سرینگر//ڈاکٹرس ایسوسی ایشن نے کشمیروادی میں غیرضروری طور جراحی کے ذریعے بچوں کی پیدائش پرتشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ا ن میں سے اکثرجراحیاں صرف مالی فوائد کیلئے انجام دی جاتی ہیں۔ایک بیان میں ڈاکٹرس ایسوسی ایشن کے صدرڈاکٹر نثارالحسن نے کہا کہ ڈاکٹر غیرضروری طور جراحی کے ذریعے بچوں کی پیدائش عمل میں لاتے ہیں تاکہ انہیں مالی فائدہ ہو۔انہوں نے کہا کہ کشمیرمیں زچگی ایک نفع بخش کاروبار بن چکاہے ۔انہوں نے کہا کہ نجی اسپتالوں اورڈاکٹروں کے درمیان ملی بھگت کی وجہ سے مریضوں کو جراحی کیلئے مجبور کیا جاتا ہے۔ڈاکٹرس ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ ایک تصور بنایا گیا ہے کہ جراحی معمول کی زچگی سے بہتر ہے ۔انہوں نے کہا کہ صحت مند خواتین کوڈاکٹر یہ کہہ کر جراحی کیلئے رضامندکرتے ہیں کہ جراحی کے نام نہاد فائدے ہیں ۔ڈاکٹر نثار نے کہا کہ پہلی بار ماں بننے والی خواتین کو خاص طور سے جراحی کیلئے آمادہ کیاجاتا ہے کیوں کہ ایک بار جراحی کے بعد اُسے مزیدزچگیوں کے لئے لازمی طور جراحی کرانا پڑے گی ۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کو جراحی سے زیادہ پیسے ملتے ہیں بنسبت کہ معمول کی زچگی کے اوراسپتالوں کے بھی وارے نیارے ہوجاتے ہیں کیوں کہ مریض کو اسپتال میں کئی دن رکناپڑتا ہے اوراُسے طبی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ معمول کی زچگی سے جراحی آسان ہے اوراس میں وقت کم لگتا ہے اور نفع زیادہ ملتا ہے ۔انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک ڈاکٹر کو معمول کی زچگی میں جتنا وقت صرف ہوگا اس میں وہ بارہ جراحیاں انجام دے سکتا ہے ۔ڈاکٹر نثار نے کہاکہ سرکاری اسپتالوں میں بھی اب ڈرامائی طور جراحی کے ذریعے زچگی انجام دینے میں اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ پوسٹ گریجویٹ طلباء تیکنیک سیکھنے کیلئے جراحی انجام دیتے ہیں جبکہ وہ لازمی نہیں ہوتی ہے۔جراحی کے ذریعے زچگی جسے سی سیکشن کہاجاتا ہے میں پیٹ اوررحم کوچاک کرکے بچے کو باہر نکالاجاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ عالمی صحت تنظیم کے مطابق جراحی کے ذریعے زچگی 10فیصدسے زیادہ کل زچگیوں میں انجام نہیں دینی چاہیے اور صرف ہنگامی طبی معاملوں میں سی سیکشن کیا جانا چاہیے،لیکن کشمیر کے اسپتالوں میں80فیصدزچگیاں سی سیکشن یعنی جراحی کے ذریعے عمل میں لائی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ غیرضروری جراحیاں بچے اور حاملہ دونوں کیلئے خطرناک ہیں ۔حاملہ کو اس سے زیادہ خون نکلتا ہے ،انفیکشن ہونے کاخطرہ ہے اورخون کے لوتھڑے بننے کا امکان ہے ۔تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ معمول کی زچگی کے مقابلے میں جراحی کے بعدماں کے فوت ہونے کاامکان چار سے پانچ گنا بڑھ جاتا ہے ۔نومولود کیلئے جراحی کا مطلب چھاتی سے دودھ پلانے میں تاخیر،پیدایش کے وقت کم وزن ہونا،تنفس کے مشکلات اور اسپتالوں میں قیام کی شرح میں اضافہ۔انہوں نے کہا کہ قدرتی طور زچگی کا طریقہ معقول ہے اور اگر معدے سے بچے کو باہر نکالا جانا بہتر ہوتا توقدرت نے اس کیلئے یقینی طور نظام بنایا ہوتا۔
کشمیرمیں 80فیصدحاملہ خواتین کی جراحی سے زچگیاں
