کشمیری عوام کسی کی نہیں سنتے۔۔۔ کیوں؟

 حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے جموں میں ہندوستان کی سب سے لمبی سرنگ (۲ء۹ کلومیٹر) کا افتتاح کر تے ہوئے کہا تھا کہ ’’کشمیری ٹیرارزم (دہشت گردی) کو چھوڑ کر ٹورزم( سیاحت) اپنائیں‘‘۔ کشمیر میں ان دو ہم صوت الفاظ کا سرے سے ہی کوئی اثرنہ ہو ا۔ سوال اٹھتا ہے کیا وجہ ہے کہ کشمیری عوام آج کسی کی بھی سننے کو تیار نہیں؟ٹیرارزم اورٹورزم کا ایک اور جملہ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے گزشتہ دنوں اپنی ممبئی آمد پر کشمیر کے تعلق سے اُچھالاتھا کہ’ ’ایک سال کے اندر کشمیر کی زمینی صورت حال تبدیل ہو جائے گی‘‘۔اس سے قبل بھی موصوف نے ۲۰۱۶ ء میں کشمیر ہی میں تشدد کے دنوں میں یہ بیان دیا تھا کہ ’’ایک ہفتے کے اندر کشمیر کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے‘‘۔ کیسے ٹھیک ہو جائیں گے ؟کس طرح تبدیلی آئے گی؟ اور سیاحت کو کشمیری کس طرح اپنائیں ؟ یہ سب نہیں بتلایا جاتا۔ یہ جناب صرف جملوں پر جملے داغے جاتے ہیں۔کیا راجناتھ سنگھ اور وزیر اعظم کو پتہ نہیں ہے کہ کشمیر میں سیاحت کی کیا صورت حال ہے؟مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت نے وہ کون سے راستے اپنائے ہیں کہ لوگ بے خوف وخطر ’’کشمیر جنت نظیر‘‘ کی سیاحت کو جائیں اور اپنی چھٹیاں وہاں گزاریں؟آج کل وہاں کے لئے ٹورسٹ سیزن کا زمانہ ہے لیکن سیاحوں کی آمد تقریباً صفر کے برابر ہے۔تمام کے تمام ہوٹلز خالی پڑے ہیں ۔لوگ باگ گھروں میں بیٹھے ہیں ،نوجوانوں کے پاس دوسرا کوئی کام نہیں ہے،بے کاری ہی بے کاری ہے،ان حالات میںاگر کچھ نوجوان تشدد کا راستہ اختیار کر تے ہیں۔اس سب کے لئے کون ذمہ دار ہے؟کشمیر کی ایک بڑی آبادی سیاحت پر انحصار کرتی ہے اور یہ حالات گزشتہ تین برسوں سے مسلسل چل رہے ہیں جس میں ایک سال سیلاب کی تباہی بھی شامل ہے۔
خیر اس برس کشمیر کے تعلق سے مرکزی وزارت داخلہ کی سالانہ رپورٹ برائے ۱۷۔۲۰۱۶ ء جو پیش کی گئی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ ۲۰۱۶ء کے دوران جنگجوئیانہ حملوں اور سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکت میں تقریباً ۵۵؍ فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ گزشتہ برس ملی ٹینسی کے ۳۲۲؍ واقعات رونما ہوئے اور اس دوران ۲۴۷؍ افراد ہلاک ہوئے جن میں ۱۵۰؍ جنگجو،۸۲؍سیکورٹی اہلکار اور ۱۵؍ عام شہری ہیں ،جب کہ ۲۰۱۵ء میں جنگجوئیانہ تشددسے جڑے ۲۰۸؍واقعات پیش آئے اور ۱۰۸؍ جنگجو،۳۹ ؍ سیکورٹی اہلکار اور۱۷؍عام شہری مارے گئے تھے۔۲۰۱۶ء کے دوران دراندازی کی ۳۶۴؍ ایسی کوششوں کے دوران ۱۱۲؍جنگجو جموں و کشمیر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے جب کہ ۲۰۱۵ء میں ۱۲۱؍ ایسی کوششوں کے دوران صرف ۳۳؍جنگجو لائن آف کنٹرول عبور کرکے اِس پار داخل ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔یہ خود مرکزی وزارت داخلہ کی رپورٹ ہے جو سب کچھ بتا دیتی ہے کہ اِن ۳؍ برسوں میں جموں و کشمیر کے حالات کس نہج پر پہنچ گئے ہیں یا پہنچا دئے گئے ہیں ! چونکہ مرکز اور ریاست دونوں ہی جگہوں پر بی جے پی کی حکومت ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ انہیں موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جائے۔