کشتواڑ کے 6 لاپتہ شہری 3روز بعد گھر پہنچ گئے

کشتواڑ//گزشتہ تین روز سے مرگن ٹاپ کشتواڑ میں پھنسے واڑون علاقہ سے تعلق رکھنے والے 6افراد جمعہ کی دوپہر اپنے گھر صحیح سلامت پہنچ گئے ۔ایس ایس پی کشتواڑ شفقت حسین بٹ نے کہا کہ انہوں نے فون پر گھر لوٹے ایک شخص سے بات کی اور وہ سبھی محفوظ ہیں۔ یہ سبھی افراد 30سالہ اعجاز احمد،25سالہ محمد اکبر ،20سالہ غلام نبی ،18سالہ گلزار احمد،20سالہ منظور احمد اور18سالہ ارشاد احمدمنگل کی دوپہرمتی گائورن کوکر ناگ سے پیدل واڑون کی طرف مرگن ٹاپ کے راستے نکلے جسکے بعد انکا آخری مرتبہ اپنے گھروالوں سے فون پر مرگن سے منگل کی رات نو بجے رابطہ ہوا تھا جسکے بعد انکی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ انتظامیہ نے پورے علاقے میں بڑے پیمانے پر جمعرات کو ریسکیو آپریشن شروع کیا اور کئی ٹیموں کو مرگن ٹاپ کی طرف روانہ کیاگیا ۔جمعہ کی صبح جدید آلات سے لیس ا یک ٹیم بھی علاقہ میں بھیجی گئی تھی۔اس دوران جمعہ قریب صبح دس بجے واڑون کے شہری بشیر احمد نے دووربین سے چھ افراد کو واڑون کی طرف آتے دیکھا جسکے بعد اسکی اطلاع پولیس کو دی گئی اور ایس ایس پی کشتواڑ نے واڑون سے پولیس کی ٹیم روانہ کی جسکے بعد پولیس و مقامی لوگوں نے جاکر انھیں نیچے لایا۔تین دن تک لاپتہ رہنے والے افراد میں سے30سالہ اعجاز احمد کوکا نے کشمیر عظمیٰ کو فون پر بتایا کہ منگل کی شام نو بجے مرگن ٹاپ پر پہنچ کر انہوں نے آخری مرتبہ فون سے گھر رابطہ کیا تھا، اسوقت مرگن میں موسم بہتر تھا ۔انہوں نے کہا کہ برفباری شروع ہوتے ہی قریب 11.30 بجے مرگن میں کشتواڑ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی بنائی گئی ہٹ میں پہنچ گئے اور دوروزتک وہیں قیام کیا۔انہوںنے کہا کہ ہٹ میں جانوروں کا گوبر موجود تھا، جسے جلاکر انہوں نے دورز تک اپنے آپ کو گرم رکھا ۔اعجاز نے کہا’’ہمارے پاس چند روٹیاں تھیںجو ہم سب نے ملکر کھائیں۔ جمعرات کی صبح موسم بہتر ہوتے ہی آٹھ بجے ہم نے دوبارہ اپنا سفر شروع کیا اور دن بھر چلنے کے بعد شام نوبجے ناڑی بالن پہنچ کر وہاں عارضی ہٹ میں رات گزاری ۔ انکا کہنا تھا کہ اب ہمارے پاس ایک ایک روٹی اور چند ٹافیاں بچی تھیںجو سبھی افراد نے کھاکررات گزاری اور جمعہ کی صبح نو بجے کے قریب ناڑی بالن سے نکل کر قریب ا یک بجے واڑون صحیح سلامت پہنچ گئے‘‘۔ اعجاز احمدنے بتایا کہ مرگن میں دس فٹ سے زائد برف اسوقت جمع ہے جبکہ وہ کسی کی مدد کے بغیر گھر پہنچ گئے۔ واڑون سے پولیس و مقامی لوگوں کی ایک ٹیم غوزر تک گئی اور انہیں وہاں کھانا کھلایا اور واپس واڑون پہنچایا۔واضح رہے کہ گزشتہ بیس برسوں کے دوران یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ مرگن ٹاپ سے لوگ زندہ واپس لوٹے ہوں۔ سرپنچ انشن شمشادہ بیگم نے بتایا کہ سال 2006میں تین اساتذہ مرگن درہ کو پارے کرتے ہوئے اپنی جان گنوا بیٹھے تھے ۔ سال 2007میں پولیس کے 4جوان، سال 2009 میں ا یک، سال 2016 میں ایک ، سال 2019میں ایک شخص جبکہ گزشتہ سال اکتوبر میں ایمبولینس ڈرایئور کی موت بھی اسی درہ کو عبور کرتے ہوئی۔اس دوران پولیس نے مڑواہ و واڑون کی عوام سے اپیل کی کہ وہ سردیوں کے دوران ان راستوں پر سفر کرنے سے گریز کریں اور موسمی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہی اپنے علاقوں کا رخ کریں۔