وادی ٔکشمیر میں داروگیر کا ماحول عرصہ دراز سے جاری ہے، خون خرابہ عروج پرہے ، انسانی حقوق کی پامالیاں رُکتیں ہی نہیں ،وقفہ وقفہ کے بعد اعلانیہ اور غیر اعلانیہ کرفیو کا نفاذ اس پر مستزادہے ، نیز احتجاجی مظاہروں پر گولی باری ، لاٹھی چارج ، ٹئیر گیس کا استعمال ، پکڑ دھکڑ ، گرفتاریاں، نظر بندیاں بے دریغ ہورہی ہیں۔ احتجاجی مظاہرین کی طرف سے مظاہرے، پتھر بازیاں، ہڑتالیں بھی مسلسل جاری ہیں۔ مزاحمتی تحریک کے لیڈروں کی طرف سے احتجاج کے مرحلہ وار کیلنڈر بھی بدستور جاری ہورہے ہیں۔ فورسز اور احتجاجی مظاہرین کے اس خون ریز تصادم کے باعث نہ صرف روز انسانی جانیں تلف ہوتی ہیں بلکہ اس وقت بھی ہزاروں افراد زخمی پڑے ہیں، سینکڑوں زخمی جسمانی طورپر ناکارہ ہوچکے ہیں اور لاتعداد نوجوان قوت بینائی سے محروم ہونے کے علاوہ دماغی بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں،سچ مچ وادی میں کاروبار بہت پہلے سے معطل چلا آرہاہے۔ سڑکیں اوربازار ویران ہوں ،سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے اور ہر قسم کے شعبے بار بار بند پڑیں تو جنت بے نظیر جانی والی وادی کیونکر سیاحتی سیزن کا فیضان سمیٹ سکتی ہے جس پر وادی کشمیر کی معیشت کا زیادہ تر دارومدار ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ یہاں اشیائے خورد ونوش نہ صرف کمیاب بلکہ اکثر نایاب ہو جاتاہے اور منہ مانگے داموں فروخت ہوتی ہیں ۔ لہٰذا یہ کوئی حیرانگی کیا بات نہیں کہ ایک جانب مہنگائی بڑھ رہی ہے اور بے روزگاری رُوبہ اضافہ ہے ، دوسری جانب محنت مزدوری کرکے روزی کمانے والے لوگ نان شبیہ کے لئے محتاج ہیں۔ وادی میں عجیب طرح کی افراتفری کا ماحول ہے،ہر طرف آہ وبکااور ماتم ہے ۔اگر زمینی صورت حال کوقیامت صغریٰ سے تشبیہ دی جائے تو کوئی مبالغہ آرائی نہ ہوگی ۔ ان ناگفتہ بہ حالات کا دردناک، کربناک اور افسوسناک ماجرا یہ ہے کہ کسی طرف سے بھی اس ماحول کو ختم کر نے کے لئے مسئلے کاحل ڈھونڈ نکالنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظرنہیںآتی ۔ اس قیامت خیز ماحول پر سیاسی لیڈروں کی بیان بازیا تو مسلسل جاری ہیں لیکن اس کا حل کیا ہے ،اس پر کوئی سنجیدہ گفتگو کوشش نہیں ہوتی۔ یہ سب سے بڑا المیہ ہے۔
ہندوستان کی اپوزیشن پارٹیوں نے کشمیر کی موجودہ صورت حال پر واویلا تو بڑا کیا لیکن صورت حال کومعمول پرلانے کے لئے جونسخے تجویز کئے،اُن پر معمولی عمل بھی ہوا لیکن نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی نکلا ۔ ان پارٹیوں نے وزیراعظم نریندرمودی کی طرف سے کشمیر کے متعلق بیان کا مطالبہ کیا، ہندوستانی پارلیمنٹ کے دونوںایوانوں میںبحث و مباحثہ کی مانگ کی۔ آل پارٹیز میٹنگ کرنے کامطالبہ کیا۔ نریندرمودی کابیان بھی سامنے آیا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی قراردادیں بھی منظر عام پر آگئیں۔ آل پارٹیز میٹنگ کی قرارداد بھی سب نے سنی لیکن نہ جبر وتشد د ختم ہوا،نہ تصادم آرائیاںختم ہوئیں ، نہ ہی کشمیر کی عوام کے اصل دکھوں کا کوئی علاج ومعالجہ ہوا کیونکہ ان سب میں رٹی رٹائی فقرہ بازی، محاورہ بازی تھی اورصورت حال بدستور پہلی جیسی ہے۔ ریاستی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی ریاستی اسمبلی کی پارٹیوں کی میٹنگ کی لیکن نتیجہ صفر کے برابر ۔ دنیشور شرما مذاکرات کار بھی وادی خوب گھوم آئے لیکن حالت جوںکی توں ہے۔ مزاحمتی لیڈروں کی طرف سے بھی کوئی باقاعدہ تجویز سامنے نہیں آئی تاکہ بنیادی امور پر مذاکرات شروع ہونے کا عمل شروع ہو سکے۔ پاکستان کی طرف سے کشمیر کے عوام کے ساتھ روایتی یکجہتی کا مظاہرہ بھی ہوا لیکن موجودہ ڈیڈ لاک اور تعطل کو ختم کرکے حالات معمول پر لانے کے سلسلہ میں کوئی تجویز نہیںآئی تاکہ مذاکرات پھرسے شرو ع ہوسکیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ مسئلہ کشمیر کے سارے شریک کھاتہ فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور کوئی بھی موجودہ ماحول کو ختم کرکے معمول کے حاْلات پید ا کرکے سنجیدگی سے اختلافی امور پر مذاکرات کے لئے تیارنہیں۔ مرکز کے حکمران اور اپوزیشن پارٹیاں کشمیر کے ہندوستان کا اٹوٹ اَنگ کے موقف کو پس پشت ڈال کر غیر مشروط مذاکرات کے لئے تیارنہیں، جب کہ مزاحمتی خیمہ کا عندیہ ہے کہ جب تک کشمیر کو متنازعہ مسئلہ قرارنہ دیا جائے مذاکرات کے میز پر آنے کے لئے یہ تیار نہیں۔ ایسی صورت میں کس طرح کوئی مذاکراتی حل سامنے لایا جاسکتا ہے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام فریق فی الحال غیر مشروط طورپر مذاکرات شروع کرکے مسئلہ کشمیر کا کوئی پُرامن متفقہ حل نکالیں۔ وگرنہ جنت ارضی کشمیر تباہ وبرباد ہوجائے گابلکہ برصغیر جنوبی ایشیاء بھی جنگ کی لپیٹ میں آکر صفحہ ٔ ہستی سے مٹ جائے گا۔ اس لئے تقاضائے وقت ہے کہ کشمیر کے شریک کھاتہ عناصر بصدق دل غیر مشروط طورپر مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں۔ اسی طرح خطہ کشمیر کاکوئی دیرپا حل بھی نکل سکتاہے۔ ہٹ دھرمی سے تباہی وبربادی کے علاوہ کچھ حاصل نہیںہوگا۔ تمام محبان جموںو کشمیر کافرض ہے کہ وہ تینوں فریقوں میںسے کسی کی طرفداری کا رویہ ترک کرکے متعلقین میںغیر مشروط مذاکرات کا زوردار مطالبہ کریں۔ یہی غیر مشروط مذاکرات خطہ کشمیر کے بنیادی سیاسی مسئلہ کو حل کرسکتے ہیں۔ اگرمرکزی حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی موجودہ تحریک آخرکار وقت کی طوالت کے ساتھ ختم ہوجائے گی، امن خود بخود بحال ہوجائے گا اورمعمول کے حالات از خودپیدا ہوجائیںگے، تووہ غلط فہمی یا خوش فہمی کے شکار ہیں۔ وقتی طورپر سیاسی تحریک دب بھی جائے لیکن سلگتی ہوئی آگ پھر شعلہ بن سکتی ہے، جیسا کہ 1989کے واقعات کے بعد کچھ عرصہ خاموشی کے بعد 2008اور پھر 2010میںہوا اور۱ب2017 میںبھی یہی ہورہاہے۔ اس سلسلہ میں مرکزی حکمرانوں کی خاص کر ذمہ داری بنتی ہے کہ کسی ابہام کا شکار نہ ہوں اور مسئلہ کے دونوں فریقوں سے مذاکرات کے لئے پہل کریں۔اس طرح مزاحمتی تحریک کے لیڈروں کو بھی تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہیے کہ محض احتجاج اور احتجاجی کیلنڈر جاری کرنے سے پیچیدہ مسئلے کاکوئی حل نہیںنکل سکتا۔پاکستان کے لیڈروں کو بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ مذاکرات میں ہی اس مسئلہ کا حل مضمر ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تین جنگوں کے موقعہ پر بھی ہم نے مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ حل کرنے کی وکالت کی تھی۔تین باقاعدہ جنگوں کے باوجود نہ ہندوستان اپنے مقاصد حاصل کرسکاہے اور نہ ہی پاکستان۔ 1989میںملی ٹینٹ سرگرمیاں شرو ع ہونے پر بھی ہم نے کہاتھا کہ نہ ہندوستان جبر وتشدد سے تحریک ختم کرسکتاہے اور نہ ہی ملی ٹینٹ بندوق کی نالی سے آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔آج بھی حق یہی ہے کہ محاذ آرائی، تشدد، جنگ وجدل سے مسئلہ کشمیر حل نہیںہوگا بلکہ اس سلسلہ میں مسئلہ سے جڑے تینوں پارٹیوںکو بات چیت کی میز پرآنا چاہیے۔ اسی سے کشمیر میں بنیادی مسئلہ بھی حل ہوسکتاہے۔ اس موقعہ پر ہم یہ اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں کہ بلاخوف تردیدیہ واضح کردیں کہ اگر سارے متعلقین نے کشمیری عوام خصوصاً کشمیری نوجوانوں کی بے اطمینانی، بے چینی اور مسائل کونہ سمجھ کر مذاکرات کے ذریعہ کوئی مثبت اور قابل قبول حل دریافت نہ کیا تو یہ بے چینی، بے اطمینانی ، ناامیدی، اضطراب ، بے قراری کوئی بھیانک شکل اختیار کرسکتی ہے اور خطہ میں بھی افغانستان ، عراق اور شام جیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ارضی حالات کا منظرنامہ بتاتا ہے کہ موجودہ تحریک کشمیربھی روائتی مزاحمتی لیڈروں کے ہاتھ سے بھی نکلتی جارہی ہے، اس لئے اگر فوری طورکوئی خاطر خواہ حل مذاکرات کے ذریعے دریافت نہ کیا گیا تو خدا جانے کہ سب کو کن حالات سے دوچار ہوناپڑے گا ؟ حالات کی رفتار اور متعلقین کی لاپرواہی ، کشمیر یوں کا احسا س بیگانگی اور ارباب حل وعقد کی ناقص اور غیر حقیقت پسندانہ کشمیر پالیسی کے بارے میں یہی کہا جاسکتاہے ؎
تیری بزم میں ابھی اور گل کھلیںگے
اگر رنگ ِیارا نِ محفل یہی ہے