ریاست میں پی ڈی پی بھلے ہی قائد پارٹی ہو لیکن اِن ۳؍برسوں میں پتہ چل گیا ہے کہ محبوبہ مفتی کی ہاتھوں میں زمام ِ حکومت نہیں ہے۔وہ یہاں کٹھ پتلی ثابت ہو رہی ہیں اور ان سے ریاست کی باگ دوڑ سنبھالی نہیں جا رہی ہے اور حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں ۔
جموں وکشمیر کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ۲؍ فیصد پولنگ ہوئی ہو۔۱۳؍اپریل کو جو بڈگام ضلع میں۳۸؍ بوتھوں پردوبارہ پولنگ ہوئی تھی، اس میں ۵۳؍ہزار ۱۶۹؍ ووٹوں میں سے صرف ۷۰۹؍ ووٹ ہی پڑے اور ۲۶؍بوتھوں پر تو کوئی ووٹ ڈالنے بھی نہیں آیا۔ ۹؍اپریل کو سرینگر پارلیمانی نشست جو سرینگر ، بڈگام اور گانڈربل اضلاع پر مشتمل ہے،یہاں جوضمنی الیکشن ہوئے تھے اس میں تشدد پھوٹ پڑا تھا اور اس کے نتیجے میں ۸؍لوگ مارے گئے اور قریب ۱۵۰؍ زخمی ہوگئے تھے ۔اس کی وجہ سے ان۳۲؍بوتھوں پر الیکشن کا بائیکاٹ ہوا تھا۔اس کے بعد تو الیکشن کمیشن نے جنوبی کشمیر کے ۴؍حساس اضلاع اننت ناگ، پلوامہ ،کولگام اور شوپیان پر مشتمل اننت ناگ پارلیمانی نشست کے لئے ۱۲؍اپریل کو ہونے والے پولنگ کو ۲۵؍ مئی تک ملتوی کر دیا۔بہرکیف جموں و کشمیر کے جو بھی معاملات ہیں وہ اب کسی سے مخفی نہیں ہیں۔اس سے قبل لوگ ووٹ ڈالنے کے لئے گھروںسے نکلتے تھے۔کشمیر کے لوگوں کو جمہوریت میں کتنا یقین ہے اور ہندوستان کے ساتھ رہنے میںانہیں کتنی دلچسپی ہے؟اس کا ندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دو مرحلوں کو چھوڑ کرانہوں نے انتخابی عمل میں ہمیشہ ہی حصہ لیا ہے ۔گزشتہ لوک سبھا الیکشن ۲۰۱۴ء میں ۵۲ء۴۹؍فیصد جب کہ اس سے پہلے ۲۰۰۹ء میں ۶۸ء ۳۹؍فیصدپولنگ ہوئی تھی ۔ان سب سے بہتر ووٹنگ ۱۹۸۴ء میں ۱۴ء ۶۶؍فیصد درج کی گئی ۔ اسی طرح ۲۰۱۴ء کے اسمبلی انتخابات میں دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں پانچویں اور آخری مرحلے میں ۷۶ ؍فیصد پولنگ ہوئی تھی جب کہ اوسط ۶۶؍ فیصد رہا اور وہیں اس سے قبل ۲۰۰۸ ء کے اسمبلی چناؤ میں ۵۶؍فیصد ووٹ ڈالے گئے تھے۔
یہ اعداد وشمار پیش کرنے کا واضح مقصد یہی ہے کہ بڑے بڑے بول بولنے والے ہمارے وزیر اعظم اِن اعداد وشمار پر نظر دوڑائیں اور اپنا اور اپنی حکومت کا کشمیر کے تعلق سے احتساب کریں اور اس پالیسی کو ترک کر دیں کہ ’’ چیزیں خود بخود دم توڑ دیتی ہیں اُن کی طرف دھیان دینا چھوڑ دو‘‘۔حالات دم نہیں توڑ رہے ہیں بلکہ دن بدن مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں اور اس پالیسی پر اگر قائم رہا گیا تو وہ دن دور نہیں کہحالات قابو سے باہر ہو جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد کیا ہوگا یہ ہم سب ہندوستانی جانتے ہیں کیونکہ یشونت سنہا کا یہ بیان پڑھنے اور سننے جیسا ہے جو انہوں نے کشمیر کا ۳؍بار دورہ کرکے اس وقت کہا ہے جب ۹؍اپریل کے سرینگر پارلیمانی ضمنی انتخابات میں صرف ۷؍فیصد کے قریب رائے دہندگان نے رائے حق دہی کا استعمال کیاکہ ’’کسی قوم کی آواز کو تشدد اور زور زبردستی سے دبایا نہیں جا سکتا ہے۔وادی ٔ کشمیر کے حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں اور اگر فوری طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا تو خطرناک صورتحال پیدا ہو سکتی ہے‘‘۔ 
