قرار دیا ہے جبکہ انجینئر رشید نے تہذبی جارحیت قرار دیا ہے۔محکمہ تعلیم نے وادی میں اپنے زونل دفاتر میں فرن پہننے پر پابندی عائد کی ہے،جبکہ سیول سیکریٹریٹ میں بھی انتظامی دفاتر میں جانے والے عام لوگوںپر پھرن پہن کر جانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ زونل آفیسر لنگیٹ نے گزشتہ ہفتہ ایک حکم نامہ جاری کیا،جس میں ملازمین کو فرن پہننے پر پابندی عائد کی۔حکم نامہ میں کہا گیا’’ اس دفتر میں آنے والے تمام ملازمین سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ سرکاری دورے کے دوران معقول ملبوسات زیب تن کریں،جبکہ ’’فرن‘‘،ٹروازر(پاجامے) اور سلیپر، چپلیں،پلاسٹک جوتے پہن کر نہ آنے کی تجویز دی جاتی ہے۔‘‘وادی کے دیگر جگہوں پر بھی چیف ایجوکیشن افسران کے زبانی حکم ناموں پر اس طرح کے حکم نامے جاری کئے جا رہے ہیں۔اس دوران پھرن پر سرکاری دفاتر میں پابندی پر وادی کی سیاست میں بھی ابال دیکھنے کو مل رہا ہے۔سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے محکمہ تعلیم پر زور دیا ہے کہ ملازمین کو فرن پہننے سے دور رکھنے کے حکم نامہ کو واپس لیا جائے۔نیشنل کانفرنس نائب صدر نے ٹیوٹر پر اپنا پیغام درج کرتے ہوئے تحریر کیا’’ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ فرن پر پابندی کیوں عائد کی گئی،یہ ایک افسوس ناک حکم نامہ ہے،جس کا کلی طور پر کوئی بھی مطلب نہیں۔‘‘انہوں نے مزید تحریر کیا’’ فرن موسم سرما کی سردیوں میں(خود کو) گرم رکھنے کا عملی طریقہ ہے،جبکہ ہماری شناخت کا حصہ بھی،اس حکم نامہ کو واپس لیا جائے‘‘۔عمر عبداللہ نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ایک اور ٹیوٹ میں لکھا’’ گزشتہ کئی برسوں سے سرکاری تقاریب کے دوران میں اور میرے والد نے فرن زیب تن کیا،اور بے حس سرکاری احکامات کے باوجود مسلسل ایسا کرتا رہیں گے۔‘‘کشمیر میں فرن صدیوں سے مقامی روایت کا حصہ بنا ہوا ہے،اور موسم سرما و چلہ کلاں کے تیز و تند ہوائوں کے علاوہ سردی سے مقابلہ کرنے کیلئے کشمیر میں ایک ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے کشمیر میں فرن کی ہیت بھی تبدیل ہوچکی ہے،اور نئی ڈائزنگ اور جدید ت کے چلتے اس میں کافی فرق آچکا ہے،اور اب دفاتروں اور اہم تقاریب کیلئے مخصوص طرح کے فرن کا استعمال لایا جاتا ہے۔ عوامی اتحاد پارٹی سربراہ انجینئر رشید نے بھی کہا کہ فرن پر پابندی’’تہذیبی جارحیت‘‘ کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا’’ میں اسمبلی میں بھی فرن پہن کر گیا ہوں،اور سیکریٹریٹ میں بھی جاتا ہوں،ہم اس حکم نامہ کو خاطر میں نہیں لاینگے،کیونکہ یہ تہذیبی جارحیت کا حصہ ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا ُ’’ہم ریاستی گورنر کو دم ٹیوٹھ(چائے) بھی پلائیں گے،کشمیری ٹوپیاں اور فرن بھی پہنیں گے‘‘۔2014میں فوج نے نامہ نگاروں کو بادامی باغ میں ایک پریس کانفرنس میں شمولیت کرنے کے دعوت نامہ میں صاف کہا تھا کہ صحافی فرن پہن کر نہ آئیں،جس کے بعد صحافیوں نے اس پر زبردست اعتراض جتاتے ہوئے ہنگامہ کھڑا کیا۔اس وقت کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی15ویں کور کے کمانڈر کو اس طرح کا حکم نامہ واپس لینے پر زور دیا تھا،اور فوج نے یہ حکم نامہ واپس لیا تھا۔ وادی میں نہ صرف عام لوگ بلکہ بڑے بڑے سیاست دانوں کو بھی سرکاری تقاریب کے دوران فرن زیب تن کر تے ہوئے دیکھا گیا ہے۔سابق وزراء اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ،عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی سرکاری تقاریب میں موسم سرما کے دوران فرن پہنے ہوئے اکثر نظر آئے۔