جدید دنیا علوم کے میدان میں کافی آگے نکل چکی ہے ،ہر طرف تحقیقات اور دریافتوں کا ایک سیل رواں جاری ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ معلوم دنیا اور قابلِ قیاس دنیا کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جو انسان کی تحقیق و تفتیش سے باہر ہو ۔اس تحقیق وتدقیق کو جہاں ایک زمانے میں مذہب روکے ہوئے تھا ،آج وہ مذہب خودبھی تحقیق کا موضوع بنا ہوا ہے ۔سائنس کی مدد سے مذاہب کا جائزہ لیا جارہا ہے ،بائبل کی روایات ہوں یا قرآن مجید کی آیات سائنٹفک انداز سے ان کو جانچا جا رہا ہے۔مثلاًبائبل میں بیان کردہ جو بھی تاریخی مواد ہے اس کی صحت کو کڑے تاریخی وسائنسی اصولوں کے تحت جانچا جارہا ہےاور یہ بات سامنے آرہی ہےکہ بائبل میں تضادات نامطابقت کی ایک دنیا قائم ہے ۔تضاد یا نامطابقت کی دو قسمیں ہیں ایک داخلی اور دوسری خارجی ۔داخلی تضاد یہ ہے کہ کتاب کا ایک بیان دوسرے بیان سے ٹکرا رہا ہوں ۔خارجی تضاد یہ ہے کتاب کا بیان خارجی دنیا کے حقائق سے ٹکراتا ہو ۔قرآن مجید ان دو نوں قسم کے تضادات سے خالی ہے جبکہ بائبل جو اگرچہ ابتدائی حالت میں خدا کا کلام تھی لیکن بعد کی انسانی تحریفات کے نتیجے میں اس میں داخلی اور خارجی تضادات پیدا ہو گئے۔ زیر بحث موضوع کے حوالے سے بھی بائبل میں ایسے بیانات داخل کئے گئے ہیں جو جدید سائنسی اصولوں کے صریح خلاف ہیں۔بائبل کے مطابق طوفانِ نوح بیک وقت پوری زمین پر آیا تھا ۔یہ روایت نہ تاریخی طور پر ثابت ہو پائی اور نہ جدید آثارِ قدیمہ کی تحقیقات سے اس کااثبات ہورہا ہے ۔بائبل میں کشتی نوح کا طوفان کے بعد ٹھہرے جانے کا مقام کوہ ارارات بتایا گیا ہے ،جہاں سے جدید سائنسی تحقیق کے مطابق تاہنوز کوئی ٹھوس ثبوت دریافت نہ ہو سکا ہے ۔اس مقام پر عیسائی آرکھیئولوجسٹ کی متعدد کوششوں کے باوجود کوئی قابلِ اعتماد و مستند باقیات دریافت نہ ہو سکی لیکن پھر بھی نہوز آرک مینسٹر انٹرنیشنل نے 2010میں ایک دعویٰ کر ڈالا کہ انہوں نے کوہ ارارات پر کشتی نوح کی باقیات کو دریافت کیا ہے لیکن یہ کیسی دریافت (Discovery)ہے کہ جس کو ایوینجلسٹ (Evangelist)محققین ابھی تک راز کے طور پر رکھ رہے ہیں ۔مزکورہ بالا سطریں سفینہ نوح کی کہانی کا ایک پہلو ہے اب آپ کہانی کا دوسرا پہلو ملاحظہ فرمائیں ۔
16 جنوری 1994دی اوبزروور(The observor) اخبار کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں کی ایک جماعت کا دعوی ہے کہ انہوں نے کشتی نوح کو ترکی اور ایران کے بارڈر پر کوہ ارارات سے تقریبا 32 کلو میٹر کی دوری پر واقع مقام پر پایا ہے ۔اصل میں اس مقام پر کشتی نما ایک خاص جگہ دریافت ہوئی ہے جو جودی پہاڑ کے بالکل نیچے موجود ہے جس کا ذکر قرآن مجید کے سورۃ ہود میں آیا ہے ۔ترکی کی اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات کے سربراہ صالح بیر اکتتان کہتے ہیں کہ یہ جگہ یقینا کشتی نوح کی باقیات میں سے ہے اور یہ مین میڈ اسٹرکچر ہے ۔ یہ کشتی نما مقام دروپینار کے نام سے موسوم ہے ۔اس کشتی نما مقام کی تصویر سب سے پہلے ایک امریکی میگزین لائف میں شائع ہوئی تھی اور اس فوٹو کو دیکھ کر ایک امریکی ایڈونچرر رونالڈ ایلڈن ویاٹ( Ronald Eldon wyat) نے اس کشتی نما دروپینار جگہ کا کئی بار سفر کیا اور گہرا معائنہ کرنے کے بعد اپنی کتاب "کشتی نوح ،دریافت شدہ"( Discovered:Noah's Ark)میں نتائج لکھے۔ان سے متاثر ہو کے ڈیوڈ فاسولڈ (David Fasold) نے بھی اس جگہ کا سفر کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ جگہ ہی دراصل کشتی نوح ہے ۔