پس نوشت:سرینگر پارلیمانی سیٹ ڈاکٹرفاروق عبداللہ زائد از۱۰؍ہزار ووٹوں کی بر تری سے جیت گئے ہیں،لوگوں کا ماننا ہے کہ ایسا ہونا ہی تھا۔اس درمیان ایک ویڈیوجو وائرل ہوا جس میں ایک فوجی کو چپت لگتے ہوئے دکھایا گیا جس پر مین اسٹریم میڈیا نے طوفان کھڑا کر دیا تھا اور جس سے متاثر ہوکر گوتم گمبھیر نے ایک بیان داغ دیا تھا کہ ’کشمیر ہمارا ہے ،اسے ہم سے کوئی چھین نہیں سکتا اور ان کا ساتھ دینے کے لئے ویریندر سہواگ بھی میدان میں کود پڑے تھے،پتہ نہیں یہ دونوں اور دوسرے بہت سے لوگ کشمیر کے بارے میں کچھ جانتے بھی ہیں؟اگرچہ اس ویڈیو کی ہوا نکل گئی اور تین دوسرے ویڈیو جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے جن میں ایک کشمیری کو آرمی نے اپنی جیپ میں آگے باندھ کر’’ ہیومن شیلڈ ‘‘کے بطور استعمال کیا اور تاریخ سے یہ ثابت ہوا کہ ۱۹۲۸ء میں انگریزوں نے بھگت سنگھ کو اسی طرح جیپ سے باندھا تھا تاکہ سکھدیو اور راج گرو کو حملہ کرنے سے باز رکھ سکیں ۔دوسرے ویڈیو میں ایک کشمیری کو جوتوں اور بوٹوں سے مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے،یہاں تک کہ اس کے چھاتی پر بھی چڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جب کہ تیسرے ویڈیو میں چند کشمیری نوجوانوں کو جیپ میں بٹھا کر وردی والے مار مار کر یہ کہلواتے ہوئے ’’پاکستان مردہ باد، پاکستان مردہ باد‘‘سنا جا سکتا ہے ۔اس پر مین اسٹریم میڈیاخاموش ہے لیکن اسے اور صاحب اقتدار کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ دور سوشل میڈیا کا بھی ہے اور اب کچھ بھی چھپایا نہیں جا سکتا بلکہ بڑے پیمانے پر ہنگامے کھڑے ہو سکتے ہیں اور انصاف پسند لوگ خاموش نہیں رہ سکتے۔ البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جوسوشل میڈیاکسی کی مقبولیت میں معاون ہو سکتا ہے وہی اس کی تنزلی کا سبب بھی بن سکتا ہے!
اس درمیان کشمیر اور کشمیریوں کی حمایت میں سی پی آئی(ایم ایل) کی ایک لیڈر کویتا کرشنن نے ایک ٹویٹ کیا ہے کہ کشمیر میں نوجوان جو پتھر بازی کرتے ہیں ،وہ پاکستان کی وجہ سے نہیں بلکہ فوج کے انتہائی رویہ کی وجہ سے کرتے ہیں ۔وہ اپنی زمین پر کسی بھی مسلح فوج کا وجود برداشت نہیں کر سکتے ۔انہوں نے مزید لکھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں ان باتوں کو سمجھتے ہوئے اپنی پالیسیاں بنانی چاہئیں لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ کشمیر کے ہر واقعہ کے رد عمل میں ہم لوگ دوگنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور معاملات بگاڑ دیتے ہیں۔اسی طرح کا موقف ارندھتی رائے بھی رکھتی ہیں لیکن کیا اس طرح کا بیان کوئی ہندوستانی مسلمان دے سکتا ہے؟
…………………
 نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو،نئی ممبئی کے مدیر ہیں 
 رابطہ9833999883