فاسولڈ اور اس کی ٹیم کو اس جگہ سے کشتی کے باقیات دریافت ہوئے جو ڈائمنشن میں اسی ناپ کے تھے جس کا ذکر بائبل میں کیا گیا ہے ۔فاسولڈ نے اپنی کتاب "کشتی نوح "(Noah's Ark) میں تفصیل کے ساتھ اپنی تحقیق کا سفر قلمبند کیا ہے ۔فاسالڈ کی دریافت کے بعد اس جگہ کو ترکی کی حکومت نے سیل کیا اور آفیشلی اس جگہ کو کشتی نوح کے ٹھہرنے کی جگہ قرار دیا ہے ۔آرنالڈ اور فاسالڈ کی تحقیق پر بہت زیادہ تنقید بھی ہوئی ہے لیکن اس تنقید کی وجہ صرف یہ معلوم ہوتی ہے کہ عیسائی محققین کشتی نوح کے ٹھہرنے کی جگہ بائبل میں مذکور شدہ جگہ کوہ ارارات کو مانتے ہیں اور ابھی تک کوہ ارارات کو لے کر ہی ساری تحقیق اس حوالے سے ہو رہی تھی ۔کوہ ارارت پورے سال برف سے ڈھکی رہتی ہے اس لئے عیسائی حضرات کشتی نوح کا مقام زیرِ برف قرار دیتے تھے ۔اس جگہ سے تاہنوز کوئی بھی سائنٹفک ثبوت حاصل نہیں ہو پایا ہے ۔خود فاسولڈ بھی پہلے ارارات کو ہی کشتی نوح کا مقام سمجھتا تھا لیکن ریان وائٹ کے دعوٰ ی کے بعد فاسالڈ نے اسی جگہ کو کشتی نوح کامقام قرار دیا ،جس کی تصویر 1959 میں ترکی کی فزائیہ نے نیٹو کے لئے کی جانی والے میپنگ مشن کے دوران لی تھی ۔
سفینہ نوح ؑ کی تلاش کےحوالے سے جو بھی کچھ تحقیقات سامنے آئی ہیں تاہنوز وہ قابل اطمینان قرار نہیں پارہی ہیں کیونکہ محققین کا ایک گروہ یہ دعوٰ ی کر رہا ہے کہ انہیں کشتی کوہ ارارات کی برف سے ڈھکی چوٹی کے نیچے سے دریافت ہوئی ہے لیکن ابھی تک اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کوئی بین اور واضح ثبوت سامنے نہیں لا رہے ہیں ۔کوہ ارارات کو ہی سفینہ نوح ؑ کا اصلی جائے قرار ماننے والےعیسائی محققین کوہ جودی کے نیچے دریافت شدہ کشتی نما ٹیلے کو کشتی نوح کی ٹھہرنے کی جگہ ماننے سے یکسر انکار کر رہے ہیں کیونکہ وہ بائبل کے بیان کو ہی زیادہ مستند مان کر بہر قیمت کوہ ارارات کو ہی اصل جگہ مانتے ہیں ۔حالانکہ زیادہ تر قرائن کوہ جودی کے حق میں ہیں ۔سفینہ نوح دریافت شدہ پروجیکٹ کے امریکی اور ترک محققین کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے پاس اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کشتی نوح دروپینار کے ٹیلے کے نیچے موجود ہے ۔جی پی آر(GPR) اور ای آر ٹی(IRT) ٹیکنولوجی کے 3ڈی سیکین کا استعمال کرنے بعد استنبول یونیورسٹی کے ڈپارٹمنت آف جئیو فزئیکل انجئنیرنگ(Dept of Geophysical Engineering) اور اپلائڈ جئیوفزکس(Applied Geophysics) کے سائنسدان اینڈریو جونس (Andrew Jones) اور ڈاکٹر فیتہی اہمت(Dr Fehti Ehmet) یہ یقین رکھتے ہیں سیکین کے نتائج مذکورہ جگہ کے اندر ایک انسانی مصنوعات کا پتہ دیتے ہیں جو یقیناکشتی نوحؑ ہی ہوگی لیکن سائنٹفک براداری کو ان کی تحقیق پر فی الحال تحفظات ہیں ۔دی یروشلم پوسٹ میں ایک شائع ہوئے مضمون میں خاتون مضمون نگار لکھتی ہے ؛ " دروپینار کی ابتدائی دریافت کو اگر چہ سطحی اور ایک قدرتی واقعہ مانا گیا ہے لیکن پھر بھی کچھ محققین اس یقین کے ساتھ اس جگہ پر اپنی تحقیقات جاری رکھے ہیں کہ اسی جگہ کے نیچے کہیں سفینہ نوحؑ موجود ہے ۔شاید سکین اور جدید ٹیکنولوجی کا استعمال جو ابتدائی مہموں کے وقت موجود نہ تھی، مذکورہ جگہ کا گہرا معائنہ کرنے کی تحریک بخشے، جو ہو سکتا ہے اپنے اندر تاریخی باقیات کا ایک نہایت اہم جز چھپائے رکھا ہو۔"
کوہ جودی کے حق میں بمقابلہ کوہ ارارت زیادہ سائنٹفک تحقیق موجود ہے ۔پیس ٹی وی کے سابق اسپیکر عبدالرحییم گریم اپنے ایک لیکچر میں کہتے ہیں کہ کوہ ارارات کوہ جودی کے مقابلے میں ریسنٹ جئیولوجیکل فارمیشن ہے جو طوفان نوح کے وقت موجود نہیں تھی ،اس لئے یہ ناممکن ہے کہ سفینہ نوح کوہ ارارات پرجا ٹھہری ہو ۔